مؤرخ ‘مصنف‘کالم نویس‘منتظم ڈاکٹر صفدر محمود ادارہ
قومی تحقیق و حوالہ ‘وزارت اطلاعات و نشریات کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں 1971ء
میں اعلیٰ مرکزی سروسز کے لئے منتخب ہوئے اور مختلف انتظامی عہدوں پر کام
کر چکے ہیں۔ڈاکٹر صفدر محمود حکومت پنجاب کے محکمہ اطلاعات و ثقافت اور بعد
ازاں محکمہ تعلیم کے سیکرٹری بھی رہے قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ
پاکستانیات میں تعلیم دیتے رہے‘پوسٹ گریجوایٹ کلاسز کو نہ صرف تاریخ
پاکستان کی تعلیم دی بلکہ تحقیقی پروگرام بھی مرتب کئے ۔ڈاکٹر صفدر محمود
کو انکی اعلیٰ قومی خدمات کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈ برائے کارکردگی سے
نوازا گیا مختصر ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے سرکاری ‘انتظامی عہدوں کے فرائض
سے سبکدوش ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستا نیات اور پاکستان کی تاریخ و سیاست پر
تحقیق و تالیف کا کام بھی کرتے رہے۔ایک مصنف اور کالم نویس کی حیثیت میں ان
کی تحریروں کا اصل موضوع پاکستان ہی رہا ملکی و غیر ملکی مصنفین و مؤرخین
ان کی تحریروں کو مستند کتب کا درجہ دیتے ہیں۔ڈاکٹر صفدر محمود اب تک
درجنوں کتابیں لکھ چکے ہیں جن میں مسلم لیگ کا دور حکومت‘پاکستان کیوں
ٹوٹا‘آئین پاکستان‘تاریخ و سیاست‘سقوط مشرقی پاکستان‘مطالعہ پاکستان‘تقسیم
ہند افسانہ اور حقیقت ان کی یہ کتب ایک مؤرخ کے طور پر مستند تاریخ کا درجہ
رکھتی ہیں۔چند دن قبل ملک کے نامور پبلشرقلم فاؤنڈیشن انٹر نیشنل کے
چیئرمین علامہ عبدالستار عاصم صاحب نے بذریعہ ڈاک ڈاکٹر صفدر محمود کی
کتاب(بانیان پاکستان)کا ایک نسخہ راقم کو ارسال کیا اور یہ کتاب قلم
فاؤنڈیشن انٹرنیشنل نے شائع کی ڈاکٹر صفدر محمود اور جاوید ظفر نے کتاب
بانیان پاکستان کی شکل میں تحریک پاکستان کے ان جدوجہد سے عبارت اجلے
کرداروں پر روشنی ڈالی جنہوں نے پاکستان کی بنیاد کو مضبوط کرنے کے لئے
کلیدی کردار ادا کیا اور یقیننا یہی کردار پاکستان کی نسل نو کیلئے مشعل
اور پاکستان کے قیام کی مستند تاریخ کا درجہ رکھتے ہیں۔اس کتاب میں مصنف نے
شاہ ولی اﷲ‘سر سید احمد خان‘محسن الملک‘مولانا محمد علی جوہر‘علامہ اقبال
اور قائد اعظم محمد علی جناح کے روشن کرداروں کو نوجوان نسل کے لئے لیڈنگ
رول کے طور پر پیش کیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ نوجوان نسل کے لئے یہ کتاب
تحریک پاکستان میں شامل ان کرداروں کی ایک ایسی مستند سیریل ہے جس سے تاریخ
سے رغبت رکھنے والوں اور نوجوان نسل کو استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔پاکستان آج
اپنی عمر کی بہتر بہاریں بتا چکا ہے اور اس ملک کی بنیادوں میں لاکھوں شہدا
کا خون اور ماؤں‘بہنوں اور بیٹیوں کی بیحرمتی کے زخم مدفن ہیں۔تحریک آزادی
کی جدوجہدسے لے کر اب تک ملک کے نشیب و فراز سے جڑے حالات پاکستان کے بائیس
کروڑ باسیوں کی کہانی بن چکے ہیں۔قیام پاکستان سے لے کر ابتک کے حالات کا
مختصر خلاصہ یہی ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے اپنے کردار و عمل سے بانیان
پاکستان کے قائدانہ کردار کو مفادات ‘اقتدار اور لا محدود اختیارات کے حصول
کے لئے یکسر فراموش کر دیا سول و عسکری قیادت کے درمیان ایک ایسی
مفادات‘اختیارات اور اقتدار کی جنگ کا آغاز ہوا جس کے باعث ترقی یافتہ
ممالک کے مقابلے میں سات دہائیوں سے زائد عرصہ گذرنے کے باوجود عوام آج بھی
کمر شکن مہنگائی‘غربت و بیروزگاری‘توانائی بحران‘انصاف کی عدم
دستیابی‘اقرباء پروری‘کرپشن و بد عنوانی‘ رشوت‘سفارش‘بحران ‘بے لگام
مافیاز‘منی لانڈرنگ جیسے مہلک مسائل کے محاصرے میں ہے۔سوال یہ ہے کہ عوام
کی پشت پر کوڑے کی صورت برستے ان مسائل کے بے لگام گھوڑے کے سموں سے اڑتی
ہوئی دھول سے ملک عزیز کا جھومر کیوں دھندلا ہے‘معاشرہ میں ابہام اور بے
یقینی کی صورتحال کی کیفیت سے ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے کہ تبدیلی کی خواہش
کسی دیوانے کے خواب کے مترادف ہے۔کسی بھی ملک کے حکمران ملک و ملت کے
نگہبان ہوتے ہیں ان حکمرانوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ ملک و ملت کے مفادات کے
تحت ایسے عملی ٹھوس اقدامات کئے جائیں تاکہ وہ ملکی معاشرے کو دنیا کے
معاشروں کے سامنے ایک بہترین دلیل کے طور پر پیش کر سکیں۔ ملک بحرانوں سے
دوچار ہے جہاں ملکی معشیت کمزور تر ہوتی جا رہی ہے وہیں عام آدمی کا کرونا
وبا کے باعث کاروبار زندگی تلپٹ ہو کر رہ گیا ملک و ملت اس قدر مشکل حالات
سے دوچار ہے کہ عام عوام اس سوچ میں غرق ہے کہ زندگی کی شروعات ان حالات
میں کیسے کرے۔ رواں سال 2020ء کووزیر اعظم عمران خان نے ملکی ترقی اور
تبدیلی کا سال کا سال قرار دیا تھالیکن ترقی کی رفتار اتنی معدوم اور
تبدیلی عوام کے لئے اسقدر سوہان روح بن جائے گی یہ کبھی سوچا بھی نہ
تھا۔تحریک انصاف کی حکومت دو سال سے اقتدار میں ہے لیکن حکومت کی جانب سے
عام عوام کو تا حال کوئی ریلیف نہ مل سکاحکمران طبقات کی جانب سے کئے گئے
پیدا شدہ حالات کا ہی نتیجہ ہے کہ گرمی کی حدت کے ساتھ ساتھ سیاسی پارہ بھی
عروج ہے حالات اسقدر ستمگر ہو گئے کہ ان حالات نے اپوزیشن کے تن مردہ میں
بھی جان ڈال دی جو کہ حکومت کے لئے نیک شگون نہیں ۔مائنس ون کی آواز کی
گونج ایک بار پھر سیاسی و عوامی حلقوں میں گفتگو کا محور بن چکی ہے لیکن
سوال یہ ہے کہ ملکی ترقی و خوشحالی کا واحد حل صرف مائنس ون فارمولا ہی ہے
یا پھر ملکی سیاست دان سنجیدگی کے ساتھ ملک و ملت کو ان حالات سے دوچار
کرنے والے محرکات کا جائزہ بھی لیں گے۔دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک
ہیں وہ ممالک اپنی خودمختاری کی گرہ سے بندھے ہوئے ہیں جن کی معشیت انتہائی
مضبوط اور اور ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں ان کا بنیادی ڈھانچہ جدید
ٹیکنالوجی سے آراستہ ہے۔یہ سولہویں صدی عیسوی کا باب تھا جب انگریز نے
بیدار آنکھوں کے ساتھ دنیا کے گرد و پیش کا جائزہ لے کرترقی کے زینے سر
کئے۔وقت تھما نہیں دنیا نے کھلی آنکھوں علمی بیداری کے ساتھ
معاشرت‘تمدن‘تہذیب‘معشیت اور سیاست کے میدان میں ہلچل پیدا ہوتے
دیکھی۔مشینی آلات انسان کے ہاتھ بن گئے اور ٹیکنالوجی کی جدت نے دنیا کو
گلوبل ویلج میں ڈھال کر انسانی پوروں میں سمو دیااور یہ ایسی برق رفتار
تبدیلی تھی جس کے لئے یورپ خود کو تیار کر چکا تھااور یہی تبدیلی اور
ٹیکنالوجی کے ہتھیار کے ذریعے یورپ نے بر اعظم افریقہ اور ایشیاء کے ممالک
کو اپنا غلام بنا لیا۔تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جہاں خود انحصاری نے
معاشرہ میں بسنے والے افراد اور قوم کو سر بلند کیا وہیں افلاس زدہ سوچ کے
خاتمے کا بھی سبب بنی ۔شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنے زمانی
طالبعلمی میں بغور مشاہدہ کیا تھا کہ جب کوئی قوم اپنے گلے میں غلامی کا
طوق پہن لیتی ہے تو پھر وہ قوت مزاحمت کی بجائے تن آسانی‘قناعت اور تقدیر
پرستی کی عادی ہو جاتی ہے۔دنیا کی چوتھی مضبوط معاشی قوت جرمن کو امداد
دینے والے ملک عزیز کو آج دنیا ایک بھکاری کی نظر سے دیکھ رہی ہے اور وطن
عزیز کی قیادت اکیسویں صدی کے در پر کھڑے ہو کر مسائل ‘قومی خزانے اور
وسائل پر شب خون مارنے کا ماتم کرتی نظر آرہی ہے۔عوام کی تقدیر بدلنے کے
دعویداروں کے در پر یہ سوال شدت کے ساتھ دستک دے رہا کہ اقتدار کے ایوانوں
میں اس بات کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی گئی کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل
38کو حرکت میں لا کر عام عوام کو بنیادی انسانی ضروریات سے آراستہ کیا جائے
لیکن مہربان حکمرانوں کی ترجیحات میں یہ کبھی شامل ہی نہیں رہاعوام کے حسے
میں تو بدلتا پاکستان:پاکستان کھپے‘سب سے پہلے پاکستان‘روٹی کپڑا اور
مکان‘اور تبدیلی جیسے جذباتی دلنشین نعرے ہی آئے اور ملک کی سیاسی قیادت کے
نزدیک انہی عمل سے عاری نعروں کے بیچ تمام تر جمہوری لوازمات کے ساتھ عوام
کے مسائل کا حل موجود ہے۔ |