انسانی کھوپڑیوں کے مینار سجانے والے درندے چنگیزخاں
کے جھنڈے تلے پچاس وحشی قبائل محض اِس لیے اکٹھے ہو گئے کہ اُس نے ’’یاسا‘‘
(آئین) مرتب کیا جس پر وہ نہ صرف خود عمل کرتا بلکہ کرواتابھی۔لیکن جہاں
آئین کو 100 صفحے کی فضول کتاب سمجھا جاتا رہاہو، جہاں آمروں کو حقِ
حکمرانی بخشنے کے لیے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ گھڑا جاتا ہو، جہاں عادل سرِعام اپنے
گناہوں کا اعتراف کرتے ہوں ، جہاں کیس بنتے نہیں، بنائے جاتے ہوں، جہاں
جبرواستبداد کے پہرے اور دستورِزباں بندی ہو، جہاں جھوٹ کی کھیتی میں
نفرتوں کے بیج بوئے جاتے ہوں، جہاں آمروں کودَس باروردی میں منتخب کروانے
کے دعویدار موجود ہوں اورجہاں یوٹرن کو کامیابی کا زینہ سمجھا جاتا ہو،
وہاں ۔۔۔۔۔
وہاں فلک پہ ستاروں نے کیا اُبھرنا ہے
ہر اِک آنکھ جہاں آنسوؤں کا جھرنا ہے
نیب عدل ہی کا ایک ادارہ ہے لیکن سوائے تحریکِ انصاف اور چیئرمین نیب کے
کوئی ہے جو اَس ادارے کی تعریف کر سکے؟۔ یوں تو پاکستان کی تقریباََ ہر
اعلیٰ عدالت نے نیب کی کارکردگی پر سوال اُٹھایا ہے لیکن 8 جولائی کو
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے نیب کی کارکردگی پرسوال اُٹھا کر مہرِتصدیق
ثبت کردی۔ چیف جسٹس صاحب نے کہا’’نیب کا ادارہ چل نہیں رہا، مقدمے درج ہو
رہے ہیں، فیصلے نہیں ہورہے۔ مقدمات بیس بیس سال سے زیرِالتوا ہیں، یہی
ہوناہے تو کیوں نہ نیب عدالتیں بند کردیں‘‘۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین
رکنی خصوصی بنچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں کہا ’’قانون کے مطابق تو
نیب ریفرنس کا فیصلہ تیس دن کے اندر ہو جانا چاہیے لیکن لگتاہے کہ نیب کے
ملک بھر میں زیرِالتوا 1226 ریفرنسز کا فیصلہ ہونے میں ایک صدی لگ جائے
گی‘‘۔ اعلیٰ عدلیہ نے 120 نئی عدالتیں قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے 120 دنوں
میں تمام کیسز کا فیصلہ کرنے کا حکم صادر فرمایا۔
چیف جسٹس صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ نیب اپنے فرائضِ منصبی بطریقِ احسن
سرانجام دے رہا ہے۔ یہ ادارہ آمر پرویز مشرف کے دَورمیں نومبر 1999ء میں جس
مقصد کے لیے معرضِ وجود میں آیا، وہ مقصد عدل کی فراوانی نہیں اپوزیشن کو
’’پھڑکانا‘‘ اور اندھی طاقت کے بَل پرنئی سیاسی جماعت کو وجود میں لاناتھا۔
اِسی ادارے کے بَل پر قاف لیگ بنی اور 2002ء کے عام انتخابات کے بعد اُسے
حقِ حکمرانی ملا۔ جب سیاسی رَہنماؤں کا کچاچٹھا کھول کر سامنے رکھ دیاجائے
اور جیل یا حکومت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے لیے کہا جائے تو ظاہرہے
کہ عقلمند تو حکومت کے مزے لوٹنے کو ہی ترجیح دیں گے البتہ کچھ سَرپھرے بھی
ہوتے ہیں، جیل کی صعوبتیں اُٹھانے کے شوقین۔ ریاستِ مدینہ کی گونج میں نیب
کی پھُرتیاں ناقابلِ یقین۔ اب نیب حکومت کا ذیلی ادارہ بن چکا۔ صرف لال
حویلی والاہی نہیں کئی دوسرے وزراء بھی پیشین گوئی کر دیتے ہیں کہ کس کو کب
گرفتار کیا جا رہاہے۔ اُن کی ہر پیشین گوئی سوفیصد درست ثابت ہوتی ہے۔
بِلاثبوت گرفتاری نیب کا وتیرہ بن چکا۔ اُس کا نصب العین حکمرانوں کے حکم
کی تعمیل اور اشارۂ ابرو پہ متحرک۔ اُس کا ’’عصائے احتساب‘‘ اپوزیشن کے
سَرپر البتہ حکمرانوں کے لیے جوئے نغمہ خواں۔ چیئرمین نیب اقرار کرچکے کہ
اگر حکومت پر ہاتھ ڈالا تو حکمرانوں کا ’’دَھڑن تختہ‘‘ ہوجائے گا،ایسی
’’محبوب‘‘ حکومت کو گرانے کا سوچنا بھی نیب کے نزدیک گناہِ کبیرہ۔ یہ
چیئرمین نیب اعلیٰ ترین عدلیہ کے جسٹس بھی رہ چکے۔ جب معیارِعدل یہ ہو کہ
میزانِ عدل کا پلڑا زورآور کی طرف جھک جائے تو پھر ’’میں کس کے ہاتھ پہ
اپنا لہو تلاش کروں‘‘۔
صرف نیب ہی کیا، تمام ادارے ایک پیج پر، حکمرانوں کے دست وبازو بنے ہوئے
لیکن 1992ء کا کرکٹ ورلڈکپ جیت کر ہیرو بننے والے کپتان میں ایٹمی پاکستان
کی سربراہی کی صلاحیت مفقود اور حالت ’’نے ہاتھ باگ پر ہیں نہ پا ہے رکاب
میں‘ ‘کے مصداق۔ اِسی کو کہتے ہیں ’’جس کا کام اُسی کو ساجے‘‘۔ اب پوری قوم
اُس ’’شیشے کے مرتبان‘‘ کی قیمت چکا رہی ہے۔ قوم یہ سوچنے پر مجبور کہ اگر
امریکہ، چین اور روس کرکٹ کے بغیر دنیا کی عظیم مملکتیں بن سکتی ہیں تو
شیشے کے اِس مرتبان کی کیا ضرورت تھی جس نے ہمیں بے بسی وبے کسی کے عفریت
کے حوالے کردیا، جہاں اب صرف مافیا کی حکمرانی، کبھی شوگر مافیا تو کبھی
آٹا مافیا، کبھی بجلی مافیا تو کبھی پٹرول مافیااور حکمران ’’ہاتھ پہ ہاتھ
دھرے منتظرِفردا‘‘ یاپھرتیوں پہ گزارا۔ بیوروکریسی میں اُکھاڑ پچھاڑ اور
وزراء کے محکموں میں ’’اُتھل پُتھل‘‘۔ سٹیٹ بینک پر آئی ایم ایف کا قبضہ
اور خان کے ذاتی دوستوں کی فوج ظفرموج مشیر و معاون۔ اتحادی ناراض اور
تحریکِ انصاف میں دھڑے بندی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خاں نے پارلیمنٹ میں کھڑے
ہوکر اپوزیشن کو مخاطب کرکے یہ کہا ’’اگر میں مائنس ہو بھی گیا تو یہ
(تحریکِ انصاف) تمہیں نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ جب سے خان کا یہ بیان سامنے آیاہے،
میڈیاپر مائنس وَن اور مائنس تھری کا شور بپاہے۔ یادآیا کہ ایک دفعہ سلیم
صافی نے کہاکہ کوئی مائنس وَن نہیں ہوگا، اگر ہوگا تو مائنس تھری ہوگا۔
مائنس ٹو توپہلے ہی ہوچکا اب مائنس تھری کی باری مگر لال حویلی والے نے کہا
کہ اگر مائنس ہوں گے تو سب ہوں گے۔ پیشین گوئیوں کی آڑھت سجانے والے شیخ
رشید شایدپیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان کی فضاؤں میں ایک دفعہ پھر
’’میرے عزیز ہم وطنوں‘‘ کی گونج سنائی دینے والی ہے۔
اُدھر پاکستان کی بگڑتی حالت چکور کی سی جو باربار چاند کو پکڑنے کی کوشش
کرتا ہے لیکن کبھی گوہرِمقصود ہاتھ نہیں آتا۔ پاکستان بنے سات عشروں سے
زائد ہوچکے، ہم نے آمریتیں بھی بھگتیں اور جمہوریتیں بھی۔ ہمیں سنہرے سپنے
بھی دکھائے گئے کہ پاکستان قدرتی دولت سے مالامال ہے، سونا اُگلنے والی
زمینیں اور زمینوں کی تہ میں قدرت کے دفینے۔ کبھی بلوچستان میں ریکوڈیک کے
سپنے اور کبھی چنیوٹ میں سونے کے پہاڑ لیکن مجبوروں مقہوروں کی وہی کم
نصیبی۔ جب سے نئے پاکستان کے بانی اور ریاستِ مدینہ کے علمبردار آئے ہیں
حالت پپہلے سے کہیں بَدتر۔ ہم تو یہ سمجھے تھے کہ صحرائے سیاست کی بائیس
سالہ آبلہ پائی کے بعد خاں صاحب منجھے ہوئے سیاستدان بن چکے ہوں گے مگر اُن
کی حالت بقول خلیل جبران اُس کُہر کی مانند جو ظہورِ خورشید کے ساتھ ہی
فضاؤں میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ اکتوبر 2011ء میں مینارِپاکستان کے سائے تلے
خاں صاحب کی اُٹھان ایسی کہ ’’دریاؤں کے دِل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں‘‘
لیکن اصحابِ فہم کو جلد ہی محسوس ہونے لگاکہ ’’اِن تِلوں میں تیل نہیں‘‘۔
یہ احساس اُس وقت یقین میں بدل گیا جب تحریکِ انصاف کے دَر ہر کہ ومہ کے
لیے وا ہوگئے۔ خاں صاحب کے سارے دعوے تو الیکشن 2013ء سے پہلے ہی ہوا ہو
چکے تھے، اگست 2014ء کے 126 روزہ دھرنے نے ڈھول کا پول کھول کے رکھ دیا اور
لوگوں کو ادراک ہوگیا کہ خاں صاحب تو امپائر کی اُنگلی اُٹھنے کی آس لگائے
بیٹھے ہیں۔
ارسطو نے کہا ’’ہر غلطی آپ کو کچھ نہ کچھ سکھا دیتی ہے۔ شرط مگر یہ کہ آپ
کچھ سیکھنا چاہیں‘‘ لیکن خاں صاحب کی نظر تو ’’شیروانی‘‘ پرتھی وہ خواہ کسی
گھر سے ملے، کسی دَر سے ملے۔ وہ تو آمر پرویزمشرف کے جلسوں میں بھی تحریکِ
انصاف کا جھنڈا لہراتے ہوئے محض اِس لیے شریک ہوا کرتے تھے کہ اُس نے
وزارتِ عظمیٰ کا لالچ دے رکھاتھا۔خاں صاحب نے اپنی صلاحتوں کو بروئے کار
لانے کی بجائے صرف ’’زورآوروں‘‘ کی طرف دیکھااور بالآخر کامیاب بھی ہوگئے۔
سوال مگر یہ کہ کیا وہ وزیرِاعظم ہیں یا محض ایک کٹھ پُتلی جس کی ڈور کسی
اور کے ہاتھ میں؟۔ کبھی اکیلے بیٹھ کر وہ سوچیں تو سہی کہ کہیں وہ بھی
میرظفر اﷲ جمالی تو نہیں جو وزیرِاعظم ہوتے ہوئے بھی پرویزمشرف کو ’’باس‘‘
کہا کرتے تھے ۔
|