ٹک ٹاک جیسے ایپ پر پابندی کی نوٹنکی

گلوان کی وادی میں پیش آنے والے سنگین سانحہ کے بعد ۱۴ دنوں تک تو مودی سرکار قرنطینہ میں رہی ۔ اس دوران کل جماعتی اجلاس میں وزیر اعظم نے اعلان کردیا کہ ہماری سرحد میں نہ کوئی داخل ہوا اور نہ کوئی گھسا ہوا ہے اور نہ کسی نے ہماری کسی چوکی پر قبضہ کیا ہے۔ اس جملے کو ہذیان سمجھ کر نظر انداز کرنے والوں کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی گھسا ہی نہیں تو گھسا ہوا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی خیر انہوں نے اظہار رائے کی آزادی کا استعمال کرکے کہہ دیا اور قوم نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا ۔ اسی طرح کوئی گھسے بنا ہماری کسی چوکی پر قبضہ کیسے کرسکتا ہے؟ ویسے یہ ہوسکتا ہے کہ گھسنے کے بعد بھی چوکی پر قبضہ نہیں کرسکے کیونکہ اگر اس مقام پر چوکی موجود ہی نہ ہو توکوئی گھسنے کے بعد بھی قبضہ کیسے کرے؟پہلے وہاں ہندوستانی یا چینی فوج کی کوئی چوکی نہیں تھی ۔ سارا جھگڑا اس لیے ہوا کہ چینیوں نے چوکی بنائی اور ہندوستانی فوج نے بجا طور پراسے توڑ دیا ۔ اس طرح تین میں سے مودی جی کاایک دعویٰ درست نکلا اور وہ ۳۳ فیصد نمبر حاصل کرکے کسی طرح پاس ہوگئے۔

گلوان سانحہ کے بعد یہ خوش کن خبر بھی آگئی کہ ہمارے فوجیوں نے ۴۳ چینیوں کو مار گرایا۔ یہ تو بہت بڑی فتح تھی کیونکہ جب وہ نہیں گھسے تو اس کا مطلب ہے ہمارے فوجیوں نے گھس کر دوگنا سے زیادہ لوگوں کو مارگرایا ۔ وزیر اعظم اگراس دلیری کےلیے اپنے فوجیوں کو تمغے بانٹ کرچین سے ہمدردی جتا دیتےتوبہتر تھا لیکن انہوں نے الٹا 59 چینی ایپس پر پابندی لگا دی۔۵۶ کے بجائے ۵۹ کا ہندسہ دیکھ کر کچھ لوگوں نے کہا پابندی لگانی ہی تھی تو ۵۶ پر لگاتے جہاں پے ٹی ایم جیسے بہت ساروں کو بخش دیا تو ۳ اور چھوڑ دیتے۔ کیا فرق پڑتا؟مگر بھکتوں کا کہنا ہے کہ مودی جی جس کو پکڑ لیتے ہیں اس کو چھوڑتے نہیں جیسے کبھی نواز شریف اور جن شی پنگ ۔ وہ تو خیرپردھان جی نے جسودھا بین کو پکڑا ہی نہیں ورنہ وہ پناہ مانگتیں تب بھی چھٹکارہ نہیں ملتا ۔ کچھ بھکتوں کی رائے میں یہ سینے کا نیا ناپ ہے۔ پورے ۶ سالوں تک سرکاری خزانے پر عیش کرنے کے بعد اگر سینہ ۳ انچ بھی نہ پھولے تو کس کام کا؟

ان خوش گمانیوں کے برخلاف مخالفین کے خیال میں یہ توند کا ناپ ہے۔سینہ پھلاکر بات کرنے کے لیےتو پاکستان موجود ہی ہے۔ من کی بات اسی سے ہوتی ہے۔ بن بلائے وہیں جاکر بریانی کھائی جاتی ہے۔ چین جیسے اشتراکی ملک کے ساتھ پیٹ کی بات ہوتی ہے۔ مودی جی چونکہ دشمن کو اس کی زبان میں جواب دینے کے قائل ہیں اس لیے پاکستان کو ٹوٹی پھوٹی اردو میں جواب دے دیتے ہیں لیکن چین کو چینی زبان میں جواب دینا خاصہ مشکل کام ہے۔ فی الحال مودی جی چین کی مینڈیرن سیکھ رہے ہیں ۔ اول تو وہ زبان مشکل ہے اور دوسرے اس عمر میں انسان کوئی نئی چیز آسانی سے سیکھ نہیں پاتا اس لیے تھوڑا وقت لگ رہا ہے لیکن جب وہ اس پر عبور حاصل کرلیں گے تو فرفر جواب دیں گے۔ ویسے کبھی کبھار ان کا ہندی تلفظ بھی عوام کی سمجھ میں نہیں آتا، اس لیے بعید نہیں کہ ان کا چینی بیان چینیوں کی سمجھ میں نہ آئے ۔ وزیر اعظم اس کی پروا نہیں کرتے۔ ان کی انگریزی امریکیوں کے پلےّ نہیں پڑتی اس کے باوجود بولے جاتے ہیں ۔ بھکت تو بغیر بولے اپنے آقا کا مدعا سمجھ لیتے ہیں ۔ اس کی ایک مثال لداخ والی تقریر میں سامنے آئی ۔

مودی جی نے حسب سابق چین کا نام لینے گریز کیا لیکن ایک عظیم فلسفی کے انداز میں کہہ دیا کہ’’ توسیع پسندی کا دور ختم ہوچکا ہے ، یہ دور ترقی پسندی کا ہے۔ تیزی سے بدلتے وقت میں ترقی پسندی ہی اہم ہے۔ ترقی پسندی کے لئے ہی مواقع موجود ہیں اور ترقی ہی مستقبل کی بنیاد ہے‘‘۔ یہ انکشاف مودی جی کو ۱۵ جون کے بعد ہوا ہوگا لیکن چین گزشتہ 30 سال سے اس نسخۂ کیمیا کو اسعمال کرتے ہوئے بے مثال ترقی کرچکا ہے۔ وہ مودی جی کے وعظ و نصیحت سے بے نیاز ہے۔ مودی جی نے بتایا کہ ’’ گزشتہ صدیوں میں توسیع پسندی نے انسانیت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے ، اور انسانیت کو تباہ کرنے کی کوشش کی ۔ توسیع پسندی کی ضد ہمیشہ امن عالم کے لیے خطرہ بنی ہے‘‘ ۔ یہ بات اگر وہ امیت شاہ کی ایوان پارلیمان میں تقریر کے بعد کہہ دیتے کہ اکسائی چن کو واپس لینے کے لیے جان لڑانا توسیع پسندی ہے اس لیے ہم ایسا نہیں کریں گے تو آج سرحد پر یہ تصادم ہی نہ ہوتا۔

مودی جی نے سچ کہا کہ ’’ تاریخ گواہ ہے کہ ایسی طاقتیں مٹ گئیں ہیں یا پھر جھکنے پر مجبور ہو گئی ہیں‘‘۔ لیکن پھر سنگھ پریوار ہٹلر اپنا آئیڈیل کیوں مانتاہے ؟ ڈاکٹر مونجے اٹلی میں مسولینی سے ملنے کے لیے کیوں گئے تھے؟ مودی کے مطابق اگر ’’دنیا کا ہمیشہ یہ تجربہ رہا ہے اور اسی تجربے کی بنیاد پر اب اس مرتبہ پھر سے پوری دنیا نے توسیع پسندی کے خلاف من بنا لیا ہے‘‘۔تو سوال یہ ہے کہ جس دنیا کی بات وہ کررہے ہیں کیا اس میں چین شامل نہیں ہے؟ اور اگر ہے تو سنگھ پریوار اس کو توسیع پسند ملک کیوں کہتا ۔ گرو کولوالکر نے تو سیع پسندی کو اشتراکیت کی فطرت کیوں قرار دیا ہے؟ چین نے بھی جب یہ کہہ دیا کہ وہ توسیع پسند نہیں ہے تو بھکت کہنے لگے یہ چور کی داڑھی میں تنکہہے ۔ مودی جی نے نام نہیں لیا پھر بھی چین نے اپنی صفائی پیش کرکے الزام اپنے سر لے لیا اور خوفزدہ ہوگیا۔ یہ ہے مودی جی کا من پڑھ لینا ۔ ۶ سالوں میں ۷۰ مرتبہ من کی بات سن سن بھکت اس فن کا ماہر ہوگئے ہیں ۔

چینی ایپس پر لگی پابندی پر سنجیدگی سے غور کریں تو بے ساختہ ’انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھوانے‘ والا محاورہ یاد آتا ہے ۔ وزیر اعظم اگر فوجیوں کے سر کٹانے کی عظیم قربانی کے جواب میں چینی مصنوعات پر پابندی لگا دیتے تو وہ انگلی کٹانے کے مترادف ہوتا ۔ انہوں نے محض ایپ پر پابندی لگا کر کے گویا انگلی کے بجائے ناخن کٹوا کر اپنے آپ کومطمئن کرلیا ہے۔ ناخن اس لیے کہ اس کے کٹنے سے نہ تو درد ہوتا ہے اور نہ خون بہتا ہے۔ ناخن یعنی ناخون اور نہ درد۔ نیز جب ناخن ایک حد سے زیادہ بڑھ جائیں تو مجبوراً ان کو کاٹنا ہی پڑتا ہے ۔ مدراس ہائی کورٹ نے چند ماہ قبل ٹک ٹاک نامی ایپ کو جو فی الحال ٹاک آف دی ٹاون بنا ہوا ہے ممنوع قرار دے ہی دیا تھا کیونکہ کئی نوجوانوں نے اس کے سبب اپنے آپ کو ہلاک کرلیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے اس کو جیون دان دے دیا ۔

مودی سرکار نے پھر سے اس کا گلا گھونٹ دیا تو اس میں کون سی بڑی بات ہے؟ لوگ باگ اس کے دیسی اوتار چنگاری سے کام چلا لیں گے ۔ تفریح کے معاملہ میں بچن نہ سہی متھن اور متھن بھی نہ ملے تو گووندا سے کام چل جاتا ہے۔ ویسے کوئی بھی نہ ملے تب بھی وزیر اعظم تو وقتاً فوقتاً ٹیلیویژن پر آکر قوم کی تفریح کا سامان کرتے ہی رہتے ہیں ۔ لداخ کا سفر اسی مہم کا حصہ تھا ۔ اس سرکار کے بعد کم ازکم تفریح کے میدان میں تو ہندوستان آتم نربھر ہو ہی گیا ہے۔عوام کی اس ضرورت کو پوری کرنے کے لیے بی جے پی میں مودی جی کے علاوہ بھی بھانت بھانت کے کلاکار موجود ہیں۔ کوئی یوگی جیسا ولن تو کوئی پاترا جیسا کامیڈین ہے۔

فی ا لحال جن 59 ایپس پر پابندی لگائی گئی ان میں سے ۴۲ پر ڈوکلام کے بعد ہی پابندی غور ہورہا تھا۔ اب یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ان سے ملک کی خود مختاری ، سالمیت اور تحفظ کو خطرہ لاحق تھا۔ واقعی اگر ایسا تھا تو اس پر پابندی لگانے کے لیے 20 فوجیوں کے بلیدان کا انتظار کیوں کیا گیا؟ اس کے بغیر ہی یہ اقدام کیا جانا چاہیےتھا ۔ بی جے پی کے بھکت اس کو ایسا سائیبر اٹیک قرار دے رہے ہیں جس سے چین کی کمر ٹوٹ جائے گی لیکن اگرکسی ملک کی کمر توڑنے کے لیے اگر بے ضرر سا سائیبر حملہ کافی ہے تو آخر پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ بھکتوں کے خیال میں چونکہ پاکستان کے پاس کوئی ایپ ہی نہیں کہ جس پابندی لگا کر بدلہ لیا جاتا ، اس لیے مجبوراً عدم تشدد کا راستہ چھوڑ کر بادلوں کے درمیان سے ان کے رڈار سسٹم سے بچتے بچاتے حملہ کرنا پڑا ۔

اس دعویٰ کی حقیقت کا پتہ چلانے کے لیے تحقیق کی جائے تو پتہ چلے گا کہ ٹک ٹاک ٹائپ کا ’متروں‘ نامی ایپایک پاکستانی بناچکا ہے ۔ اس کو بھکت پونیہ ((سمجھ) کر ڈاون لوڈ بھی کرچکے ہیں ۔آگے چل کر پتہ چلا کہ وہ پاکستان کا ہے تو سارے بھکتوں نے ازخود اس کو ڈیلیٹ کردیا۔ پابندی لگانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ ‘متروں ‘ نامی ایپ کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ ان دیش بھکتوں نے اپنے فوجیوں کے خون کا بدلہ لینے کی خاطر ازخود ٹک ٹاک کے ساتھ کیوں نہیں کیا؟ اس بار بھی بنا بولے یہ کیوں نہیں ہوا ؟ ۱۴ دنوں تک سودیشی جاگرن منچ والے چیختے چلاتے رہے ۔ سڑکوں سے لے کر چینی سفارتخانے تک مظاہرے کرتے رہے لیکن عوام نے چینی موبائل تو کجا چینی ایپس تک اپنے فون سے ڈیلیٹ کیوں نہیں کردئیے؟

یہ کام اگر رضاکارانہ طور پر ہوجاتا تو حکومت پابندی لگا نے ضرورت ہی پیش نہیں آتی اور چینی سرکار کو اعتراض کرنے کا موقع بھی نہیں ملتا ۔ اس لیے کہ ہر صارف کو اپنی پسند کا ایپ ڈاون لوڈ یاڈیلیٹ کرنے کی آزادی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان کے ۶۱ کروڈ لوگوں نے اپنے موبائل میں سے ٹک ٹاک کیوں نہیں نکالا ؟جنگ آزادی کے دوران پھلنے پھولنے والا جذبۂ حب الوطنی کہاں چلا گیا؟اس ملک کے باشندوں کے اندر جو عزت و وقار کے ساتھ سر اٹھا کر چلنے کی تڑپ تھی وہ کہاں کھو گئی ؟ اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرکے اس کا جواب تلاش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ دراصل ہوا یہ کہ خالص حب الوطنی کو سیاستدانوں نے اپنے مفاد کی خاطر جعلی قوم پرستی سے بدل دیا ۔اس عمل کی ابتداء اندرا گاندھی نے کی اور اس کو نریندر مودی نے انتہا پر پہنچا دیا۔

بی جے پی نےایک زمانے میں حزب اختلاف پر جعلی(pseudo)سیکولرزم کا الزام لگایا تھا مگر اب وہ خود جعلی نیشلزم کے جال میں پھنس چکی ہے ۔ ہندوستان میں جعلی قوم پرستی کا بت پاکستان کے پتھر پر تراشا گیا اور اس کو اسلام دشمنی کے رنگ و روغن سے خوشنما بناکر عوام کے سامنے پیش کردیا گیا ۔ اس لیے اگر پاکستان کوئی مکھی ماردے تب بھی جذبہ ٔ انتقام جوش مارنے لگتا ہے اس کے برعکس چینیوں کے ہاتھوں فوجی بھی مارے جائیں تب بھی کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی ۔ دیش بھکت حکومت اور عوام اسے برداشت کرلیتے ہیں ۔ فی الحال یہی ہورہا ہے کہ ایپس پر پابندی اور لداخ کے دورے جیسے علامتی اقدامات سے عوام کو بہلایا پھسلایاجارہا ہے۔ عوام ان کھلونوں سے کھیل کر بچوں کی طرح خوش ہورہے ہیں بقول غالب؎
بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451208 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.