ماحول انسان کی زندگی کے لئے
خطرہ ہے۔ انسان آلودہ ماحول میں سانس لے کر اپنے جسم میں بیماریوں کو دعوت
دیتا ہے۔ دنیا میں ماحولیاتی آلودگی میں انتہائی اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس
پر قابو پانا ضروری ہے۔
ہماری صحت، ہمارے ماحول سے بہت حد تک وابستہ ہے۔ ہم جس ماحول میں رہتے ہیں،
اِس میں انسان، جانور، موسمی حالات، چرندپرند، پودے اور درخت، ہوا ، پانی،
سورج، بادل، کھیت اور کھلیان، دریا اور نہریں سب کچھ شامل ہے۔ اگر ہم تھوڑی
دیر ماحول کو فراموش کرنے کی کوشش کریں تو یہ بیکار ہوگا کیونکہ ماحول ایک
دائمی چیز ہے۔ گھر کا ماحول، باہر کا ماحول، اسکول کا ماحول، آفس کا ماحول
غرض کہ ماحول سے ہمیں کوئی جدا نہیں کر سکتا۔ انسان کے اندر کا ماحول اس کو
بیرونی ماحول سے نبردآزما ہونے میں مدد دیتا ہے۔
جس فضا میں ہم سانس لیتے ہیں، ہوا کا ایک ذریعہ ہے۔ ہم آکسیجن کے بغیر زندہ
نہیں رہ سکتے۔ ہمارے جسم میں ہر لمحہ کاربن ڈائی آکسائیڈ بنتی رہتی ہے۔
ہمارے خون کے سرخ خلئے نہایت سرعت اور جانفشانی کے ساتھ ہمارے پھیپھڑوں کی
باریک نالیوں میں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تبادلہ کرتے ہیں اور
آکسیجن کو جسم کے کونے کونے تک پہنچاتے ہیں۔ یہ کارکردگی زندگی کے پہلے دن
سے آخر دن تک برقرار رہتی ہے۔ فضا میں دوسری گیسز بھی ہوتی ہیں اور وہ گیسز
ہماری سانس کے ساتھ ہمارے جسم میں داخل ہوتی ہیں اور باہر نکل جاتی ہیں۔ گاﺅں
کی فضا چونکہ آلودگی سے پاک ہوتی ہے اس لیے وہاں رہنے والا شخص نسبتاً
زیادہ صحت مند ہوتا ہے مگر شہر کے باسی اتنے خوش نصیب نہیں ہوتے۔
شور کی آلودگی بھی ماحولیاتی آلودگی کی ایک قسم ہے۔ جسے ہمارے ملک میں کسی
بھی طور پر اہمیت نہیں دی جارہی، حالانکہ یہ ان دیکھی آلودگی ہماری
زندگیوں، صحت (جسمانی اور ذہنی) اور ترقی پر براہِ راست اور بلاواسطہ بہت
زیادہ اثرات مرتب کررہی ہے۔ مثلاً شور کے حد سے زیادہ بڑھنے سے یہ سننے کی
حس کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ اگر اس کا مقابلہ گرمی اور روشنی کی آلودگی
سے کیا جائے تو صوتی آلودگی کے عناصر یا (پارٹیکلز) ہمیں کہیں نہیں دکھائی
دیں گے مگر آواز کی لہریں قدرتی لہروں کی موجودگی میں خطرات کو بڑھادیتی
ہیں۔
شور کی آلودگی کی میں بہت سی آوازیں شامل ہیں جن کو ہم اپنی عام زندگی میں
نظرانداز کردیتے ہیں مگر درحقیقت یہ ہماری زندگی میں بہت بڑا خطرے کا باعث
ہوتی ہیں۔ شور کی آلودگی میں جنریٹر، ریل گاڑی، کار، موٹر سائیکل، رکشہ،
جہاز، مشینیں (سلائی مشین، واشنگ مشین، گراینڈر وغیرہ) گھر کے دروازے کی
بیل کے علاوہ،محلوں میں چیختے چلاتے چھابڑی فروش اور ہمسائیوں کی مشکلات سے
بے خبر بلند آواز میں گلا پھاڑتے ہوئے مکین شامل ہیں۔
سائنسدانوں کی ریسرچ کے مطابق اگر کوئی شخص مسلسل شور کے ماحول میں زندگی
بسر کرتا ہے تو اس کے سننے کی حس بتدریج زائل ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے
علاوہ مصنوعی شور کی آلودگی جس میں ٹریفک کا شور شامل ہے، کی وجہ سے انسان
اعصابی تناﺅ، بے چینی اور طبعیت میں چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کے
علاوہ جنریٹر یا مشینوں کی آواز کی وجہ سے یا اچانک تیز دروازے کی گھنٹی کی
وجہ سے نیند ٹوٹ جاتی ہے یا اس میں خلل آجائے تو انسان کی طبعیت میں مزید
بے سکونی بڑھ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے دل کی بیماریاں اور ذہنی صحت پر برا
اثر پڑتا ہے۔
یہ زرق برق روشنی جہاں ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک، دل کو فرحت و نشاط اور ذہن و
دماغ پر خوشی و مسرت کے لافانی نقوش چھوڑ جاتی ہے وہیں ہم سے اس کی بھاری
قیمت بھی چکا لیتی ہے۔ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ رات کی روشنی صحت انسانی
کے لیے خطرہ ہے نیز سینے کے سرطان، مایوسی اور دیگر امراض کے روز افزوں
واقعات کا اہم سبب ہے۔ بہت سے جنگلی جانوروں اور پودوں کے لیے رات میں
روشنی زہریلے عناصر کے مانند ضرر رساں ہے۔
ماحولیاتی آلودگی میں ٹریفک کا دھواں بھی کئی بیماریاںپھیلانے کاسبب ہے۔شہر
کی فضا گاڑیوں کے دھوئیں سے آلودہ ہے۔ علاوہ ازیں کچرے کے ڈھیر میں بھی آگ
لگا دی جاتی ہے جس کا دھواں بھی مضر صحت ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اور گرم
ماحول سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں اور ٹمپریچر کے بڑھنے کی وجہ
سے خواتین کی جسمانی کارکردگی تیس فیصد جبکہ دماغی کارکردگی پچاس فیصد تک
رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے خواتین ڈپریشن، ٹینشن اور فرسٹریشن کا شکار ہوتی
جارہی ہیں۔فضائی آلودگی کے سبب لوگوں کو سانس کی مختلف الرجیز کے علاوہ دمہ
کی بھی شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔
گاڑیوں اور دیگر آوازوں کا شور اور دھواںبھی جانداروں کیلئے انتہائی مضر
ہیں جس سے ان کا سانس لینے کا عمل بالخصوص دل اور پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں
اورآلودگی کے مختلف اجزاءجسموں کے اندر داخل ہوکر ان کے اندرونی نظام کو
شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ پانی ابال کر پئیں بلاضرورت
باہر سڑکوں پر نہ نکلیں۔
گاڑیوں کے دھویں اور شور سے بچیں بلاضرورت گاڑیاں بھی استعمال نہ کریں بلکہ
ہر ممکن کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ پیدل چلیں۔
دنیا میں حکومتیں ماحولیاتی تحفظ کے لیے ادارے بناتی ہیں تاکہ عوام کو
زندگی کی بہترین سہولیات مہیا کرسکیں۔ فضا کے ساتھ ساتھ زمینی یعنی ارضی
آلودگی بھی صحت کے لیے اتنی ہی خطرناک ہے جتنی کہ فضائی آلودگی۔ کوڑا کرکٹ،
گندگی اور بیماریاں پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ آلودگی کی تمام اقسام سے بچنے
کےلئے حکومت شہر کو صاف ستھرا رکھنے کیلئے بہتر اقدامات کرے اور عوام بھی
صفائی کا خاص خیال رکھیں تاکہ ہمارا شہر ماحولیاتی آلودگی سے پاک ہو جائے- |