عروج سے زوال تک کی داستان، پاکستانی فلموں کا چاکلیٹی ہیرو جس کا پٹھان ڈرائیور بھی فلموں پر بطور ہیرو راج کرتا رہا

image
 
قیام پاکستان کے وقت جس طرح ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہر چیز کا بٹوارہ ہوا اس کے ساتھ ہی فلم انڈسٹری کا بھی بٹوارہ ہو گیا- ہندوستان کے حصے میں جو فلم انڈسٹری آئی وہ ایک مستحکم اور کامیاب انڈسٹری تھی جہاں نہ صرف کامیاب فلمیں بن رہی تھیں بلکہ کامیاب پروڈیوسر اور ڈائيریکٹر کی ایک کھیپ موجود تھی- مگر اس کے مقابلے میں پاکستان کی فلم انڈسٹری نے ہجرت کر کے آنے والے افراد کے ساتھ قدم جمانے شروع کیے ان میں سے ایک ڈسٹری بیوٹر نثار مراد بھی تھے جنہوں نے اس ابھرتی ہوئی فلمی صنعت کو اپنے سرمائے سے تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی-
 
1962 میں جب نثار مراد کے جواں سال بیٹے سے کراچی یونی ورسٹی سے ایم اے انگلش کا امتحان پاس کیا تو ان کے والد نے اپنے بیٹے کو لے کر ایک فلم بنانے کا فیصلہ کیا اور اس فلم کا نام اولاد رکھا اس فلم کی ہدایتکاری کا ذمہ اس وقت کے مانے ہوئے ہدایت کار ایس ایم یوسف نے لیا اور اداکاروں میں نیر سلطانہ اور درپن شامل تھے اس فلم میں وحید مراد کا کردار بہت بڑا نہ تھا-
 
وحید مراد کا عروج
وحید مراد کی کامیابی کے دروازے اس وقت کھلے جب ان کی فلم ہیرا اور پتھر بنی جس میں انہوں نے ذیبا کے مقابل بطور ہیرو اپنے دوست پرویز کلیم کی ہدایت کاری میں کام کیا اور یہ فلم نہ صرف ایک بڑی ہٹ ثابت ہوئی بلکہ اس فلم میں 1964 میں وحید مرادکو بہترین اداکار کے ایوارڈ سے بھی نوازہ گیا-
 
image
 
اس فلم کی کامیابی نے وحید مراد کی شہرت کو ساتویں آسمان پر پہنچا دیا اور وہ انتہائی کم عمری میں ہی اپنے والد کی بدولت ہیرو کے ساتھ ساتھ پروڈیوسر اور کہانی کار بھی بن چکے تھے- اس کے بعد وحید مراد نے 1966 میں اپنی ٹیم کے ساتھ فلم ارمان بنانے کا اعلان کیا ان کی ٹیم چار افراد پر مشتمل تھی جس میں بطور ہیرو اور پروڈیوسر وحید مراد ہوتے تھے- ہدایت کار پرویز کلیم اور نغمہ نگار مسرور انور اور موسیقار سہیل رعنا ہوتے تھے-
 
اس جوڑی نے 965 سے لے کر 1975 تک باکس آفس ہٹ کا ایک بڑاریکارڈ قائم کیا اور ان کے جھنڈے تلے بننے والی ہر فلم ہٹ ہوتی گئی-
 
وحید مراد کا زوال اور اس کے اسباب
یہ جوڑی 1978 تک پاکستانی سینما پر راج کرتی رہی مگر نوجوانی میں ملنے والی اتنی بڑی بڑی کامیابیوں نے وحید مراد کو بددماغ ، مغرور اور خود پسند بنا دیا تھا- پرویز کلیم کے مطابق وحید مراد ہر کامیابی کو صرف خود سے منسوب کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ ایک ایک کر کے لوگ ان سے جدا ہونے لگے یہاں تک کہ 1980 کے بعد سے وحید مراد کی فلموں نے ناکام ہونا شروع کر دیا-
 
جس انسان کے اپنی زندگی میں کبھی ناکامی کی شکل تک نہ دیکھی تھی اس کے لیے یہ سب برداشت کرنا بہت مشکل تھا- ان کے مقابل ڈھاکے سے آئے ہوئے ندیم کی طوطی بولنے لگی اور ان کی ٹیم کے تمام لوگ ان سے جدا ہو کر بھی اپنے اپنے شعبے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے تھے جب کہ وحید مراد کی فلمیں ناکامی سے دوچار ہوتی جا رہی تھیں- وحید مراد روز بروز بدمزاج ہوتے جا رہے تھے لوگ ان کو اب چلا ہوا کارتوس کہنے لگے تھے اور ان کو محمد علی اور ندیم کے مقابل سائڈ رول کی پیش کش ہونے لگی-
 
ایسے وقت میں وحید مراد کا پرانا پٹھان ڈرائیور بدر منیر جو کہ اب پشتو فلموں کا صف اول کا ہیرو بن چکا تھا اس نے وحید مراد کو اپنی ایک پشتو فلم میں وحید مراد کو بطور ہیرو کام دے کر نمک حلال کرنے کی کوشش کی مگر وہ وحید مراد کے نصیب پر لگی مہر کو نہ مٹا سکا-
 
image
 
ذہنی پراگندگی کو دور کرنے کے لیے وحید مراد شراب نوشی کر کے اپنے غم مٹانے لگے اسی دوران ایک بار تیز رفتاری کے باعث ان کی گاڑی حادثے کا شکار ہو گئی جس کی وجہ سے ان کے چہرے پر چوٹ لگ گئی اور اس نشان نے بھی ان کے فلمی کیرئير کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا-
 
پے در پے ناکامیوں اور وحید مراد کی بدمزاجی نے ان کی گھریلو زںدگی کو بھی متاثر کیا اور ان کی بیوی سلمیٰ ان کو چھوڑ کر امریکہ جا چکی تھیں جب کہ ان کا بیٹا عادل اپنی نانی کے پاس رہ رہا تھا- اب وحید مراد کا واحد سہارہ شراب ، نشیلہ تمباکو اور خواب آور گولیاں تھیں-
 
کم عمری میں سپر اسٹار بن جانے والا ہیرو ناکامی کے صدمے کو برداشت نہ کر سکا اور روز بروز گھلنے لگا یہاں تک کہ معدے کے السر کا بھی شکار ہو گیا جس کے پیچیدہ آپریشن نے انہیں وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا تھا- ان کا وزن تیزی سے کم ہو رہا تھا اور چاکلیٹی ہیرو والی دلکشی اب خواب بن گئی تھی اور پاکستان کا یہ ایلوس پریسلے اپنے دوستوں ، اپنے گھر والوں کی بے اعتنائی برداشت نہیں کر پا رہا تھا- مرنے سے ایک دن قبل اپنے بیٹے کی سالگرہ منائی اور اس کو بہت سارے تحائف دیے اور گھر آکر سو گئے- صبح جب دیر تک ان کے کمرے کا دروازہ نہ کھلا تو دروازہ توڑا گیا کمرے کے فرش پر پاکستان فلم انڈسٹری کو ایک نیا اسلوب دینے والا ہیرو اس حال میں فرش پر مردہ حالت میں موجود تھا کہ اس کے منہ میں پان تھا اور جسم روح سے خالی تھی اور ہاتھ خالی تھے اور کمرے کے کھڑکی کے باہر شہرت کی دیوی پنکھ پھیلئے کسی اور کو ہیرو بنانے کے لیے محو پرواز تھی-
YOU MAY ALSO LIKE: