ہمارا رب بہت بڑا ہے

 آرتھر آشی کی کہانی سنائی” آر تھر آشی کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں ‘ وہ دنیا کا بہت بڑا ٹینس پلیئر تھا‘ ورجینیا کے مشہور قصبے رچمنڈ میں پیدا ہوا‘ افریقی امریکن تھا اس کی ماں اور باپ دونوں کالے تھے‘ بچپن میں اتھلیٹ بننے کی کوشش کی لیکن جسمانی کمزوری کی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکا‘ چھ سال کی عمر میں والدہ کا انتقال ہوگیا اور وہ اکیلا رہ گیا‘ جب اسے تنہائی ستانے لگی تو اس نے فیصلہ کیا وہ دنیا میں کوئی ایسا کام کرے گا جو اس سے پہلے کسی کالے نے نہ کیا ہو‘ اس نے ٹینس کھیلنا شروع کردی‘ وہ کورٹ میں داخل ہوا تو اس نے کمال کردیا‘1963ءمیں امریکہ کا سب سے بڑا ٹینس پلیئر بن گیا‘ حکومت نے اسے ڈیوس کپ کی ٹیم میں شامل کرلیا‘ وہ امریکہ کی قومی ٹیم کا پہلا کھلاڑی تھا‘ وہ ڈیوس کپ جیت گیا‘ یہ ایک حیران کن کامیابی تھی۔60ءکی دہائی میں ا مریکہ کے اخبارات‘ ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینلز نے اسے اتنی کوریج دی کہ وہ1969ءمیں امریکہ کا سب سے زیادہ مشہور شخص بن گیا تھا“۔

وہ چند لمحے رکے‘ انہوں نے ٹشو سے منہ صاف کیا تو میں ان سے عرض کیا” ویل ڈن! یہ تو بڑی دلچسپ کہانی ہے“ وہ مسکرائے اور کہنے لگے“ نہیں اصل کہانی آگے آئیگی“ میں نے سر ہلادیا‘ انہوں نے گفتگو کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا”1969 ءمیں جنوبی افریقہ میں ٹینس میچ تھا‘ آشی نے ویزے کے لئے درخواست دی‘ جو مسترد کردی گئی‘ اس وقت جنوبی افریقہ میں گوروں کی حکومت تھی اور وہ کسی کالے کو ویزہ جاری نہیں کرتے تھے‘ آرتھر آشی کے لئے یہ زندگی کا دوسرا بڑا چیلنج تھا ‘ اس نے ٹینس چھوڑ دی اور امریکہ میں کالوں کے حقوق کی جنگ شروع کردی‘ وہ مشہور آدمی تھا‘ میڈیا اور عوام اس کے ساتھ تھے‘ اس نے اپنے چاہنے والوں کو اپنی فوج بنالیا‘ یہاں تک کہ امریکہ اور اس کی حلیف طاقتیں کالوں کے حقوق تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئیں‘ ساﺅتھ افریقہ کے سفارتخانے نے اسے ویزہ جاری کردیا‘ یہ اس کی بہت بڑی کامیابی تھی“ وہ سانس لینے کے لئے رکے‘ میں مسکرایا اور عرض کیا” جناب کمال ہے‘ یہ تو بہت بڑا شخص تھا“ وہ ہنسے اور بولے” نہیں اصل کہانی ابھی آگے آئے گی“ میں ہمہ تن گوش ہوگیا‘ انہوں نے کہا” جب وہ ساﺅتھ افریقہ کا ویزہ لے کر نکلا تو کسی نے کہا’ آشی نے ویزہ تو حاصل کرلیا لیکن وہ اب ٹینس نہیں کھیل سکے گا‘ اس شخص کا خیال تھا جو شخص اتنے سال ٹینس کورٹ سے باہر رہا ہوں اس کے لئے دوبارہ نیشنل چیمئپن بننا آسان نہیں ہوگا‘ اس شخص کی بات ٹھیک تھی لیکن آشی ایک بار پھر کورٹ میں داخل ہوا‘ اس نے کھیلنا شروع کیا اور1975ء میں ٹینس کی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز ومبلڈن کپ جیتا لیا‘ وہ یہ کپ لے کر باہر نکلا تو ورلڈ سٹار تھا“ وہ ایک بار پھر رکے غور سے میری طرف دیکھا‘ میں نے کسمسار کر پہلو بدلا اور پھر عرض کی” ویل ڈن“ وہ تو کمال شخص تھا“ وہ مسکرا دئیے“ نہیں اصل کہانی ابھی آگے آئیگی“ میں پوری طرح متوجہ ہوگیا”1980ء میں اسے دل کا دورہ پڑا‘ اسے ہارٹ سرجری کے لئے ہسپتال لے جایا گیا‘ وہاں اسے خون دیا گیا‘ اس خون میں ایچ آئی وی تھا‘ آر تھر آشی ہسپتال سے نکلا تو وہ ایڈز کا مریض بن چکا تھا‘ ہیرو زیرو ہوگیا‘ وہ1993ءتک پورے13سال اس مرض سے لڑتا رہا‘ دنیا کے34کاروباری اداروں‘55بڑے ہسپتالوں اور دنیا کے4ہزار ڈاکٹروں نے اس کی جان بچانے کی کوشش کی لیکن دنیا کا سپر سٹار6فروری1993ءکو ایڈز کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہوگیا“ وہ خاموش ہوگئے اور میں اداس ہوگیا۔

وہ میری اداسی بھانپ گئے اور پھر بولنا شروع کردیا ” تم نے سوچا یہ کہانی یہاں ختم ہوگئی لیکن اصل کہانی ابھی بھی باقی ہے‘ جب آرتھر آشی ہسپتال میں آخری سانسیں لے رہا تھا تو اس کے ایک فین نے اسے خط لکھا‘ اس خط میں اس نے آشی سے ایک عجیب سوال کیا‘ اس نے پوچھا‘ اس وقت دنیا میں5ارب لوگ ہیں‘ قدرت نے ان5ارب لوگوں میں سے صرف تمہیں اس موذی مرض کے لئے کیوں منتخب کیا؟ وائے یو“ آر تھر آشی نے اس وائے یو کا کمال جواب دیا‘ یہ جواب ایک پورا فلسفہ ہے اور میں زندگی میں جب بھی مایوس ہوتا ہوں‘ میں جب بھی خود کو بدنصیب محسوس کرتا ہوں تو میں آشی کی وہ چند لائنیں نکال کر پڑھ لیتا ہوں‘ یقین کرو‘ میں ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوتا ہوں‘ میں خود کو دنیا کا خوش نصیب ترین شخص سمجھنے لگتا ہوں‘ آرتھر آشی نے اسے جواب دیا تھا‘ دنیا میں ہر سال50کروڑ بچے ٹینس کھیلنا شروع کرتے ہیں‘ ان میں سے صرف5کروڑ بچے یہ کھیل سیکھ پاتے ہیں‘ ان5کروڑ بچوں میں سے صرف5لاکھ نوجوان پروفیشنل ٹینس پلیئر بنتے ہیں‘ ان پانچ لاکھ نوجوان میں سے صرف50 ہزار کھیل کے سرکٹ میں داخل ہوتے ہیں‘ ان50ہزار میں سے صرف پانچ ہزار گرینڈ سلام تک پہنچتے ہیں‘ ان پانچ ہزار کھلاڑیوں میں سے صرف50ومبلڈن کھیلنے آتے ہیں‘ ان پچاس میں سے صرف 4سیمی فائنل تک پہنچتے ہیں‘ ان چار میں سے صرف دو فائنل کھیلتے ہیں اور ان دو میں سے صرف ایک شخص کو ومبلڈن کپ ملتا ہے اور میں دنیا کے ان5ارب لوگوں میں سے ایک ہوں جسے ومبلڈن کپ ملا تھا‘ میں دنیا کے ان50کروڑ کھلاڑیوں میں سے واحد شخص ہوں جس نے ٹینس کھیلنا شروع کی اور وہ ومبلڈن تک پہنچ گیا‘ میں نے زندگی میں ٹینس کے800بڑے اعزاز حاصل کئے یہ ریکارڈ ہے‘ میں جب بھی ٹرافی‘ کپ یا ایوارڈ لیتے گیا تو میں نے کبھی اپنے اللہ سے یہ نہیں پوچھا‘ اے اللہ تعالیٰ تم نے پوری دنیا میں اس اعزاز کے لئے صرف مجھے ہی کیوں منتخب کیا‘ وائے می‘ آج میں تکلیف میں ہوں‘ مجھے جب درد ہوتا ہے اور میں اللہ سے یہ پوچھنے لگتا ہوں وائے می تو مجھے اپنے وہ تمام اعزاز یاد آجاتے ہیں اور میں سوچتا ہوں جب میں نے اپنی کامیابیوں پر اللہ تعالیٰ سے یہ نہیں پوچھا تھا” گڈو وائے می“ تو مجھے آج اپنی تکلیف پر اس سے یہ سوال کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں‘ جب میں نے اپنی کامیابیوں پر اس کا شکر ادا نہیں کیا تو آج مجھے اپنی ناکامی پر اس سے کوئی شکوہ نہیں کرنا چاہیے“ وہ خاموش ہوگئے‘ میری آنکھوں میں روشنی اتر آئی‘ میں نے عرض کیا” واقعی یہ زندگی کا ایک نیا زاویہ ہے‘ میں نے کبھی زندگی کو اس پہلو سے نہیں دیکھا“ انہوں نے ایک بار قہقہہ لگایا” نہیں ابھی اصل کہانی آگے ہے“ آرتھر آشی نے مرنے سے چند لمحے پہلے کہا تھا” اے دنیا کے لوگوں! اللہ کو کبھی یہ نہ بتاﺅ تمہاری مصیبت کتنی بڑی ہے‘ تم اپنی مصیبت کو یہ بتاﺅ تمہارا اللہ کتنا بڑا ہے‘ تم دکھ اور تکلیف سے رہائی پا جاﺅ گے۔“
Muhammad Zubair
About the Author: Muhammad Zubair Read More Articles by Muhammad Zubair: 11 Articles with 17030 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.