ایک عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ناول نگار کے بارے
میں مشہورہے کہ دنیا نے اتنا پڑھانہیں جتنا ایم اے راحت نے لکھا ہے یہ ایک
ایسا اعزاز ہے جو آج تک کسی کے حصہ میں نہیں آیا بلامبالغہ ایم اے راحت ایک
عظیم رائٹر تھے جنہوں نے دنیا کے ہر موضوع پر لکھا اور اس انداز سے لکھا کہ
ان کی ہر تحریر یادگار بن گئی معاشرتی مسائل اور مافوق الفطرت کردار ان کی
تحریروں میں خاص طورپر نمایاں تھے ایم اے راحت کااصل نام مرغوب احمد راحت
تھا 1941 میں ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ اس کے والد راگھ سیمبی علی
گڑھ میں پروفیسر تھے جبکہ ان کے دادا حبیب علی راغب کا شمار بھی شہر میں
ایک عالم اور روحانی شخصیتوں میں ہوتا تھا ۔ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے
بعد ، اس کا کنبہ پاکستان ہجرت کر کے کراچی آگیا۔ والد کی وفات کے بعد ،
مرغوب علی راحت نے اپنی فیملی کی کفالت کیلئے مختلف پیشوں کو اپنایا ملوں
میں مزدوری کی اور دیگر نجی ملازمتیں بھی کیں لیکن نا مساعد حالات کے
باوجود انہوں نے ملازمت کے ساتھ ساتھ ساتھ اپنی تعلیم کوبھی جاری رکھا اور
1950 میں گریجویشن پاس کرلی پھر ایم اے راحت نے ایم اے اردو کراچی
یونیورسٹی سے کیا ایم اے راحت نے ابتدائی عمر میں ہی لکھنا شروع کیا تھا وہ
معروف جاسوسی ناول نگار ابن ِصفی سے بہت متاثر تھے۔ اس لئے ایم اے راحت نے
بھی انسی انداز اور ڈھب کی کہانیاں لکھنا شروع کردیں لیکن پبلشروں کے انکار
کے باوجود وہ دلبرداشتہ نہ ہوئے اور لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھا اسی
اثناء میں ایم اے راحت کی ملاقات ا ایک پبلشر سلطان احمد سے ہوئی اسے ایم
اے راحت کی ایک طبع زاد کہانی بہت پسند آئی یہ جاسوس ناول لوگوں کو بہت
پسند آیا۔ اس کے بعد اس نے پیچھے نہیں دیکھا اور معاشرتی امور ، رومانوی ،
ہارر ، سنسنی خیز ، جاسوس ، کارروائی اور جرائم پر اس قدر لکھا کہ دنیا کے
تمام رائٹروں کے ریکارڈ ٹوٹ گئے پھر اس نے مختلف ڈائجسٹ اور رسالوں کے لئے
قسط وار کہانیاں لکھنا شروع کردیں ایک وقت وہ بھی آیا کہ ایم اے راحت کی
کہانی کے بغیر ڈائجسٹ نامکمل سمجھا جانے لگا بلا شبہ ایم اے راحت کو
ڈائجسٹوں کی تاریخ کا سب سے مقبول وہردلعزیز ناول نگار کہاجاسکتاہے ان کا
جوجو بھی ناول وائرل ہوتا اس میں اس قدرسسپنس،تھرل اور دلچسپ ہوتا کہ قاری
اس کے سحر میں ڈوب ڈوب جاتا پھر قارئین بے چینی سے ایم اے راحت ناول کے
اگلے حصے کا انتظار کرتے۔ انہوں نے اپنے لکھنے کے انداز پر کرشن چندر اور
ابن صفی کے اثر کو تسلیم کرتے ہوئے تحریروں کا ایک انوکھا انداز قائم کیا۔
ایم اے راحت نے لکھنے کا روایتی طریقہ ٔ کار ترک کرکے نیا انداز اختیارکیا
انہوں نے باقاعدہ دفتر بنایا وہ بول کر کہانیاں ریکارڈ کرتے پھر ان کے
جونیئر وہ کہانیاں ٹیپ ریکارڈ سے کاغذپر منتقل کردیتے ایم اے راحت بیک وقت
مختلف کہانیاں ریکارڈ کرواتے تھے ایسے محسوس ہوتا جیسے ان کے اندر کوئی
کمپیوٹربول رہاہو ٹی وی کا دور آیا تو ابتدا میں انہوں نے کسی بھی ٹی وی
چینل کے لئے اپنی کہانیوں کو ڈرامائی انداز میں دینے سے انکار کردیا ایم اے
راحت کا خیال تھا ٹی وی ڈراموں میں سیاق و سباق کا خیال نہیں رکھاجاتا جس
سے کہانی تبدیل ہوجاتی ہے بہرحال پھران کے ناولوں پر کئی ڈرامہ سیریز نے
کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کئے ۔ایم اے راحت نے ایک پیشہ ور مصنف کی حیثیت
سے ایک طویل کیریئر لیا تھا اور انہوں نے ہزاروں کہانیاں لکھیں۔ تمام
پسندیدہ موضوع، عنوانات اور مسائل ایم اے راحت ناول کی فہرست میں ہیں ، جو
ہمیشہ قارئین کو راغب کرتے ہیں۔ انہوں نے سیاست اور مذہب پر لکھنے سے گریز
کیا لیکن اپنی کہانیوں میں دیگر تمام امور پر تبادلہ خیال کیا۔ مرغوب علی
راحت کا زیادہ تر کام سوشل میڈیا اور مختلف بلاگ پر وائرل ہے ، لیکن ایم اے
راحت کی بائیو گرافی پر کافی زیادہ کام نہیں ہوا وہ ایک درویش صفت رائٹر
تھے خوشامد،لالچ اور صلہ سے بے نیازہوکر کام کرنے والے یہی وجہ ہے کہ اسے
سرکاری یا ادبی کلبوں سے کوئی ایوارڈ نہیں ملا۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ایم اے
راحت کی زندگی کے بارے میں کام کیاجائے تاکہ ایک عظیم ناول نگار کو خراج ِ
تحسین پیش کیا جاسکے۔ ایم اے راحت نے جب اپنا ناول صدیوں کا بیٹا لکھنے کا
آغازکیا تو دنیا بھرمیں ایک تہلکہ مچ گیا تاریخ(ہسٹری) کو دلچسپ کہانی کے
انداز میں بیان کرنے کا اچھوتا انداز بہت مقبول ہوا بعدمیں اسی انداز اور
سٹائل میں دنیابھر کے مصنفین نے متعدد ناول لکھے لیکن جو بات ایم اے راحت
کے قلم میں تھی کوئی ان جیسا انداز نہ اپنا سکا۔ ان کا نام دنیا میں زیادہ
لکھنے والے 20 سال قبل گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا جو پاکستان
اور اردو سے پیار کرنے والوں کے لئے ایک اعزاز ہے اس کے باوجود کسی حکومت
نے انہیں پرائڈآف پرفارمنس کے قابل نہیں سمجھا ۔ ایم اے راحت نے مقبول
سلسلہ عمران سیریز میں درجنوں ناول بھی تحریر کئے۔ ان کے ایک قریبی دوست
طارق چغتائی کا کہناہے کہ ایم اے راحت نے قریباً 6000 افسانے لکھے۔ جس وقت
پاکستان میں کل 27 ڈائجسٹ نکلتے تھے ایم اے راحت کی کہانیاں ان تمام
ڈائجسٹوں میں شائع ہوتی تھیں۔ ایم اے راحت کے مقبول ناولوں میں کالا جادو،
صدیوں کا بیٹا، نروان کی تلاش، شبلیس، مقدس نشان، سو سال پہلے، ماضی کے
جزیرے، پارس، طالوت ، بانگڑو،ساحر شامل ہیں یقینا ایم اے راحت پاکستان
کیلئے اثاثہ تھے ان کا انتقال اردو ادب کیلئے بڑا خلاء ہے، ایم اے راحت
مرحوم نے پندرہ سو سے زائد کرائم‘ جاسوسی‘ معاشرتی اور سائنس فکشن موضوعات
پر مبنی ناول لکھے۔ انکی جاسوسی اور طبع زاد تحریریں انکی پہچان اور
مقبولیت کا حوالہ تھیں‘ وہ ابن صفی‘ اے حمید‘ محی الدین نواب ، ایس
قریشی،کے سلسلے کی آخری کڑی تھے کہاجاتاہے کہ دنیا کا کوئی موضوع، علم
یاآئیڈیا ہو اس پر ایم اے راحت کی کوئی نہ کوئی تحریر ضرور موجود ہے بلاشبہ
بطور کمرشل رائٹر انہوں نے جو نام کمایا اور مقبولیت حاصل کی وہ بہت کم
لوگوں کے حصہ میں آیا کرتی ہے 1960ء میں کراچی میں جب ایم اے راحت نے پہلی
عمران سیریز لکھی جسے پبلشر نے شائع کرنے سے انکار کر دیا ایک وقت ایسا بھی
آیا اسی پبلشر نے مختلف موضوعات پر ان سے کئی ناول لکھوائے ۔پہلے ناول
کیمقبولیت کے بعد عمران ڈائجسٹ نے ان کی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیا۔ پھرجب
سسپنس ڈائجسٹ اور جاسوسی ڈائجسٹ آغاز ہوا تو ایم اے راحت نے ان رسالوں میں
کئی سلسلہ وار کہانیاں لکھی جنہوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈقائم کئے جس سے
ان کی سرکولیشن میں بہت زیادہ اضافہ ہوا‘ وہ مختلف اخبارات و رسائل سے بھی
سالہا سال وابستہ رہے۔ انکے ناول ’’صدیوں کا بیٹا‘‘ تہذیب کی تاریخ اور اس
عہد کی ضرورت تھی جو بے حد پسند کیا گیا جبکہ کالکا دیوی‘ جن زادہ‘ صندل کا
تابوت نے بھی عالمگیر شہرت حاصل کی۔ انہوں نے 1994ء میں کاظم پاشا کی
فرمائش پر ڈرامہ سیریل اعتراف بھی تحریر کی۔ ایم اے راحت کے کہانیاں اور
ناول بھارت کے ڈائجسٹوں میں بھی بڑے اہتمام سے شائع ہوتے رہے پوری دنیا میں
جہاں جہاں اردو بولی اور پڑھی جاتی ہے وہاں ضرور ان کے مداح موجود ہیں۔ایم
اے راحت کی کیپٹن پرمود سیریل بھی بہت مقبول ہوئی۔ ایم اے راحت مرحوم کے
شاگرد اور جاسوسی کہانیوں کے معروف مصنف جاوید راہی نے کہا کہ انہیں 1960ء
سے انکی رفاقت کا شرف حاصل رہا اور وہ انہیں اپنا غیروراثتی بیٹا کہتے تھے
اور گھر کی ہر خوشی غمی میں انہیں شریک رکھتے‘ جاسوسی اور طبع زاد تحریروں
کے حوالے سے انکا نام ہمیشہ جگمگاتا رہے گا اور انکی تحریروں کا سحر اسی
طرح برقرار اور ترو تازہ رہے گا۔ معروف ناول اور افسانہ نگار علی نواز شاہ
نے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ماورائے عقل فکشن لکھا‘
اپنی دنیا تخلیق کی اور اسکے اپنے کردار تخلیق کئے۔ موت کے وقت ، وہ نوائے
وقت فیملی میگزین کے لئے ایک سیریل اسٹوری جھاڑن لکھ رہے تھے۔ ایم اے راحت
فلم اور ٹیلی ویڑن کے لئے لکھنے کو تیار نہیں تھیں۔ کاظم پاشا کی درخواست
پر ، انہوں نے ڈرامہ اعتراف لکھا ۔ ان کی عمر 75 سال کے قریب تھی۔ ایم اے
راحت کو برین ٹیومر تھا ان کی طبیعت زیادہ خراب ہونے پرانہیں جناح ہسپتال
میں داخل کرا دیا گیا۔ وہ ایک ہفتہ کوما میں رہے۔ ایم اے راحت نے پسماندگان
میں پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ لاہورکے علاقہ اعوان ٹاؤن میں
سکونت اختیار کی۔ انہوں نے اپنی آخری زندگی لاہور میں صرف کی لیکن کراچی کو
نہیں بھولے ، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارا۔ ایم اے راحت نے
پوری زندگی جدوجہد کی اور سخت محنت کی۔ اس کے خاندانی معاملات میں سے کچھ
نے اس کے لئے تناؤ اور تناؤ بھی لایا ، جس کی وجہ سے دماغی ٹیومر ہوگیا۔
ایم اے راحت نے اس کی پرواہ نہیں کی اور دن رات لکھتا رہا۔ 24 اپریل 2017
کو ، وہ 76 سال کی عمر میں دماغی نکسیر کی وجہ سے جناح اسپتال لاہور میں
انتقال کر گئے۔ رہائش گاہ کے قریب کریم بلاک لاہور کے قبرستان میں ان کی
تدفین کی گئی۔ ایم اے راحت اپنی ہزلروں تحریروں اورکروڑوں مداحوں کی بدولت
ہمیشہ زندہ رہیں گے۔اردو ادب اس عظیم ناول نگار کو ہمیشہ حراج ِ تحسین پیش
کرتا رہے گا۔آئیے دعاکریں اﷲ تبارک تعالیٰ ایم اے راحت کی تربت پر ہزاروں
لاکھوں رحمتیں نازل فرمائے ان کی لغزشوں کو معاف فرماکر اس عظیم ناول
نگارکو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطاکرے آمین یا رباللعالمین۔
|