کراچی میں سوموار کے روز سعودی
سفارتکار 35 سالہ حسن ال قحطانی کو فائرنگ کر کے جاں بحق کردیا گیا۔ کیا یہ
قتل فرقہ واریت کو ایک بار پھر پورے زور و شور سے شروع کرنے کی کوئی مذموم
سازش ہے یا پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں مزید تنہا کرنے کی گھناﺅنی
کوششوں کا ایک اور حصہ؟ کچھ عرصہ قبل سے پاکستان کے طول و عرض، خصوصاً
کراچی میں سعودی عرب کے خلاف پراپیگنڈا زور پکڑ چکا ہے، کراچی کے در و
دیوار پر وال چاکنگ کی گئی جس میں سعودی حکومت اور آل سعود کے خلاف زہریلے
نعرے درج تھے، اسی وال چاکنگ کے رد عمل میں سنی مکتبہ فکر کی حامل کم و بیش
18 جماعتوں کی جانب سے مشترکہ طور پر”تحفظ حرمین شریفین“کے نام سے ریلیوں
اور جلسے جلوسوں کا بھی اہتمام کیا جاچکا ہے جس میں عوام اور ان جماعتوں کے
اکابرین و متفقین کی بڑی تعداد شریک ہوچکی ہے۔سعودی عرب جس کے ساتھ پاکستان
کے تمام مسلمان عوام ایک مذہبی اور تاریخی رشتے میں جڑے ہوئے ہیں، مکہ و
مدینہ تو مذہبی اہمیت کے حامل مراکز ہیں جہاں کی زیارت کسی بھی مسلمان کی
اولین خواہش ہوتی ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی
مدد کی ہے۔ جنگ ہو، سیلاب یا زلزلہ کی تباہ کاریاں ہوں یا امن کا دور ہو،
سعودی عرب سے ہمیشہ پاکستان میں ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ سعودی عرب کے خلاف وال
چاکنگ کرنے والے کون ہیں، کس کے ایماء پر یہ سب کچھ کیا جارہا ہے، کیا
مقاصد ہیں جن کے حصول کے لئے نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں پھنسے ہوئے
پاکستان کو فرقہ واریت کی آگ میں بھی جھونکا جارہا ہے، یقیناً وہ قوتیں جو
ایسے کام کررہی ہیں یا ان کی پشت پناہی میں مصروف ہیں، پاکستان سے محبت
نہیں کر رہیں بلکہ پاکستان سے دشمنی میں مشغول ہیں اور پاکستان کے دشمنوں
کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہیں۔
اس سے پہلے بھی پاکستان ایک ”پراکسی وار“ کا شکار رہ چکا ہے۔ لاہور میں
ایرانی سفیر صادق گنجی کا قتل ابھی لوگوں کو یقیناً یاد ہوگا اس قتل کی
کڑیاں ”را“ سے جا ملی تھیں، اس وقت بھی پاکستان پر سی آئی اے، را، موساد
اور خاد نے مشترکہ یلغار کر رکھی ہے اور کوئی دن نہیں جاتا جب وہ کوئی تازہ
واردات اور نئی کاروائی نہیں ڈال لیتے، سوئے اتفاق یہ کہ اب ہم حکومتی سطح
پر امریکہ، بھارت، اسرائیل اور افغانستان کو اپنا دشمن خیال ہی نہیں کرتے،
دوسری بات یہ کہ وطن عزیز میں دہشت گردی کی کوئی بھی کاروائی ہو تو ایک
جعلی تنظیم ”تحریک طالبان پاکستان“ سے اس کاروائی کو فوراً قبول کروا لیا
جاتا ہے، ہمارے مشہور عالم وزیر داخلہ بھی فوراً وہ کاروائی اسی جعلی تنظیم
کے کھاتے میں ڈال کر سکون سے بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ تنظیم جس کی بھرتیاں ریمنڈ
ڈیوس کرتا ہو، وہ تنظیم جو مسجدوں، امام بارگاہوں، عسکری دفاتر اور ایسی
جگہ پر ہونے والے بم دھماکوں کو قبول کرتی ہے جس جگہ یا صرف پاکستانی مرتے
ہیں یا پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، اس تنظیم کا کوئی بھی
تعلق مسلمانوں، اسلام یا پاکستان سے کیسے ہوسکتا ہے؟ سبھی جانتے ہیں کہ راء
والے پہلے بھی پاکستان میں فرقہ وارانہ جنگ و جدل کروا چکے ہیں اور اب جبکہ
وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان داخلی اور خارجی، دونوں محاذوں پر امریکی
”مہربانیوں“ اور اپنوں کی نااہلیوں کی وجہ سے قدرے کمزور پوزیشن میں ہے،
انہوں نے دوبارہ سے وہی حرکات شروع کردی ہیں۔ مجھے بہت قوی خدشات ہیں کہ
شائد اب ایسی ہی کسی کاروائی کی کوشش کسی ایرانی سفارتکار کے خلاف ہوگی،
تاکہ شیعہ اور سنی مکاتب فکر کو آپس میں باہم دست و گریباں کروایا جاسکے
اور ایران اور سعودی عرب کی ایک نئی ”پراکسی وار“ ایک مرتبہ پھر پاکستان
میں شروع کروائی جاسکے۔پہلے تو صرف ہندوستان کی ”را“ ہمارے پیچھے پڑی تھی
لیکن اب تو کم از کم چار ملکوں کی ایجنسیاں ہاتھ دھو کر نہ صرف وطن عزیز کا
سکون ملیا میٹ کرنا چاہتی ہیں بلکہ پاکستان کے حصے بخرے کرنے کے ناپاک
منصوبے لئے ہوئے ہیں۔
جو قوتیں پاکستان کو ایک مضبوط اور مستحکم ملک کے طور پر دیکھنا نہیں
چاہتیں وہ قوتیں یقیناً اور بھی وار کریں گی اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ
چین اور دوسرے اسلامی ممالک کے سفارتکاروں کے خلاف بھی ایسی بزدلانہ اور
گھناﺅنی کاروائیوں کی کوششیں کریں کیونکہ ہمارے جس طرح کے معاملات اس وقت
امریکہ کے ساتھ چل رہے ہیں اور جس طرح امریکہ اپنی من مانی اور ناجائز
خواہشات پاکستانی حکومت اور فوج سے پوری کروانا چاہتا ہے، یقیناً وہ من و
عن پوری نہیں ہوسکتیں اور اس کے نتیجہ میں پاکستانی تھنک ٹینک لامحالہ
اسلامی ملکوں اور چین سے مدد لینے کا سوچ رہے ہوں گے، چنانچہ پیش بندی کے
طور پر پاکستان مخالف قوتیں پہلے ہی ایسے حالات پیدا کردینا چاہتی ہیں کہ
پاکستان نہ تو اسلامی ملکوں کو اعتماد میں لے سکے یا ان سے مدد طلب کرسکے
اور نہ ہی چین سے۔ یہ وقت انتہائی سوچ بچار کر کے اپنی پالیسیاں ترتیب دینے
کا ہے، حکومتی سطح پر، عسکری سطح پر، مذہبی سطح پر اور عوامی سطح پر کسی
بھی ایسی بات سے پرہیز کرنا چاہئے جس سے کسی قسم کی شرانگیزی ہوتی ہو یا
دشمن کو اپنا وار کرنے کے لئے فضاء ہموار محسوس ہو۔ ہمارے دشمن چالاک بھی
ہیں، شاطر بھی، کمینے بھی اور پیسہ بھی ان کے پاس بہت ہے، وہ کافی حد تک
قوت خرید بھی رکھتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو ہر سطح پر غیر ملکی سفارتکاروں
(صرف امریکہ یا مغربی نہیں) کی مکمل اور فول پروف سکیورٹی کا انتظام و
اہتمام کرنا چاہئے۔ غیر ملکی سفیر پاکستان میں ہمارے مہمان بھی ہوتے ہیں
اور اگر یہاں سے اچھی یادیں لے کر جائیں گے تو وہ اپنے ملکوں میں پاکستان
کے سفیر کا کردار بھی ادا کرسکتے ہیں، دوسری اہم بات یہ کہ اس وقت ہم ہر
طرف سے اغیار کی سازشوں کی لپیٹ میں ہیں، ہر روز ایک نیا فتنہ و فساد ہمارا
منتظر ہوتا ہے اس لئے ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے، سعودی
سفارتکار کے قاتلوں کو فوری طور پر بے نقاب کرنے اور قانون کے آہنی ہاتھوں
سے کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ مذہبی جماعتوں کو بھی اپنا احتجاج
اس طریقہ سے ریکارڈ کروانا چاہئے جس سے کسی بھی مکتبہ فکر کو تکلیف نہ ہو،
کوئی مخالفانہ نعرے بازی نہیں ہونی چاہئے اور ”کافر کافر“ کے نعروں سے
اجتناب کرنا چاہئے، کیونکہ دشمن بھی یہی چاہتا ہے، جو دشمن چاہتا ہے وہ نہ
کیا جائے تو یقیناً وہ خود ہی ناکامی کا شکار ہوگا اور اس کی ناکامی ہماری
کامیابی کی دلیل بن جائے گی....! |