کیا دولفظ جاننے والا ہرشخص علاّمہ ہے؟
(Afzal Razvi, Adelaide-Australia)
یا دولفظ جاننے والا ہرشخص علاّمہ ہے؟
تحریر۔ افضل رضوی-ایڈیلیڈ، آسٹریلیا ہر روز جب بھی کوئی مضمون یا تبصرہ لکھنے بیٹھتا ہوں یا اخبار کا مطالعہ کرتا ہوں یا سوشل میڈیا پرنظر ڈالتا ہوں تو ایک لفظ مجھے اکثر اپنی طرف متوجہ کر تاہے اور وہ لفظ ہے ”علامہ“جو ایک مدتِ طویل تک شاعرِ مشرق حکیم الامت کے نام کا خاصہ رہا اور شیخ محمد اقبالؒ جو ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل تھے اور جنہیں ”سر“ کا خطاب بھی دیا جاچکا تھا انہیں جب اہلِ علم و دانش نے ان کے تبحرِ علمی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ”علامہ“ کے خطاب سے نوازا تو انہوں نے اس سے منع نہیں فرمایا لیکن بجائے خود اپنے نام کے ساتھ کبھی ”علامہ“ نہیں لکھا۔وہ تو ”دانائے راز“ تھے۔انہیں تو مسلمانوں کی حقیقتِ حال کا علم تھا۔وہ تو مسلمانوں کی من حیث القوم خدمت کے متمنی تھے اس لیے وہ ان ا لقابات اور خطابات سے بے نیاز تھے اور نہ صرف اقبالؒ بلکہ مسلمانوں کے قریباً سبھی بڑے بڑے جید علماء کا یہی اندازفکر تھا جو اکیسویں صدی میں خال خال ہی نظر آرہا ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو اس مضمون کے رقم کیے جانے کی وجہ تسمیہ ہے۔
ڈاکٹر شیخ محمد اقبال ؒ نے کسی مدرسہ سے باقاعدہ دینی تعلیم حاصل نہ کی تھی لیکن اپنے مطالعے کے زور پر وہ اس مقام کو پہنچ چکے تھے جہاں مجتہد پہنچتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عوام کی طرف سے انہیں ”‘علامہ“ کا خطاب یا لقب ہر دو صورت میں دے دیا گیا تھا تاہم یہ بات حتمی طور پر نہیں کہی جاسکتی کہ سب سے پہلے انہیں ”علامہ“ کے ٹائٹل سے کس نے متعارف کرایا۔ بایں ہمہ؛یکم جنوری 1923ء کو اقبال کر سَر کا خطاب ملا تو اس نے ان کے تبحرِ علمی اور ان کی فکرِ اسلام پر مہر ثبت کردی۔ اس خطاب کے ملنے پر ان کے ایک پرانے دوست میر غلام بھیک نیرنگ ؔنے اندیشہ ظاہر کیا کہ اب آپ شاید آزادیئ اظہار سے کام نہ لے سکیں توعلاّمہ اقبال ؒ نے اس کے جواب میں 4 جنوری 1923ء میں ان کے نام مکتوب میں لکھا ۔
میں آپ کو اس اعزاز کی اطلاع خود دیتا مگر جس دنیا کے میں اور آپ رہنے والے ہیں، اس دنیا میں اس قسم کے واقعات احساس سے فرو تر ہیں۔ سیکڑوں خطوط اور تار آئے اور آ رہے ہیں اور مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ لوگ ان چیزوں کو کیوں گراں قدر جانتے ہیں۔ باقی رہا وہ خطرہ جس کا آپ کے قلب کو احساس ہوا ہے۔ سو قسم ہے خدائے ذوالجلال کی جس کے قبضے میں میری جان اور آبرو ہے اور قسم ہے اس بزرگ و برتر وجود صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جس کی وجہ سے مجھے خدا پر ایمان نصیب ہوا اور مسلمان کہلاتا ہوں، دنیا کی کوئی قوت مجھے حق کہنے سے باز نہیںرکھ سکتی۔ ان شاء اللہ۔
آئیے! ذرا مضمون کو آگے بڑھانے سے پہلے لفظ”علاّمہ“ کے معنی و مفہوم سے آگہی حاصل کرلیں ۔ لغات میں ”علاّمہ“کے ایک سے زیادہ معنی منقول ہیں۔ صاحبِ فیروز اللغات اور صاحبِ علمی لغات کے مطابق ”علاّمہ“ کے معنی نہایت دانا اور فاضل مرد نیز گہرا علم رکھنے والے کے ہیں۔دونوں لغات میں دیگر معانی بھی درج ہیں لیکن ان کااس مضمون سے براہِ راست کو ئی تعلق نہیں بنتا البتہ اس لفظ کی مزید وضاحت وصراحت اردو دائرہ معارف ِ اسلامیہ میں کچھ یوں درج کی گئی ہے۔”عالم سے مبالغے کا صیغہ”علاّمہ“ بمعنی بہت جاننے والا۔ یہ لقب بہت عالموں کے نام کے شروع میں استعمال ہوا۔ علاّمہ اور علاّمی جیسے القاب جید علما کو اس لیے دیے گئے تاکہ اسما الحسنیٰ علاّم (جو خدائے تعالیٰ کی صفتِ علم ہے) سے مماثلت یا التباس پیدا نہ ہو“۔ایک اور اصطلاحی مفہوم کے مطابق، علامہ (عل لا مہ) ایک اعزازی خطاب (بعض او قات، بطور لقب) اسلامی فقہ یا بہت بڑے مسلمان عالم دینیا اسلامی فلسفہ کے ماہر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ علامہ کا استعمال شرق الاوسط، جنوبی ایشیا اور ایران میں سنی و شیعہ دونوں بڑے گروہ کرتے ہیں۔
غور کرنے سے دو باتیں آشکارا ہوں گی؛ اول یہ کہ یہ لقب کسی عام سے عالم کے لیے نہیں یا دوسرے لفظوں میں خود ساختہ عالم کے حصے میں نہیں آتا اور مزیدیہ کہ اس بات کا فیصلہ علمائے حق اور اہلِ علم ودانش کرتے ہیں کہ کوئی صاحب ِ علم اس مرتبہ کو پہنچ چکا کہ اسے ”علاّمہ“ جیسے بڑے لقب سے نواز دیا جائے، دوم یہ کہ اگر اس لفظ کو بلا تشدید پڑھیں تو اس کے معنی نشان کے بن جاتے ہیں۔ جیسے عربی میں مہر لگاتے وقت ”علامہ“ بمعنی نشانِ توثیقیا امضائی مختصرثبت کی جاتی ہے۔اسلامی مغربی ممالک میں مہر کے لیے لفظ”علامہ“ تشدید کے بغیر مستعمل ہے۔
لیکن فی زمانہ وطنِ عزیز پاکستان میں ہر شہر اور ہر شہر کے ہر ہر محلے میں ایک ایک دودو ”علامہ“ ضرور مل جاتے ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ علامہ(جمع) کی اس بہتات کے باوجود معاشرے میں سدھار کے بجائے انتشار آرہاہے۔ ایک وقت تھا کہ ایک ”علاّمہ“ اقبالؒ نے پاکستان جیسے وطن کا خواب دیکھا اور اس کے لیے عملی جد وجہد کا آغاز کیا جس کے نتیجے میں بالآخر اسلامی جمہوریہ پاکستان معرضِ وجود میں آگیا؛لیکن ایک آج کا دور ہے کہ اتنے علامہ ہیں مگر وطنِ عزیز میں روز بروز اخلاقیات کا جنازہ نکل رہاہے، نوجوان طبقہ سوشل میڈیا کی زد میںایسا آیا ہے کہ نہ صرف اخلاقی قدروں کو پسِ پشت ڈال رہا ہے بلکہ مذہب سے بھی بے زار نظر آتا ہے۔اب یہ تو بات نوجوان طبقے کی ہے لیکن اگر ان نام نہاد علامہ کہلوانے والوں پر نظر دوڑائی جائے تو بہت سے سوشل میڈیا پر دین کی بات ٹھٹھہ مذاق کے پیرائے میں کرتے نظر آئیں گے۔ کوئی سپیکر پر پھو نکیں مارتا اور کوئی ”جانو“ کہتا ہوا ملے گا۔یہی نہیں اس پر مستزاد یہ کہ ابھیحال ہی میں ایک علامہ نے تونہ صرف پاکستان کے ایک سابق صدر اور ایک سابق وزیراعظم کو اسرائیلی ایجنٹ قرار دے دیا بلکہ وطنِ عزیز کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے ججوں کو نجس اور پلید تک کہہ دیا۔ان علامہ نے کہا،”اگر اس پاکستان کو بچانا ہے تو پھر اس عدلیہ کا بند وبست کریں۔۔۔یہ جج نہیں ہیں،یہ انہیں کے خریدے ہوئے نجس، پلید کتے ہیں۔“۔
اب اگر ایسا شخص جسے حفظِ مراتب اور معاشرتی اقدار کا پاس نہ ہو، کیا ایسا شخص ”علامہ“ کہلانے کا حق دار ہے؟یہ مثال تو میں نے ایک پڑھے لکھے طبقے سے دی ہے۔سطورِ بالا میںیہ لکھا جا چکا ہے کہ پاکستان کے ہر شہر اور پھرہر شہرکے ہر ہر محلے میں ایک ایک دودو علامہ تو ضرور بستے ہیں۔ ایسے میں سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ایسا ملک جہاں کا لٹریسی ریٹ(شرح خواندگی) 58%ہووہاں ان علاّمہ شخصیات کا کردار تو کلیدی ہونا چاہیے لیکن ایسا ہوتا نظر آنا تو دور اس کا عکس بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا۔
ایک اور بات جس کا تذکرہ نہایت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اس علاّمہ لکھنے لکھانے کے سلسلے میں بہت سے نام نہاد ”علاّمہ“ بھی میدان میں ہیں اور دوسری بات یہ کہ مولوی فیروزالدین اور وارث سرہندی نے ”علاّمہ“ کے معنی نہایت دانا اور فاضل مرد نیز گہرا علم رکھنے والے کے علاوہ؛نہایت چالاک اور مکار آدمی اور نہایت چالاک اور عیار (عورت) کے بھی لکھے ہیں۔ اب اگر ان معنوں کو پیشِ نظر رکھا جائے تو کسی حد تک یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگ جو مذہب کو بنیاد بنا کر ٹھٹھہ کرتے ہیں وہ اس تعریف پر پورا اترتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں وطنِ عزیز اور کچھ ہمسایہ ممالک میں کئی ”علامہ“ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو تعزیر کا مطلب تک نہیں جانتے لیکن سادہ لوح اور طبقہئ جہلا کے امام ہیں۔
یہ سطورلکھنے کا ہر گزہر گز یہ مطلب نہیں کہ خدا نخواستہ پڑھے لکھے اور صاحب علم حضرات کو ہدفِ تنقید بنایا جائے بلکہ معاشرے کے ان ناسوروں کی پردہ کشائی ہے جو محض چرب زبانی کی بدولت سادہ لوح عوام کو بے وقوف بناتے ہیں اور ان سے من چاہا کام لیتے ہیں۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو جنتیں بانٹتے پھرتے ہیں اور اسی لالچ میں آکر کئی نوجوان وہ بھی کر گزرتے ہیں جو حسن بن صبا کے زیرِ اثر نوجوان کیا کرتے تھے۔بات دور نکلتی ہے اس لیے مختصراً یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ ملک ِ پاک کے ان نام نہاد علاموں کی ہمارے معاشرے کو قطعاً ضرورت نہیں۔ آج کے دور میں اتنے علامہ پیدا ہو گئے ہیں کہ اب سوچنا پڑے گا کہ علامہ اقبالؒ کو کسی دوسرے لقب یا خطاب سے متعارف کرایا جائے کیونکہ اتنے زیادہ علاموں کے دیس میں حکیم الامت جیسے نابغہئ روز گار کی کیا حیثیت؟
|