عمران خان کا دیوانہ پن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سیاست کے کوچہ ملامت میں ایک دفعہ نکل آنے کے بعد اصولوں اور پختگی کردار
کا قائم رہنا بہت مشکل کام ہوتا ہے،ہم نے اس میدان کارزار میں بڑے بڑوں کو
ٹھوکریں کھاتے،لڑکھڑاتے اور گرتے دیکھا ہے،اس راہ کے مسافروں میں قائد اعظم
محمد علی جناح جیسے صاحب کردار لوگ کم ہی ملتے ہیں جو اعلیٰ وارفع
اصولوں،پختہ نظریات اور بے داغ کردار کو اپنی سیاست کا مرکزومحور بنائیں
اور زندگی کے کمزور لمحوں میں بھی اپنے اجلے دامن پر داغ نہ لگنے دیں،15سال
قبل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی اس کوچہ ملامت میں تازہ ہوا کے
ایک لطیف جھونکے کی طرح داخل ہوئے،مسلسل کرب وآزار میں مبتلا قوم کیلئے کچھ
کر گزرنے کی تڑپ اور جنون انہیں اِس وادی خار زار میں لے آیا،ملک کی تقدیر
بدلنے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے،جذبہ حب الوطنی سے سرشار اِس پر عزم
شخص نے براہ راست نوجوانوں کے دلوں پر دستک دی اور سیاست کے کوچہ وبازار
میں رنگ ونور کا میلہ لگ گیا ۔
انیس سو ستانوے (1997ء) کے الیکشن میں تحریک انصاف نے 132امیدوار کھڑے
کئے،خود عمران خان نے 8حلقوں سے الیکشن لڑا، لیکن وہ ایک بھی حلقے سے
کامیاب نہ ہوسکے اور تحریک انصاف کے 132امیدواروں میں کوئی بھی اسمبلی میں
نہ پہنچ سکا، پھر اپنے حریف کی کمزوریوں پر نظر رکھنے والا یہ جارحیت پسند
کرکٹر یکایک اپنی باوقار چال بھول جاتا ہے اور تمام تر جذبہ صداقت اور نیک
عزائم کے باوجود جنرل پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈیم کی حمایت کر کے
مصلحتوں اور مفاہمتوں کا شارٹ کٹ اختیار کرتا ہے، چاہنے والے حیران و ششدر
رہ جاتے ہیں،لیکن جلد ہی اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے،وہ خود تسلیم
کرتا ہے کہ ”وہ میری سب سے بڑی غلطی تھی،لیکن اِس میں میرے کسی مفاد،بدنیتی
یا اصول شکنی کا دخل نہ تھا،مجھے باور کرایا گیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف
ریفرنڈیم کے ذریعے عوامی مینڈیٹ لے کر کرپٹ عناصر کے خلاف فیصلہ کن کاروائی
کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں،میں کرپشن کو سیاست کا ناسور سمجھتا ہوں اور اسی
خوش گمانی میں ریفرنڈیم کی حمایت کی کہ صدر مشرف کرپٹ لوگوں کا محاسبہ کریں
گے.....لیکن غلطی ہوچکی تھی جس پر میں شرمندہ ہوں ۔“
یہی احساس ندامت آج عمران خان کے بڑے پن کی علامت ہے،مگر کیا کریں کہ سیاست
کے کوچہ ملامت میں ایک غلطی انسان کو اپنی منزل سے کوسوں دور لے جاتی
ہے،عمران خان آج بھی اُس ایک غلطی کے تدارک کیلئے سرگرداں ہے،پاکستان کو
1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں فتح یاب کروانے اور شوکت خانم کینسر اسپتال بنانے
سے پاکستان کی نوجوان نسل میں مقبولیت حاصل کرنے والے عمران خان سیاست کے
میدان میں کامیاب ہو سکیں گے یا نہیں،اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا تاہم
ایک بات طے ہے کہ عمران خان نوجوانوں کیلئے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے
ہیں،کرکٹ کے دنوں سے لے کر آج تک وہ اسی طرح لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کی
دلوں کے دھڑکن ہیں،کرکٹ میں جس طرح انھوں نے بہت مشکل حالات میں بہترین
قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کو ورلڈ چیمپیئن بنوانے میں
بنیادی کردار ادا کر کے اَن مٹ نقوش چھوڑے ۔
بالکل اسی طرح شوکت خانم کینسر ہسپتال جیسے اداروں کی تکمیل سے ملک میں
کینسر جیسے موزی مرض سے بچاؤ اور غریب عوام کو علاج معالجے کی سہولیات کی
فراہمی بھی اُن کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے، صحت کے شعبے میں گراں قدر خدمات
کے ساتھ تعلیمی شعبے میں بھی انھوں نے نمل نالج سٹی اور نمل یونیورسٹی کا
افتتاح کر کے ملک کے ذہین اور مستحق طلباء کیلئے سکالر شپ پروگرام سے
تعلیمی میدان میں انقلاب لا نے کے خواب کو عملی تعبیر دی،آج عمران خان اور
ملک کے دوسرے سیاستدانوں اور بڑی سیاسی جماعتوں کے کرتا دھرتاؤں میں یہی
بنیادی فرق ہے کہ عمران خان کا جرات مند سیاسی ماضی سب کے سامنے ہے،انھوں
نے عملی طور پر جو کچھ ہو سکا،سب سے پہلے کر کے دکھایا،بعد میں عوام کی
عدالت میں گئے ۔
اُن کی سیاست کر نے کا انداز کچھ لوگوں کو اِس لئے نہیں بھاتا کہ وہ روایتی
سیاست دانوں سے ہٹ کر صاف دلی کے ساتھ جو کچھ دل میں ہوتا ہے،وہی بولتے
ہیں،معاشرتی برائیوں رشوت ستانی کرپشن،سفارش،میرٹ اور ملک میں عدل و انصاف
اور طبقات کے مطابق وسائل کی تقسیم اور ملک سے لو ٹی گئی رقوم کی واپسی کی
بات کرتے ہیں،وہ کسی بینک کے نادہندہ اور نیب زدہ نہیں ہیں اور انھیں کبھی
خود کو ضمیر کی عدالت میں پیش کرتے شرمند گی محسوس نہیں ہوتی،ایک عالمی
شخصیت ہو نے کے ناطے امریکہ سے لے کر دنیا کے ہر ملک کا حکمران انھیں نہ
صرف جانتا ہے بلکہ انکی ذات سے بھی بخوبی واقف ہے،آج عمران خان ہی وہ واحد
لیڈر ہیں جو سر میدان کھڑے ہو کر حکمرانوں کو ملکی عزت و و قار کو داؤ پر
لگانے اور محض اقتدار سے چمٹے رہنے کیلئے اغیار کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر
آڑے ہاتھوں لیتا ہے ۔
جبکہ اس کے پاس کوئی عددی برتری نہیں ہے،نہ اُسے میدان سیاست میں عوام
کیلئے کچھ کر دکھانے کا موقع ملا ہے،مگر کوئی ایسی بات ضرور ہے کہ تحریک ا
نصاف کا کوئی جلسہ ہو یا کوئی کال ہو،عوام کی اکثریت اُس میں موجود ہوتی
ہے،بچے بوڑھے، جوان اور ہر عمر کے افراد متحرک نظر آتے ہیں،جو بات تمام
سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں منفرد نظر آتی ہے وہ ہے نوجوانوں اور طالب
علموں کا تحریک انصاف کی پالیسیوں،نظریات اور منشور سے والہانہ محبت،نوجوان
اپنے قائد عمران خان کی ایک کال پر لبیک کہتے ہوئے اپنی خدمات پیش کر نے
میں ذرا برابر بھی تعامل نہیں کرتے،یہی وجہ ہے کہ اُن کی تحریک لوگوں اور
خصوصا ًنوجوانوں کے دلوں کی دھڑکن بنتی چلی جارہی ہے ۔
عمران خان نے اپنے 15 سالہ سیاسی سفر میں ہمیشہ قومی مفاد کو مقدم رکھا
ہے،اُس نے ملک کی سلامتی اور خود مختاری کی جنگ بڑی جرات کے ساتھ لڑی،آزاد
عدلیہ اور آزاد میڈیا کی جدوجہد میں تحریک انصاف نے ہر اول دستے کا کردار
ادا کیا،اُس کا کہنا ہے تحریک انصاف کا بنیادی مقصد اِس ملک کو قائد اور
اقبال کے خوابوں کو تعبیر دینا ہے،اُن کا اصل ہدف ایک آزاد و خود مختار
پاکستان کا احیاء ہے،جس میں تمام اکائیوں کو برابری کی سطح پر حقوق حاصل
ہوں،آج 15 سال کی جدوجہد کے بعد تحریک انصاف پاکستانی عوام کی ایک توانا
آواز بن چکی ہے،اور کیوں نہ بنے کہ عمران خان کا دل پاکستان کے لئے دھڑکتا
ہے،اُس کا جینا مرنا پاکستان کے لئے ہے ۔
انہوں نے لندن کا گھر فروخت کر کے اسلام آباد پاکستان میں مستقل ڈیرہ ڈال
لیا تاکہ اپنی شناخت پاکستان کو پاکستان دشمنوں کے خلاف مضبوط مورچہ اور
مچان بنا ڈالے،اِسی وجہ ہے اُس نے تمام تر سیکورٹی رسک اور وراننگ کے
باوجود پشاور جیسے شہر میں امریکی ڈرون حملوں کی شکل میں ریاستی دہشت گردی
کے خلاف دو روزہ دھرنا دینے کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ کامیابی سے کر بھی
دکھایا،جبکہ عمران خان اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ پشاور اور کراچی میں دھرنوں
کے ذریعے ڈرون حملوں کو نہیں روکا جاسکتا،مگر پھر بھی اُسے امید ہے کہ یہ
دھرنے عوامی شعور کی بیداری اور امریکی ڈرون غنڈہ گردی کو ختم کرنے کی جانب
پہلا قدم ضرور ثابت ہوں گے ۔
وہ پاکستان کے شہروں میں خوف وہراس کی فضا ختم کرنا چاہتا تھا اور لوگوں کو
امید دینا چاہتا تھا کہ کوئی تو ہے جو ان کیساتھ بلٹ پروف گاڑی اور بلٹ
پروف جیکٹ کے بغیر تمام رات سڑک پر بیٹھنے کیلئے تیار ہے،وہ چاہتا ہے کہ
پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کے لیے منافقت اور مصالحت کی چادر اتار کر
پھینک دی جائے اور باعزت جینے کا راستہ اختیار کیا جائے،درحقیقت عمران خان
پاکستان پر ہونے والے ڈرون حملوں کے غم میں پاگل ہو چکا ہے،دیوانہ وار
پاکستان کو بچانے کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ کر سب کچھ کر گزرنے کو تیار
ہے،یہ وہی دیوانہ پن ہے جس نے پاکستان بنایا تھا،آج پاکستان بچانے کیلئے
ایک بار پھر اُسی جنون،جذبے اور دیوانے پن کی ضرورت ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ
کب قوم اس دیوانے کا ساتھ دے کر اِس کی ہمرکاب ہوتی ہے ۔ |