کرونا کا معاشی بحران اور ہماری معاشرتی ذمہ داریاں

 کرونا جیسے موذی مرض نے دنیا بھر میں تمام بنی نوع انسان کو نہ صرف ذہنی و جسمانی طور پر متاثر کیا ہے، بلکہ بڑے بڑے معاشیات و اقتصادیات کے مضبوط قلعوں میں بھی دراڑیں ڈال دی ہیں- اس وقت بڑی بڑی معاشی سپر پاورز اور ترقی یافتہ قومیں لاک ڈاو?ن اور تجارتی و کاروباری پابندیوں کے جھٹکوں کے سبب پیدا ہونے والے بحرانوں سے بلبلا اٹھی ہیں- اور اب تو ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشی اشاریے بڑی تیزی سے رو بہ زوال ہیں- جو دنیا کے پِسے ہوئے اور کمزور طبقات کے لئے خطرے کی ایک گھنٹی ہے- اس سلسلے میں ایک عالمی خیراتی ادارے آکسفیم نے بھی کچھ دن پہلے انکشاف کیا تھا کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے معاشی اثرات سے عالمی غربت میں تقریباً نصف ارب تک کا اضافہ ہو چکا ہے-
ایسے میں پہلے سے ہی ترقی پذیری کی لائن میں لگے ملکِ عزیز پاکستان کے لئے یہ صورت حال ایک بہت بڑا چیلنج ہے- ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 9 کروڑ لوگ اس وبا کے شروع ہونے سے پہلے ہی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھے- جب کہ کم از کم سوا کروڑ خاندانوں کو روٹی اور لباس کا مسئلہ درپیش تھا- 7کروڑ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں تھا، اور 8کروڑ لوگ علاج معالجے کو ابھی تک ترس رہے ہیں- جب کہ غربت کے انڈیکس پر پاکستان ہمیشہ سے ہی نچلی ترین سطح پر موجود رہا ہے- لیکن اب کرونا کے باعث اس نئی صورت حال نے بحیثیت قوم ہمیں ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے- ہماری وزارت خزانہ اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات کی وجہ سے تقریباً ایک کروڑ سے زائد افراد کی بیروزگاری کا عندیہ بھی دے چکے ہیں- جس کے نتائج مزید لاکھوں گھرانوں کے چولہے بجھ جانے کی صورت میں سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں- ایک بڑا سفید پوش طبقہ جو کرونائی بحران سے پہلے جیسے تیسے خودداری کے ساتھ وقت کے پہیے کو دھکا لگا رہا تھا....اب فاقوں کی دہلیز پر پہنچ چکا ہے- تقریباً ہم میں سے ہر کوئی اپنے آس پاس،گلی محلے اور علاقے میں ایسے سفید پوشوں کے حالات زندگی کا بغور مشاہدہ کر چکا ہے-

اگرچہ ہمارے ہاں معاشی و اقتصادی جھمیلوں کا یہ دکھڑا کوئی نئی بات نہیں، پاکستان بننے سے لے کر آج تک ہمارے کمزور اور پسے ہوئے طبقے کی کوکھ میں بالا دست طبقے کے معاشی اشاریوں اور ہندسوں میں لپٹی فسوں کاری کے سوا کچھ نہیں آیا، شاید یہی وجہ تھی کہ انہیں ہر بار، ہر کوئی ''روٹی کپڑا اور مکان'' کا چارہ ڈال کر اپنے اقتدار و اختیار کی ناؤ کے پتوار کے طور پر استعمال کرتا رہا- لیکن ایک مہذب اور باوقار قوم بننے کے لئے بحرحال ہمیں کبھی نہ کبھی تو ان المیات کے چنگل سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا ہی ہو گا، کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی موڑ پر ہمیں اس الجھی ہوئی داستان کا کوء نہ کوئی سرا پیر تو جوڑنا ہی پڑے گا - آخر کب تک ہم اپنی حکومتوں کی نالائقیوں، نااہلیوں اور سسٹم کی فرسودگی کا رونا رو رو کر سینہ کوبی کرتے رہیں گے- اور کب تک کسی مسیحا کے انتظار میں ڈوبنے والوں کی بے بسی پر گریہ و زاری کے فرائص سرانجام دیتے رہیں گے- ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے آخر ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں، جنہیں معاشی ابتری کے اس تلاطم خیز دور میں انفرادی و اجتماعی سطح پر سرانجام دے کر ہم اپنے تئیں حالات کا دھارا بدل سکتے ہیں-

جھوٹ، بے ایمانی، مکاری، ناجائز منافع خوری، گراں فروشی، ذخیرہ اندوزی، رشوت خوری، جعل سازی اور دھوکہ دہی اور درجنوں مزید ایسی سماجی بیماریاں ہیں جو بحیثیت معاشرہ ہمارے اجتماعی وجود میں رچ بس چکی ہیں- اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ ہماری سماجی ماحول کو متعفن اور زہر آلود کرتی جا رہی ہیں- چند ماہ پہلے اس وبائی دور کے آغاز سے لے کر آج تک ان متذکرہ بالا سماجی امراض کے انڈیکس میں ذرہ بھر فرق نہیں آیا، بلکہ لاک ڈاو?ن اور سماجی پابندیوں سے مستفید ہونے کا شاید ہی کوئی ایسا موقعہ ہو جس سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش نہ کی گئی ہو- شاید یہی وہ سماجی کوہڑ اور برائیاں ہیں جو کسی بھی معاشرے کی معاشی اور اقتصادی تباہی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں- اور جن کے سبب لاقانونیت، بے راہ روی، چوری، ڈکیتی، راہزنی سمیت طرح طرح کے چھوٹے بڑے جرائم وقوع پذیر ہوتے ہیں-

آج یقیناً ملکی سطح پر ہماری معیشت حالتِ نزع میں ہے، اور یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کی نالائقیوں اور نااہلیوں نے ہی اسے اس مقام پر پہنچایا ہے- لیکن بحیثیت ایک ذمہ دار شہری ہم اپنے طور پر بھی تو کچھ نہیں کر رہے، ہمارے ہاں بھی تو مثبت سوچ اور تعمیری رویوں کا فقدان ہے- کرونا جیسا یہ وبائی مرض یقیناً رب تعالیٰ کی طرف سے ایک آزمائش ہے، اور ہمیں اب اس آزمائش پر پورا اترنے کے لئے اب اپنا طرزِ عمل اور طرزِ معاشرت کو بدلنا ہو گا- انفرادی و اجتماعی ہر سطح پر ان سماجی برائیوں کے خلاف شعور بیدار کرنے کے لئے ہر ممکن کاوشیں کرنا ہوں گیں- آج کل تو ویسے بھی سوشل میڈیا کا دور ہے، اگر ہر گلی،محلے، علاقے کے لوگ اپنے اپنے علاقوں میں ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی، ناجائز منافع خوری، جعل سازی اور ان جیسے دوسرے بد عناصر کے خلاف باقاعدہ منظم مہم چلائیں تو ان معاشی جونکوں کا ممکنہ حد تک قلع قمع کیا جا سکتا ہے، جو نچلے اور غریب طبقے کا خون چوس چوس کر انہیں بھوک اور خودکشیوں سے مرنے پر مجبور کر رہی ہیں-

اس کے علاوہ ان حالات میں صاحب حیثیت اور اہلِ ثروت حضرات کا کردار بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے- اگرچہ ہمارے ہاں دردِ دل رکھنے والے فرشتہ صفتوں کی کمی نہیں، اور کئی نادیدہ ہاتھ تو ہر وقت اسی کام میں جتے رہتے ہیں- جب کہ کئی این جی اوز اور فلاحی تنظیمیں بھی دن رات ایک کیے ہوئے ہیں- لیکن ان کٹھن حالات میں جب کہ کئی خوددار اور سفید پوش فاقہ زدگیوں اور ہاتھ پھیلانے کی اذیتوں سے تنگ آ کر خودکشیوں پر آ چکے ہیں، تو یقیناً یہ غیر معمولی حالات ہیں- اور ان غیر معمولی حالات میں ان دینے والوں ہاتھوں کو بھی غیر معمولی طور پر حرکت میں رہنے کی ضرورت ہے- تا کہ کرونا سے بچ جانے والا کوئی خدانخواستہ بھوک سے نہ مر جائے-

بحیثیت مسلمان یہ چیز ہماری تعلیمات میں بھی شامل ہے کہ جب تک کوئی قوم خود اپنی حالت کے بدلنے کا نہیں سوچتی، اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کو بھی اس کی اس حالت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، اﷲ تعالیٰ نے اس حقیقت کو قرآن میں بالکل واضح فرما دیا ہے-

ترجمہ: بیشک اﷲ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اﷲ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اﷲ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا: (رعد:۱۱)

پس اگر آج ہم اپنے ملک کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی حالت کے بدلنے کی خواہش رکھتے ہیں تو یقیناً ہمیں پہلے آپ اپنی حالت کو بدلنا ہو گی- اور اپنے ماحول معاشرے اور ارد گرد کے سماج کو اپنی حالت بدلنے پر آمادہ کرنا ہو گا-
 
Tahir Ayub Janjua
About the Author: Tahir Ayub Janjua Read More Articles by Tahir Ayub Janjua: 22 Articles with 17560 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.