عمران خان اور مافیا کی آنکھ مچولی!!!

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے حکومت اور عوام دونوں کے اوسان خطا کر دئیے ہیں، قیمتیں بڑھانے والے دفاع نہیں کر پا رہے اور جن پر قیامت ٹوٹی ھے، وہ بے چارے کیا بولیں گے، وہ تو بول بول کر تھک چکے ہیں، حلق خشک، پیٹ خالی، اور دماغ ماؤف، یہ پچھلے تہتر سال سے گھیسٹے جا رہے ہیں، عمران خان آئے تھے تو ان کو بڑی امیدیں تھیں کہ اب ہمیں کچھ ملے گا، انہیں نہیں معلوم تھا کہ پارٹی تو اب شروع ہوئی ہے، جنگ کا آغاز تو اب ھوا چاہتا ہے، ایک مدبر نے کہا تھا کہ پاکستان کے ہر طبقے میں ایک ظالم بادشاہ اور جاگیر دار بیٹھا ھوا، انقلاب کے لیے ہر ایک سے لڑنا پڑے گا، ایک بادشاہ ھوتا تو انقلاب کا سویرا طلوع ھو جاتا، مگر ہر گاؤں، گوٹھ، خاندان اور وسائل کے اوپر ایک بادشاہ اپنی مکمل فورس، خاصہ داروں، اورسرمایے بلکہ تیروتلوار کے ساتھ براجمان ھے ، آپ نے دیکھا ھوگا چیتا جب گینڈوں اور بھینسے کے ریوڑ یا قافلے پر حملہ آور ھوتا ھے، تو کسی ایک کو تنہا کر گردن یا دم کے اوپر سے اتنی مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے کہ چھوڑتا نہیں، وہ گھوم گھوم کر گرتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ اسے وہ دبوچ لیتا ہے، پاکستان میں بھی مافیاز ایسے ہی سرگرم ھے، اور عمران خان عوام کی خاطر ھی کبھی ان کو ایک ایک کرکے دیکھ کر حملہ کرتا ہے، خود بھی گرتا اور اٹھتا ہے، اور انہیں گرا بھی دیتا ہے، لیکن پھر لوگوں کے لیے ھی انہیں کچھ موقعہ دیتا ہے کیونکہ خوراک بہرحال اسی نے دبا کر رکھی ھوئی ھے، ایسے میں لوگ، نااہلی، رٹ آف گورنمنٹ اور قانون کی بات کرتے ہیں، اصل میں یہ مافیا ھر دور حکومت میں موجود تھا، فرق یہ ہے کہ نام پہلی دفعہ سامنے آیا ہے، اور ساتھ ہی بے نقاب پہلی مرتبہ ھورہا ھے، 2008ء سے لے کر آپ، آٹا،چینی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تجزیہ کریں تو کھیل آپ کو ایسا ہی ملے گا، بس ذرا اس دفعہ کمی بھی زیادہ ھوئی اور پھر یکدم بڑھا بھی زیادہ ہے، اس لئے شور زیادہ ہے، حالانکہ پہلی والی قیمت پر ھی جا رہا ہے، اسی دوران ڈالر کی قیمت بھی بڑھی اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں بھی بہت اضافہ ھوا ھے، 2008ء سے تینوں حکومتوں کا تجزیہ کریں تو پیپلز پارٹی یا ن لیگ کی حکومت میں بھی یہ مافیا مختلف انداز میں دوا پیج کھیلتا رہا مگر وہاں حکمران ان سے سمجھوتہ کر لیتے تھے بلکہ کمیشن بھی طے کر لیتے تھے، اتنا آپ رکھیں، اتنا ھمیں دیں اور مزے کریں، اس طرح یہ اتنے مضبوط ھو گئے کہ ھر حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں، جب گورنمنٹ نے اپنے مسلز دکھائے تو انہوں نے سستا پٹرول ھی ذخیرہ کرنے کے لیے غائب کر دیا، حکومت نے ھاتھ ڈالا ھی تھا کہ عالمی منڈی میں قیمتیں آسمان کو پہنچ گئیں، شارٹ فال کی وجہ سے حکومت نے ھاتھ روک لیے، یہی نہیں عمران خان نے چینی مافیا سے مقابلہ شروع کیا تو سب ڈاکو اکٹھے ہو گئے، لڑتے جگڑتے عمران خان نے اپنی سیاسی اور پارلیمانی وکٹ بھی کمزور کر لی مگر معاف نہیں کیا، حالانکہ تیر کھا کر ،دیکھا جو کمین گاہ کی طرف، تو کچھ اپنے ھی دوستوں سے ملاقات ھوگئی مگر عمران خان نے کاروائی روکی نہیں چینی غائب، مہنگی اور سبسڈی سے فائدے لینے والے کمیشن میں دو مرتبہ بے نقاب ھوئے پھر دوڑے دوڑے ھائی کورٹ چلے گئے، وہاں گورنمنٹ نے دفاع کیا تو اب یہ سپریم کورٹ میں چلے گئے، سندھ ھائی کورٹ نے ریلیف دیا تو وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا، یہ صرف ایک مافیا کے خلاف جنگ کی اب تک کی تگ و دو ھے، گندم مافیا کے خلاف بھی کام شروع ھے، جبکہ سب سے بڑا مافیا یہ اپنے جو پچھلے والے جو ھے تھے، زرداری صاحب اور میاں صاحب، انہوں نے توانائی کمپنیوں کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے، کمایا بھی ہے، لگایا بھی مگر خسارے کا، اور کمپنیوں کی لوٹ کھسوٹ کا نہ پوچھیں ان سے معاہدے ھی ایسے ہیں کہ پیسا گورنمنٹ کا لے کر بجلی بناتے اور مہنگی بیچتے ھیں، کوئی ان کی گھمن گیریاں نہیں سمجھ سکتا، ان پر عمران خان نے شکنجہ تنگ کیا تو آخری اطلاعات کے مطابق سمجھوتہ کرنے کے لیے منتیں کر رہے ہیں کچھ ان کے کارندے حکومت میں بھی چھپے بیٹھے ہیں، لیکن خان صاحب کی نظر ھے، بس موقع ملتے ہی دبوچے جائیں گے، یہ تو کہانی ھے جناب! جو شروع ھی پہلی دفعہ ھوئی ھے، ابھی راستہ صاف کرتے کرتے، عوام کی سہولت، بجلی، آٹے کی دستیابی سامنے رکھ کر حکمت سے شکنجہ ڈالا جا رہا ہے، دوسری طرف ان کے محافظ توپیں، بندوقیں اور تیر و کمان لے کر اس گرمی میں بھی اے پی سی، بیانات شیانات اور ھم ٹھیک تھے!کا نعرہ لے کر پہنچ گئے ہیں، میں سوچتا ہوں وہ کہاں گئے جو گرین انقلاب چاھتے تھے، اسی نظام میں رہ کر تبدیلی کے خواہ خواہاں تھے، جو چاھتے تھے کہ شیشہ اور پتہ بھی نہ ٹوٹے اور انقلاب اجائے، اب آ کر عمران خان کا ساتھ دیتے، اسٹیٹس کو توڑتے، بیوروکریسی کو راضی کرتے، اس کلٹ سے لڑتے، کیا نوٹ چھاپ کر تنخواہیں بڑھانے، قرضوں کا انبار لے کر منصوبے لگانے والے ھی بھلے ھیں یا 73 فیصد خسارہ کم کرنے والی، دس لاکھ روزگار بچانے کے لیے پرائیویٹ اداروں کو آسان قرض دینے والی اور مشکل وقت میں احساس پروگرام کے ذریعے گھر گھر غریب کا سہارا بننے والی یا ڈیمز، کوئٹہ سے کراچی ریلوے لائن، بچھانے والی حکومت ٹھیک ہے؟ قرضے واپس کرنا اور اس پر اربوں سود ادا کرنا آسان اور آزادی کی طرف قدم نہیں ھے کیا، یہ مافیا آخر کب تک بچے گا، ایک گینڈے کو تو پکڑا ھوا ھے اس کا انجام قریب ہے باقی بھی دام میں آجائیں گے، وگرنہ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا، البتہ یہ طے ہے کہ ھم پیچھے نہیں جائیں گے، جعلی ڈگریوں، جعلی اکاؤنٹس اور پکوڑے اور فالودے والے کے جعلی اکاؤنٹ کے مالکوں یا کمیشن مافیا اور کک بیکس پردیسی کے پاس نہیں جانا، عمران خان نہیں تو پھر کسی اور کو لے آئیں پھر وہی مسلط کرنے ہیں تو خدا حافظ، رات اندھیری ہے تو کیا ھوا صبح تو طلوع ھو گی، یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی،

 

Prof Muhammad Khursheed Akhter
About the Author: Prof Muhammad Khursheed Akhter Read More Articles by Prof Muhammad Khursheed Akhter: 89 Articles with 68664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.