کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے!

میراابیٹا جو آج کل آسٹریلیا سے باہر ہے اور فلائٹس کی عدم دستیابی کے باعث گھر لوٹنے سے فی الحال قاصر ہے۔یہ ساری کہانی اسی کے گرد گھومنے والی ہے۔ہوا یہ کہ COVID-19 کے پھیلنے سے پہلے وہ بیرون ِ ملک اپنی کمپنی کی طرف سے ایک پروجیکٹ پرکام کرنے گیا اوراب تک وہیں مقیم ہے کچھ کام بھی ہے اور پھر فلائیٹس بھی دستیاب نہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ بادی النظرمیں وہ کسی پریشانی کا شکارنہیں جس کی وجہ سے ہمیں اطمینان ہے کہ جب حالات معمول پر آجائیں گے اور آمد ورفت کا آغاز ہو جائے گا تو ان شاء اللہ وہ ہم سے آ ملے گا۔

بایں ہمہ اس دوران کچھ غیر یقینی قسم کا ایک واقعہ رونما ہوگیا۔یہ24جون کی بات ہے جب میرے بیٹے نے مجھے فون کال کی اور بڑی سعادت مندی سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے ٹیلی فون کمپنی سے کوئی چیز منگوائی ہے؟میرا جواب یقینا نفی میں تھا کیونکہ میں نے اپنی ٹیلی فون کمپنی سے اپنے اکاؤنٹ سے کچھ بھی تو آرڈر نہیں کیا تھا۔ پھر میں نے یہی سوال اپنے چھوٹے بیٹے سے پوچھا تو اس کا جواب بھی میرے جواب سے مختلف نہ تھا۔میرے کریدنے پر بیٹے نے بتایا کہ مجھے کل ٹیلی فون کمپنی سے ایک ای میل آئی ہے جس میں کسی پارسل کا ذکر ہے اور یہ پارسل چند دنوں میں آپ کوموصول ہو جائے گا۔ساتھ ہی اس نے مجھے اس پارسل کا ٹریکنگ نمبر بھی بھیج دیا۔چنانچہ ہم سب کے کان کھڑے ہوگئے کہ جب ہم نے کوئی چیز آرڈر ہی نہیں کی تو پارسل کیوں آرہا ہے۔ آن لائن اپنے اکاؤنٹ کو بار بار چیک کیا کہ کہیں غلطی سے کوئی کلک نہ ہو گیا ہو کیونکہ ہم گزشتہ دو دہائیوں سے اس ٹیلی فون کمپنی کے ساتھ ہیں اور جب کبھی بھی کوئی پرابلم ہو وہ خندہ پیشانی سے اسے ریزولو کر دیتے ہیں، بس ایک فون کال کی ضرورت پڑتی ہے اور بعض اوقات تو ای میل، فون کال سے زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے۔

بہر حال طے یہ ہو ا کہ پارسل آنے دیجیے پھر دیکھیں گے کیا کر نا ہے اور ڈرنے کی بات اس لیے نہیں تھی کہ یہ ٹیلی فون کمپنی کی طرف سے بھیجا گیا پارسل تھا۔ لیجیے جناب! 26جون کو پارسل موصول ہو گیا۔میں گھر پر موجود نہ تھی؛ لیکن اتفاق سے میرا چھوٹا بیٹا گھر پر تھا، اس نے پارسل وصول کیا اور دستخط کردیئے۔ ارے! یہ کیا؟یہ تو نئے ماڈل کا موبائل فون تھا جو بنا آرڈر کیے ہمارے اڈریس پر میرے بیٹے کے نام سے ڈیلیور کر دیا گیا تھا۔

اب اگلا مرحلہ اس بات کا کھوج لگانے کا تھا کہ آخر یہ موبائل فون کیوں ڈیلیور کیا گیا ہے؟اس بات کو ابھی ایک دن ہی گزرا تھا کہ میرے بیٹے کا موبائل فونdisconnectکر دیاگیا۔اس نے جب ٹیلی فون کمپنی سے رابطہ کیا تو اسے بتایا گیا کہ نہ صرف نمبر ڈسکنیکٹ کیا گیا ہے بلکہ پورٹ آؤٹ بھی کر دیا گیا ہے، جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ وہ نمبر اب کسی اور کے زیرِ استعمال ہے۔

اور پھر ہماری پریشانی کا آغاز ہوا کیونکہ وہ نمبر میرے بیٹے کا تمام اکاؤنٹس کے ساتھ منسلک تھا اور بینک اکاؤنٹ میں ہونے والی یا کی جانے والی کوئی بھی ایکٹیوٹی کا کوڈ اسی نمبر پر ایس ایم ایس کیا جاتا تھا۔ اب کہ ٹھنکی کہ کسی نے ملی بھگت سے نمبر چرا کر اپنے نام کرا لیا ہے۔

26 جون کی رات بڑی اضطرابیت میں گزری کیونکہ میرے بیٹے کو تین چار بینکوں میں اپنا نمبر تبدیل کرنا تھا اور نیا نمبر رجسٹرڈ کرانا تھا جو کافی حساس معاملہ ہوتا ہے۔میرے بیٹے کو گھنٹوں فون پر رہنا پڑا اور پھر آخر کار کامیابی سے تمام اکاؤنٹس کے لنک نمبر تبدیل کر لیے گئے تاکہ جس کسی نے بھی نمبر حاصل کیا ہے وہ کسی قسم کامالی نقصان نہ پہنچا سکے۔اس کے بعد اگلا مرحلہ ٹیلی فون کمپنی سے لڑنے کا تھا کہ کیسے بلا اجازت نمبرپورٹ آؤٹ کر دیا گیا؟ معاملہ کنزیومر آفئیرز(Consumer affairs) میں لے جایا گیا اور پھر پتا چلا کہ یہ سب کسی کی غفلت کا شاخسانہ تھا ورنہ ہم تو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ کوئی اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کرکے بہت سے آڈر کر چکا ہو گا؛لیکن خوش قسمتی سے کسی قسم کا کوئی آرڈر بک ہوا اور نہ ہی کوئی اور ایکٹیوٹی دیکھنے میں آئی۔ کنزیومر آفئیرزنے معاملے کی حساسیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے فوری ایکش لیا اور ٹیلی فون کمپنی نے بھی چستی دکھائی اور یوں میرے بیٹے کا زیرِ استعمال نمبر بحال کیا گیا بلکہ کمپنسیشن(Compensation) کے طور پر ایک سال کی فری سروس اور کچھ دیگر فائدے بھی بہم پہنچائے گئے اور میرے بیٹے کویہ بھی بتایا گیا کہ آپ نے ایک عدد موبائل فون بھی کرہ اندازی میں جیتا ہے جو آپ کے ہوم اڈریس پر ڈیلیور کر دیا گیا ہے۔ تب میرے بیٹے کو خیال آیا کہ ایک جنک میل آئی تھی کہ آپ نے ”ایک عدد موبائل فون جیتا ہے“۔اس نے جنک میل کو سرچ کیا تو وہ ای میل مل گئی, تب اسے پتا چلا کہ جب وہ دسمبر میں آسٹریلیا آیا تھا تو اس نے ایک مقابلے میں حصہ لیا تھا اور یہ موبائل فون جس کی آمدپر ہم سب پریشان تھے دراصل یہ اسی مقابلے میں جیتا ہوا موبائل فون ہے۔یہ ایک اتفاق تھا لیکن میں سوچتی ہوں کہ ”کبھی کبھی ایسے بھی ہوتا ہے“۔
 

Syeda Gilani
About the Author: Syeda Gilani Read More Articles by Syeda Gilani: 38 Articles with 63518 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.