بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ہمارا خطہ زمین جو اس وقت پاکستان کے نام سے قائم ہے گو کہ جغرافیائی طور پر نیا ضرور ہے مگر اسکی نظریاتی تاریخ بھی صدیوں پرانی ہے ۔

کہتے ہیں جن کے کوئی خواب نہیں ہوتے انکا کوئی مستقبل نہیں ہوتا بالکل اسی طرح جن قوموں کے خوابیدہ راہنما ،لیڈر نہ ہوں وہ اقوام عالم میں اپنا کوئی مقام نہیں رکھتیں بلکہ راندہ درگاہ ہوجاتی ہیں ۔
ایک سچا ،بے لوث اور مخلص راہنما ہی قوم کو خواب غفلت سے جگاتا ہے ۔
انکی آنکھوں میں مستقبل کے سہانے سپنے سجاتا ہے۔
وہی ملک و ملت کا اصل ہیرو ہوتا ہے۔
شومئی قسمت ہم سچے راہنماؤں سے محروم رہے پیں ۔ہماری قوم شخصیت پرستی کے حصار میں مقید ہوکر اپنے اصل آئیدیلز کو فراموش کر بیٹھی ہے۔
اب سراب کے پیچھے بھاگ رہی ہے ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھکر ٹھوکریں کھا رہی ہے۔
آج پاکستان کو معرض وجود میں آئے بہتر برس بیت چکے ہیں جوکہ قوموں کی زندگی کے اعتبار سے مختصر سا وقت ہے اب بھی دنیا میں ایسی تہزیبیں موجود ہیں جو ہزاروں سال پرانی تاریخ رکھتی ہیں ۔
ہمارا خطہ زمین جو اس وقت پاکستان کے نام سے قائم ہے گو کہ جغرافیائی طور پر نیا ضرور ہے مگر اسکی نظریاتی تاریخ بھی صدیوں پرانی ہے ۔
قدرت اللہ شہاب رح فرماتے ہیں کہ
"پاکستان کو اسلام سے فرار ممکن نہیں۔اس ملک کی تاریخ پرانی لیکن جغرافیہ نیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ریڈ کلف لائن صرف اس وجہ سے کھینچی گئی تھی کہ ہم نے یہ خطۂ ارض اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔اب اگر پاکستان سے اسلام کا نام الگ کر دیا گیا تو حد بندی کی یہ لائن معدوم ہو جائے گی۔ "جمہوریۂ پاکستان کے ساتھ اسلامک کا لفظ لگانے سے اگر کسی کا ذہن قرون وسطیٰ کی طرف جاتا ہے تو جانے دیں ۔۔۔"
اس خطہ سرزمین پر صدیوں سے طالع آزما آتے رہے اور ہم پر حکومت کرتے رہے۔
آریہ سماج سے لیکر برٹش راج تک ہم محکوم رہے۔
مگر ہمارے اسلاف کی داستانوں نے ہمیں نظریاتی طور پر مظبوط و مستحکم رکھا ۔
ہم جب غفلت میں ڈوبنے لگے تو ہمیں اقبال نے خواب غفلت سے چگایا۔
ہمیں یاد دلایا کہ ہم کن کہکشاوں کے ٹوٹے ہوئے تارے ہیں ۔
ہمیں اسلاف کا صداقت و شجاعت کا سبق دوبارہ پڑھایا کہ ہم راہ حق کے متلاشی رہیں ۔
ہم تو وہ قوم ہیں جسکی ابتدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی سے شروع ہوئی اور امام حسین کی قربانی پر کربلا میں ختم ہوئی۔
ہماری تو نسلیں حضرت خالد بن ولید کی للکار اور حضرت علی حیدر کرار کی تلوار کی گھن گھرج کے قصے سن کر نسل در نسل جوان ہوتی رہیں ۔
ہمارے آبا و اجداد کو انکی مائیں پیدا یوتے ہی صلاح الدین ایوبی اور نور الدین زنگی کی شجاعت کی لوریاں دیکر سلاتی تھیں۔
اقبال نے ہمیں غرناطہ میں اپنے شاندار دور حکمرانی کو یاد دلایا۔
یاد دلایا کہ ہمارے ہیرو طارق بن زیاد کی جوانمردی کا یہ عالم تھا کہ دریاوں میں بھی گھوڑے دوڑا دینے سے نہ ہچکچائے۔
ہمارے رگوں میں تیپو سلطان کا خون دوڑتا ہے ۔جو شیر کی ایک دن کی زندگی کو گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے بہتر سمجھتا تھا۔
آخر وہ کیا کشش تھی کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے آبا و اجداد کی قبریں، زمینیں، اپنا گھر بار لٹا کر ہجرت پر آمادہ ہوگئے۔
قائد اعظم نے انھیں نئی سرزمین کے خواب دیکھائے اس اخلاص ویقین کے ساتھ کہ ہماری آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی گئی نظریاتی اساس اس نئے جغرافیہ کے سانچے میں ڈھل کر اسلام کے قلعہ کا روپ دھارے گی۔
بس اس وعدہ فردا پر مسلمان اپنا سب کچھ لٹا کر نئے خوا ب بننے شروع ہوگئے ۔
ہمیں اس مشن کو آگے بڑھانا تھا جوکہ مظلوم کی داد رسی کیلیے محمد بن قاسم نے عرب سے سندھ تک کیا اسی جذبہ سے اس مشن کو سندھ سے ہند اور پھر کاشغر تک پھیلانا تھا ۔اسی تندہی اور تسلسل سے جس سے محمود غزنوی نے غزنی سے سترہ بار ہندوستان پر لگاتار حملہ آور ہوکر کیا تھا۔
ہمارا نیا ملک بن گیا مگر قائداعظم ہم میں نہ رہے۔نئے قائدین ابھر نہ سکے اور یوں خواب ٹوٹ کر بکھرنے شروع ہوگئے۔
آزاد وطن تو مل گیا مگر طویل دور غلامی کے منفی اثرات بھی ظاہر یونے لگے۔
جسمانی غلامی نے ہماری اکثریت کو ذہنی غلامی کا خوگر بنادیا تھا ۔یہ خوئے غلامی آج بھی ہماری سرشت میں شامل ہے۔
ہم شخصیت پرستی کے اسیر ہوچکے ۔
ہمیں سر کٹانے کا درس ملا تھا مگر ہم سر جھکا کر رہتے ہیں۔
ہمیں راہبر ملے نہ راہنما ملے ،جو ملے وہ میر جعفر میر صادق اور امیر حضرت سعدتین اوپیک جیسے منافق بدکردار اور غدار ملے۔
انہوں نے ہمارے خوابوں کی تعبیر کیا دینی تھی۔ہم سے ہمارے خواب ہی چھین لیئے بلکہ ہمارے خواب بدل ڈالے۔
سبز خوابوں کو سرخ و سفید کردیا ۔
دیدہ و دانستہ ہمارے ییرو ہمارے آئیڈیل تبدیل کردیئے گئے جیسے پرانا اصلی جادو کا چراغ چمکتے ہوئے نقلی چراغ سے دھوکہ سے بدل دیا جائے۔
قحط الرجال ہے یا بصیرت کا فقدان ۔ہم سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔
دانشور مفکرین پس پردہ ہیں ۔کم عقل غالب ہیں۔
قوم کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ایک چھکے پر، ایک وکٹ، ایک فلمی گانے پر ہم ،ایک قلابازی پر ،گلوکاروں فنکاروں میراثیوں ،شعبدہ بازوں کو ملک و قوم کی باگ دوڑ سپر د کرنے پر تلے رہتے ہیں۔
جیسے حافظ شیرازی اپنی محبوبہ کے ایک تل پر سمرقند و بخارا فدا کرنے پر تلے بیتھے تھے ؛

"اگر منظور دل میرا ہو، اُس تُرک دل آرا کو"
فدائے خال و قد کردوں سمرقند و بخارا کو

قوم کا ہیرو وہ ہوتا ہے جو قوم کو مستقبل کے خواب دکھائے اور پھر انکے حصول کیلئے اپنا تن من دھن قربان کردے۔
انکے خوابون کو حقیقت بنائے ۔ انکے سپنے شاہکار کرے۔
پہلے خود قربان ہو ۔ پھر قربانی مانگے ۔
غزوہ خندق کے موقع پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے اور پھر صحابہ کرام سے ایک ایک پتھر باندھنے کی تلقین فرمائی۔
ہم تو ہزاروں سال پرانی تاریخی قوم ہیں جبھی توہم مصر کا مرسی ہو یا کشمیر کا وانی برھانی یا بنگال کا عبد القادر ملا سب کا درد اپنے سینے میں محسوس کرتے ہیں ،ہاں یہ چھوٹا سے خطہ سر زمین جو اب ہمارا مسکن ہے وہ البتہ نیا ضرور ہے۔
ہمیں اپنے ہیرو اپنے آئڈیلز کا معیار وہی رکھنا ہے جو ہمارے اسلاف کا اثاثہ رہا ہے۔
اپنی آنکھوں کو اس قابل بنانا ہے کہ ظاہری چکا چوند سے متاثر ہوئے بغیر اپنے اصلی اور سچے ہیرو ڈھونڈیں ۔
گدڑیوں میں لعل ڈھونڈیں ۔
ایسے لعل جو کہ جو ہمارے خوابوں کو امر کر سکیں ۔

اقبال!

تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ
 

M Munnawar Saeed
About the Author: M Munnawar Saeed Read More Articles by M Munnawar Saeed: 37 Articles with 50285 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.