یہ کہانی اس شخص کی ہے جس نے مسجدالحرام اور مسجد نبوی
شریف کا ڈیزائن کیا تھا ماشاء اﷲ یہ کیسی سعادت اور اعزاز ہے کہ دنیا میں
صرف اور صرف ایک عاشق ِ رسول ﷺ کے حصہ میں ہی آیا ہے اس مقدر پر جتنابھی
نازکیاجائے کم ہے وہ ایک مصری انجینئر اور آرکیٹیکٹ تھا جس نے ظاہری دنیاوی
بودوباش سے دور اور نامعلوم رہنے کو ترجیح دی اس کا نام ڈاکٹر محمد کمال
اسماعیل ( 1908 -2008)ہے وہ مصر کی تاریخ کا سب سے کم عمر شخص تھا جس نے
ہائی سکول سرٹیفکیٹ حاصل کیا پھر رائل سکول آف انجینئرنگ کا سب سے کم عمر
طالب علم جس نے وہاں سے گریجویٹ ڈگری لی پھر سب سے کم عمر جس کو یورپ سے
اسلامک آرکیٹیکچر میں ڈاکٹریٹ کی تین ڈگریاں لینے کے لئے بھیجا گیا-اس کے
علاوہ وہ سب سے کم عمر نوجوان تھا جس نے بادشاہ سے ،، نائل،، سکارف اور،،
آئرن،، کا خطاب حاصل کیا وہ پہلا انجینئر تھا جس نے حرمین شریفین کے توسیعی
منصوبے کی تعمیر اور عمل درآمد کے لئے اختیارات سنبھالے اس نے شاہ فہد اور
بن لادن کمپنی کے باربار اصرار کے باوجود انجینیرنگ ڈیزائن اور آرکیٹچرل
نگرانی کیلئے کسی قسم کا معاوضہ لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں دو
مقدس مساجد کے کاموں کیلئے کیوں معاوضہ لوں اور قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کا
کیسے سامنا کروں گا۔ اس نے 44 سال کی عمر میں شادی کی اور اس کی بیوی نے
بیٹا جنم دیا اور زچگی کے بعد فوت ہو گئی پھر اس نے دوسری شادی نہیں کی اس
کے بعد وہ مرتے دم تک عبادت الٰہی میں مصروف رہا اس کی عمر 100 سال سے
زیادہ تھی اور دنیا اور میڈیا کی چکا چوند سے ہٹ کر گمنام رہ کر زندگی کی
آخری سانسوں تک حرمین شریفین کی خدمت کرتارہا اس عظیم آدمی کی حرمین شریفین
میں نصب کئے گئے سفید پتھر کے حصول کی بھی بڑی دلچسپ کہانی ہے یہ وہ پتھر
ہے جو حرم مکی میں مطاف چھت اور باہر صحن میں لگا ہے اس کی خصوصیت یہ ہے کہ
گرمی کو جذب کرکے فرش کی سطح کو ٹھنڈا رکھتا ہے یہ پتھر ایک ملک گریس میں
ایک چھوٹے سے پہاڑ میں دستیاب تھا. وہ سفر کرکے گریس گئے اور حرم کیلئے
کافی مقدار میں تقریباً آدھا پہاڑ خریدنے کا معائدہ کرلیا
معائدہ پر دستخط کرکے ڈاکٹر محمد کمال اسماعیل واپس مکہ مکرمہ لوٹے اور
سفید پتھر سٹاک میں آگیا اور مکہ حرم میں پتھر کی تنصیب مکمل کرائی اسے بہت
پسند کیا گیا۔ پندرہ 15 سال بعد سعودی حکومت نے ایسا ہی پتھر مسجد نبوی میں
بھی نصب کرنے کو کہا۔ انجینئر ڈاکٹر محمد کمال اسماعیل کو جب بادشاہ نے
مسجد نبوی میں ویسا ہی ماربل لگانے کو کہا تو وہ بہت پریشان ہوا کیونکہ کرہ
ارض پر واحد جگہ گریس ہی تھی جہاں یہ پتھر دستیاب تھا جو کہ آدھا پہاڑ تو
وہ پہلے ہی خرید چکے تھے
انجینئر ڈاکٹر محمد کمال اسماعیل خود بتاتے ہیں کہ وہ گریس میں اسی کمپنی
کے چیف ایگزیکٹو کے پاس گئے اسے ملے اور ماربل کی بقایا مقدار جو بچ گئی
تھی اس کے بارے میں پوچھا تو چیف ایگزیکٹو نے بتایا وہ ماربل تو ہم نے آپ
کے جانے کے بعد بیچ دیا تھا اب تو 15 سال ہو گئے ہیں کمال بہت افسردہ ہوا
اور دل برداشتہ ہوکرمیٹنگ چھوڑ کر جانے لگا تو آفس سیکرٹری سے ملا اور
گزارش کی کہ مجھے اس شخص کا اتہ پتہ بتاؤ جس نے بقیہ تمام ماربل کی مقدار
خریدی تو اس نے کہا پرانا ریکارڈ تلاش کرنا بہت مشکل ہے لیکن آپ مجھے اپنا
فون نمبر دے جائیں میں تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہوں اس نے اپنا نمبر اور
ہوٹل کا پتہ دیا اور اگلے دن آنے کا وعدہ کرکے چلے گئے۔ دفتر چھوڑنے سے
پہلے ڈاکٹر محمد کمال اسماعیل نے سوچا کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ کس نے خریدا
اﷲ خود ہی کوئی بندوبست کردے گا اگلے دن ائیرپورٹ جانے سے چند گھنٹے قبل
اسے فون کال آئی کہ مجھے ماربل کے خریدار کا ایڈریس مل گیا ہے اب میں ڈاکٹر
محمد کمال اسماعیل کو فطری طورپرپریشانی لاحق ہوگئی کہ اب کیا کروں گا
خریدار کے ایڈریس کو کیونکہ اتنا لمبا عرصہ گزر گیا ہے معلوم نہیں وہ زندہ
ہے یا انتقال کرچکاہے پھربھی اس کے دل نے کہا خریدار بارے معلوم کرنے میں
اسے ملنے میں ہرج کیاہے ڈاکٹر محمد کمال اسماعیل اس کے دفتر پہنچا تو
سیکرٹری نے ماربل کے خر یدار کا پتہ لکھ کر چپ اس کی طرف بڑھادی جب کمال نے
پتہ دیکھا تو کچھ دیر کیلئے اس کا دل گوثا ایک لحظے کے لئے دھڑکنا بھول گیا
ہو اس نے زور کا سانس لیا کیونکہ وہ کمپنی جس نے ماربل خریدا تھا وہ سعودی
نکلا۔ کمال نے سعودیہ کی فلائیٹ پکڑی اور اسی دن وہ سعودی عرب پہنچا اور
سیدھا اس کمپنی کے رفتر پہنچا اور ڈائریکٹر ایڈمن کو ملا اور پوچھا کہ آپ
نے اس ماربل کا کیا کیا جو گریس سے خریدا تھا تو اس نے کہا مجھے یاد نہیں
پھر اس نے سٹاک روم سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ وہ سفید ماربل جو گریس
سے منگوایا تھا کدھر ہے تو انہوں نے کہا وہ ساری مقدار موجود ہے اور اس کو
کبھی استعمال نہیں کیا گیا ت کیونکہ اس کے لئے جو ہم نے اس وقت منصوبہ
بنایا تھا بعد میں موقوف کردیا ڈاکٹر محمد کمال اسماعیل ایک بچے کی طرح
رونے لگا اور اس نے کمپنی کے مالک کو پوری کہانی سنائی. پھر ماربل کے خر
یدار کو بلینک چیک دیا اور کہا اس میں جتنی رقم بھرنی ہے بھر لو اور ماربل
کی تمام مقدار میرے حوالے کردو جب ماربل کے خر یدار کو پتہ چلا کہ یہ تمام
ماربل مسجد نبوی ﷺمیں استعمال ہونا ہے تو اس نے کہا میں ایک ریال بھی نہیں
لوں گا اﷲ نے یہ ماربل مجھ سے خرید کرایا اور پھر میں بھول گیا شاید اﷲ
تعالیٰ نے اس ماربل کو میری بخشش کا وسیلہ بنانا ہوگا اس کا مطلب یہی تھا
کہ یہ ماربل مسجد نبوی ﷺ میں استعمال ہونا ہے واقعی یہ بڑے کرم کے ہیں
فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔ اﷲ تعالیٰ انجینئر محمد کمال اور ماربل کے
سعودی خریدار کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین..کیسے کیسے عاشقان ِ
رسول ﷺ کے دل موہ لینے والے واقعات ہمارے ارد گردبکھرے پڑے ہیں۔ |