تحریر: ایم خالد میاں
کیسے ہو ببلو؟ ببلو کے کمرے میں داخل ہونے پر اک آواز گونجی۔
ببلو گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
چلو خیر چھوڑو ، ببلو اپنے آپ کو مطمئن کررہا تھا کہ اتنے میں دوبارہ آواز
آئی۔ اس طرف دیکھو، اب ببلو یہ اندازہ لگا چکا تھا کہ یہ آواز کمرے میں
رکھی کتابوں کی الماری سے آرہی ہے۔
اس کے کمرے میں موجود الماری اس کے ابو جان کی تھی جس میں بہت سی کتابیں
موجود تھی ، لیکن ببلو کے ابو تجارتی مصروفیات کی وجہ سے وقت نہیں دے پاتے
تھے۔
ببلو الماری کی طرف حیرت زدہ بگاہوں سے دیکھنے لگا، اتنے میں ایک کتاب نے
ہیلو ببلو! کیسے ہو تم؟ کہہ کر اپنے طرف متوجہ کیا۔
اچھا تو یہاں سے آواز آرہی ہے ۔ ببلو من ہی من میں بولا۔
تم کتنے پیارے بچے ہو، کتاب نے ببلو کی تعریف کی۔
بہت بہت شکریہ، کتاب رانی ، ببلو نے اظہار تشکر کیا۔
کتاب ’’کیا تم کتابوں کے بارے میں جانتے ہو‘‘
ببلو، ہاں بس تھوڑا بہت ،امی جان نے بتایا تھا ، کہ کتابیں ہماری بہتریں
دوست ہوتی ہیں ،جب تم اداس ہوتے ہو تو ہنساتی ہیں ، ماضی سے ہمیں روشناس
کراتی ہیں ، کتابیں پڑھنے سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے وغیر وغیرہ۔
ہاں تمہاری امی نے بل کل صحیح کہا ہے ،کتاب سے بہترین دوست کوئی نہیں
ہوتااگر تم مجھ سے دوستی کرلو گے تو میں تمھیں ،لطیفے سناؤں گی، کہانی
سناؤں گی، دنیا کی خوبصورت جگہوں کی سیر کرواؤں گی اور تو اور تمھیں بڑوں
کا ادب سکھاؤں گی ، زندگی گزارنے کا سلیقہ بتلاؤں گی۔کیا اب تم مجھ سے
دوستی کرنا پسند کروگے۔
ہاں کیوں نہیں ، تم جیسا دوست بھلا کہیں مل سکتا ہے۔ ببلو خوش ہو کر بولا
اور ببلو نے کتاب سے عہد کیا کہ وہ روزانہ ویڈیو گیم کھیل نے کی بجائے
کتابوں کا مطالعہ کریگا اور اپنے دوستوں کو بھی کہے گا۔
|