یوں تو ہمارے ہاں یعنی دیس میں ہر آنے والی نئی حکومت
پچھلی حکومت سے زیادہ کرپٹ نالائق اور نااہل ہوتی ہے اور آنے سے پہلے سبز
نیلے پیلے باغ دکھاتی ہے اور سدا کی بھولی بھالی بیوقوف عوام آنکھ بند کر
کے ان پر یقین کر لیتی ہے پھر ان کی آنکھ کھل جاتی ہے ۔ مگر موجودہ حکومت
نے تو نالائقی نااہلی اور وعدہ خلافیوں منافقتوں کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے
ہیں ۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کرنے والوں نے لوگوں کے جمے جمائے
کاروبار روزی روزگار کے لگے بندھے ٹھکانوں کو تباہ کر کے کروڑوں لوگوں کو
بیروزگار کر دیا ۔ پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کا جھانسہ دے کر لوگوں کے
پہلے سے بنے بنائے مکانوں دکانوں کو نہایت ہی بےرحمی کے ساتھ تہس نہس کر
دیا ۔ بالکل اسی طرح سے فحاشی و قمار بازی کے اڈوں اور شراب خانوں کو صفحہء
ہستی سے مٹانے کی سعادت ان کے نصیب میں نہیں تھی ان کے نصیب میں بت کدوں کو
آباد کرنا لکھا تھا ۔ ستر سال کے گند بلکہ ابلتے ہوئے گٹر کو اپنی آنکھوں
سے دیکھنے کے بعد اپنی مرضی اور خوشی سے اس میں چھلانگ لگائی تھی عوام نے
تو صفائی کی امید میں ان کی ہدایت اور اجازت سے انہیں اس میں دھکا دیا تھا
مگر بہت جلد ان کی سب امیدوں اور خوش گمانیوں کا صفایا ہو گیا ۔ خزانہ خالی
تھا قرضہ چڑھا ہؤا تھا تو اس میں ننگی بھوکی قوم کا کیا قصور تھا؟ اصل ذمہ
داروں کی گردن ناپتے ان کی کھال میں بھوسہ بھرتے مگر ان کے آگے تو گھٹنے
ٹیک دیئے وہ ساری خلقت کو ٹھینگا دکھا کر چلتے بنے ۔
بات تو تبھی تھی نا کہ پہلے سے ادھ موئے عوام کی گردن پر چھری پھیرے بغیر
انہیں بلی کا بکرا بنائے بغیر اپنے اہداف کی تکمیل کی جاتی یہی تو امتحان
تھا آپ کی اہلیت کا جس میں آپ قطعی ناکام رہے ۔ مذہبی اصطلاحات کا محض نعرہ
لگا کر کروڑوں غریبوں کو بیروزگاری و فاقہ کشی کا تحفہ دے کر انہیں خون کے
آنسو رلا کر ان کی چیخیں نکلوا کر اگر کچھ سدھارا بھی تو کیا تیر مارا ۔
عوام کا امتحان کبھی ختم نہیں ہوتا پہلے ووٹ دیتے ہیں بعد میں قربانیاں ۔
ایک سے ایک جوان جہان کے اگلے پل کا پتہ نہیں ہوتا یہاں زندگی کی شام میں
آخری چوائس ہونے کا زعم ۔ دونوں لفظوں کے درمیان وقفہ ڈال دیا جائے تو اچھا
، پھر اس میں کوئی شک نہیں رہے گا ۔ شکر کریں وہ جو شکر گذاروں میں تھے
قصیدہ خوانوں میں نہیں ۔ ایک سے ایک نامی گرامی درباری مدح سرا اس وقت ماتم
سرا ہیں کہ وہ کتنے غلط تھے حالانکہ یہ کبھی غلط نہیں ہوتے یہ اپنے حساب سے
بالکل صحیح اور بروقت چلتے ہیں انہیں خوب پتہ ہوتا ہے کہ کب رستہ بدل لینا
ہے اور کس کے ساتھ ہو لینا ہے ۔ اب تو ان کا اعتراف کرنا ہی بنتا ہے کیونکہ
یہ رند کی توبہ ہے ۔ رات کو پینا اور صبح کو تائب ہو جانا اور پھر دودھ کے
دھلے کے دھلے رہنا ۔
اپنی بے بصیرتی اور کوتاہ بینی کا نوحہ پڑھنا بھی تو بندوق اُلو کے کاندھے
پر رکھ کر ۔ اس میں اُلو کی کیا خطا ہے؟
کپتان کے پاس ایک موقع تھا خود کو ایک ہیرو کے طور پر تاریخ کے صفحات میں
زندہء جاوید رکھنے کا مگر اس نے وزیر اعظم بن کر بہت کچھ گنوا دیا ۔
|