جانے والے تجھے روئے گا زمانہ برسوں

مرزا ارسلان بیگ
وہ میرا بیٹا بھی تھا ، دوست بھی تھا اور غمگسار بھی تھا

مرزا ارسلان بیگ سے میری کوئی رشتہ داری نہ تھی اورنہ ہی اس کے ساتھ میری بچپن کی دوستی تھی ۔ لیکن وہ پہلی ملاقات ( جومسجد اﷲ کی رحمت ) میں نماز کے دوران ہوئی تھی ۔تیزی سے دوستی ، چاہت اور محبت کے بے لوث رشتے میں تبدیل ہوتی چلی گئی ۔ پھر وہ وقت بھی آ پہنچا کہ نماز پڑھنے کے بعد ہماری ملاقات میں باقاعدگی آتی چلی گئی ۔مجھے توحید لیبارٹری سے اگر شوگر ٹیسٹ کروانی ہوتی تو میں ارسلان کو اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہتا اور وہ بخوشی نہ صرف میرے ساتھ چل پڑتا بلکہ بائیک کو ڈرائیو بھی وہی کرتا ۔ایک مرتبہ میری شوگر نارمل سے کچھ بڑھ گئی تو ارسلان بیٹا مجھ پر خفا ہوا کہ آپ احتیاط کیو ں نہیں کرتے بلکہ لمبا چوڑا لیکچر بھی جھاڑ دیا ۔میں نہایت خاموشی سے اس کی حکیمانہ باتیں سنتا رہا۔اس دوران ہی اس نے مجھے بتایا کہ وہ بی فارمیسی کا امتحان پاس کرچکا ہے اور ان دنوں ملازمت کی تلاش میں ہے ۔ میں نے از راہ مذاق کہا آپ کی تعلیم ابھی ایف اے ہے ، بہتر ہو گا اگر آپ گرایجویشن کرکے جاب کی تلاش کریں ۔اس نے بتایا کہ گھر کے معاشی حالات اچھے نہیں ہیں، میں اپنے والدین کا معاشی طور پر ہاتھ بٹانا چاہتا ہوں ۔گھر کرایے پر ہے ، ایک بہن کی شادی بھی کرنی ہے جبکہ چھوٹے بھائی ،جو حافظ، قاری اور عالم بھی ہیں ان کی تعلیمی اخراجات کا بوجھ بھی اٹھا نا ہے اگر مجھے کہیں اچھی ملازمت مل جائے تو میں ساتھ ساتھ پڑھتا بھی رہوں گا۔

گزشتہ چند سالوں سے اﷲ نے مجھے یہ توفیق عطا کر رکھی ہے کہ بطور خاص ماہ رمضان میں ہرروز نماز عصر سے پہلے افطاری کے لیے کھجوروں کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ بنا کر نمازیوں میں بانٹتا ہوں ۔ ماہ رمضان میں کھجوروں کی تقسیم ارسلان بیٹے کو میری ذات کے اور قریب لے آئی۔وہ خوش شکل بھی تھا، بااخلاق بھی اور ملنسار بھی تھا ۔ اسے بڑوں سے بات کرنے کا ہنر بھی خوب آتا تھا اور شائستہ گفتگو کے ذریعے کسی کے دل میں اترنے کا فن بھی وہ خو ب جانتا تھا ۔میں خود بھی حیران تھا کہ وہ مجھ سے کچھ زیادہ ہی مانوس ہوتا جارہاہے ۔ مجھے اپنے بیٹوں پر اتنا ناز نہیں تھا جتنا میں اس پر بھروسہ کرنے لگا تھا ۔ دراصل میرا ایک بیٹا روشن پیکجز آڈٹ آفیسر ہے اور دوسرا بنک آف پنجاب میں ۔دونوں صبح گھر سے نکلتے ہیں اور شام ڈھلے گھر واپس آتے ہیں ۔ اس لیے چاہنے کے باوجود کہیں آنے جانے کے لیے وہ میری کوئی مدد نہیں کرسکتے ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ بنک آ ف پنجاب سے ریٹائرمنٹ کے بعد دو وجوہات کی بنا پر میری صحت مسلسل گر رہی ہے ؟ پندرہ سال پہلے مجھے قوت سماعت کی کمی نے آگھیرا۔حالات سے سمجھوتہ کرکے ہی زندگی کو گزارنا پڑرہا ہے جبکہ دوسری خرابی میرے ایک گھٹنے کا آپریشن اور دوسرے گھٹنے میں شدید درد چلنے پھرنے میں دقت دیتاہے ۔ان دو وجوہات کی بنا پر میں اکیلا کہیں آنے جانے اور کسی سے بات کرنے میں خاصی دقت محسوس کرتا ہوں ۔مجھے ایک ایسے ساتھی اور دوست کی ہر لمحے ضرورت تھی جو میرا ہم مزاج اورہم ذہن بھی ہو ۔ گفتگو کرنے کا سلیقہ بھی رکھتا ہو ۔مرزا ارسلان بیگ کی شکل میں اﷲ تعالی نے بیٹوں جیسا ایک سلجھا ہوا دوست عطا کردیا جس پر میں پروردگار کا سپاس گزار بھی تھا اور تہجد کی نماز کے بعد قاری منیب صاحب اور ارسلان بیٹے کے لیے ضرور دعا کرتا۔

مرزا ارسلان بیگ حصول ملازمت کے لیے جستجو کررہا تھا ۔ ایک دن میں اسے اپنے ساتھ لے کر نوائے وقت کے آفس جا پہنچا ۔جہاں میں عرصہ بارہ سال سے میں کالم لکھتا چلا آرہا ہوں ۔ وہاں ارسلان کو جنرل منیجر مارکیٹنگ بلال محمود سے ملوایا اور ان سے ملازمت کی درخواست کی ۔انہوں نے کہا میں کوشش کروں گا کہ اس نوجوان کو ملازمت کی کوئی صورت بن جائے ۔ یہ سب کچھ ارسلان بیٹے کے سامنے ہوا ۔ وہ بہت خوش تھا کہ ہو سکتا ہے جاب مل ہی جائے ۔ یہاں سے میں ہفت روزہ مارگلہ نیوز کے دفتر جا پہنچا ۔تاکہ مارگلہ نیوز کے ایڈیٹر شہزاد چوہدری ، جو میرے دیرینہ دوست ہیں ، ان سے ارسلان بیٹے کی ملازمت کی درخواست کروں ۔مصروفیت کی وجہ سے ان سے ملاقات نہ ہوسکی لیکن ارسلان بیٹے کا CVان کی میز پر رکھ آیا ۔

یہ بات میری خامیوں میں شامل ہے کہ میں زندگی کا بڑا حصہ گزارنے کے باوجود قرآن پاک نہیں پڑھ سکا ۔ایک دن میں نے اس بات کا ذکر ارسلان سے کیا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں قبر میں اترنے سے پہلے قرآن پاک پڑھ لوں ۔ لیکن قرآن پڑھنے کے دوران ایک رکاوٹ "ہیرنگ پرابلم " حائل ہے ۔ سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کیا کروں ۔میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ارسلان نے کہا آپ فکر نہ کریں میرا چھوٹا بھائی حافظ قرآن ، قاری اور عالم دین بھی ہے ۔ میں اس سے بات کرتا ہوں ۔ پھر ایک دن نماز ظہر کے بعد ہم تینوں مسجد اﷲ کی رحمت میں اکٹھے ہوئے اور قرآن پاک پڑھنے کے حوالے سے گفتگو شروع ہوئی ۔مجھے اس بات پر خوشی ہوئی کہ قرآن پاک پڑھنے کا جتنا اشتیاق مجھے تھا اس سے دوگنا قرآن پاک پڑھانے کا شوق قاری محمد منیب صاحب کوہے۔چنانچہ یہ فیصلہ ہوا کہ آج ہی یعنی 2اکتوبر2019ء کو قرآن پڑھنا شروع کردیا جائے ۔میں سمجھتا ہوں اگر مرزا ارسلان بیگ سے میری دوستی نہ ہوتی تو قرآن پاک پڑھنے کا آغاز کبھی نہ ہوسکتا۔ارسلان بیٹے کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھول سکتا۔مجھے یہ کہنے میں عار محسوس نہیں ہوتی وہ جتنا خوبصورت تھا اتنا ہی خوب سیرت بھی تھا،اس کی گفتگو ہمیشہ شائستگی کے دائرہ میں رہتی ۔یہ ارسلان بیٹے اور قاری منیب صاحب کی محنت کا نتیجہ ہے کہ میں 19سپارے پڑھ چکا ہوں اور اب 20ویں سپارے پر ہوں ۔میری اولین خواہش ہے کہ میں جب قبر میں اتروں تو قرآن پاک پڑھنے کا سلیقہ مجھے آتا ہو ۔میں اکثر تہجد کی نماز کے دوران یہ دعا مانگتا ہوں ۔اے اﷲ جس طرح تو اپنے نیک بندوں کو قبروں میں قرآن اور نماز پڑھنے کی توفیق دیتا ہے اسی طرح مجھے بھی یہ دولت عطا کر ۔رب سے جب میری ملاقات ہوتو میرا رب یہ نہ کہے کہ تم دنیا میں 66سال گزار آئے ہو لیکن تم نے میری کتاب "قرآن پاک " بھی پڑھنا نہیں سیکھی ۔

بہرکیف ایک دن جب نماز کے بعد ارسلان بیٹے سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا اگر تمہیں کسی اخبار یا ادارے میں مارکیٹنگ کی جاب مل گئی تو آپ کے پاس بائیک چلانے کا ڈرئیونگ لائسنس ہونا چاہیئے ۔ارسلان نے کہا انکل جی ۔میرے پاس لائسنس نہیں ہے، میں نے کہا تو دیر کس بات کی ہے ۔ارفع کریم ٹاور میں لائسنسنگ اتھارٹی کا دفتر موجود ہے ،آپ پہلے لرنر بنوا لیں پھر میں آپ کا پکا لائسنس بنوا دوں گا ۔کچھ دنوں کے بعد مجھے بتایا گیا کہ ارسلان نے لرنر لائسنس بنوا لیا ہے ۔چھ ہفتے بعد میں نے اسے ٹریفک لائسنسنگ اتھارٹی کے پاس اپنا وزٹنگ کارڈ دے کر بھیجا اور بتایا کہ وہاں کا انسپکٹرمیرا دوست ہے ، وہ آسانی سے آپ کا لائسنس بنوا دے گا۔اسی دن اتفاق سے میں اپنے کلاس فیلومحمد اسلم آرائیں کے ساتھ گاڑی میں قوت سماعت کے چیک اپ کے لیے فیصل ٹاؤن گیا ہوا تھا ۔جب ہم وہاں سے واپس رہے تھے تو ارسلان کی موبائل پر کال موصول ہوئی کہ ارفع کریم ٹاور والے مجھے گیٹ کے اندر نہیں جانے دے رہے ۔میں نے پوچھا تم اس وقت کہاں پر ہو ۔اس نے بتایا میں مین گیٹ کے پاس ہی کھڑا ہوں ۔ میں نے کہا تم یہیں رکو۔ میں آپ کے پاس آرہا ہوں ۔جب میں وہاں پہنچا تو ارسلان مجھے دیکھ کے کچھ اس طرح مسکرایا جیسے کوئی اپنا ، اپنے کو دیکھ کے خوش ہوتا ہے ۔ میں اسے اپنے ساتھ لے کر گیٹ میں داخل ہوا اور سیدھا ٹریفک لائسنسنگ اتھارٹی کے آفس جا پہنچا۔اس لمحے ٹریفک انسپکٹر مدثر صدیق کار لائسنس بنوانے والوں کے ٹیسٹ لے رہے تھے ، جب انسپکٹر کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ سب کچھ چھوڑ کر میری طرف لپکے اور میرے آنے کی وجہ پوچھی ۔میں نے ارسلان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا یہ میرا ہی بیٹا ہے اس کا بائیک کا پکا لائسنس بنوانا ہے ۔پھرہم آفس میں جا بیٹھے ۔ ایک اہلکا ر ارسلان کا لائسنس بنا نے میں مصروف ہو گیا تو دوسرا سب انسپکٹر ہمارے لیے چائے اور کیک وغیرہ لینے چلا گیا۔جتنی دیر میں ارسلان کا لائسنس بنا اتنی ہی دیر میں چائے ، بسکٹ اور کیک بھی آگئے ۔ جب ارسلان سمیت ہم سب کیک کھا اور چائے پی رہے تھے تو ارسلان بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔ بلکہ ہم سب نے خوب انجوائے کیا ۔

ایک دن میں نے دیکھا کہ ارسلان بائیک چلا رہا ہے اور ان کے پیچھے قاری منیب صاحب جھاڑو اور مٹی اٹھانے والا تسلہ پکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ارسلان نے مجھے سلام کیا تو میں نے اسے رکنے کا اشارہ کیا ۔وہ رک گیا میں نے کہا ارسلان بیٹا میرے استا د قاری منیب صاحب کو آپ نے جھاڑو پکڑا رکھا ہے اور خود مزے سے ڈرائیونگ کررہے ہیں۔میں نے کہاجس کے سینے میں قرآن پاک محفوط ہے وہ بھائی چھوٹا ہو یا بڑا ۔ان کا احترام لازم ہے ۔برا ماننے کی بجائے ارسلان نے جھاڑو اور تسلہ خود پکڑا اور قاری منیب صاحب نے ڈرائیونگ سنبھال لی ۔میں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو آپ ۔ اس نے بتایا ہمارا ایک بھائی فوت ہوگیا تھا اس کی قبر کو ٹھیک کرنے اور فاتحہ کہنے جا رہے ہیں ۔

ایک صبح ارسلان کی کال ملی وہ ایمپریس روڈ پر کسی دفتر کے باہر لمبی قطار میں جاب کی تلاش میں کھڑا تھا ، مجھے اس نے کہا انکل جی میں تو صبح چھ بجے کا یہاں کھڑا کھڑا تھک گیا ہوں کیا آپ کا یہاں کوئی واقف ہے ؟ میں معذرت کرتے ہوئے کہا ۔میرا یہاں کوئی واقف نہیں ۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ کورونا وائرس کی یلغار سے پہلے میں ہر جمعرات کی دوپہر ، سیون سٹریٹ کے سامنے بیٹھے ہوئے مزوروں میں کھانا تقسیم کر نے جاتا تھا ۔ اکثر اوقات ارسلان ہی میرے ساتھ ہوتا ۔وہ میرے اس عمل پر بہت خوش تھا ۔

کسی نے کیا خوب کہاہے کہ دنیا میں آنے کی ترتیب ہے ،واپس جانے کی نہیں۔دنیا میں پہلے دادا آتا ہے ، پھر باپ اس کے بعد پوتا جنم لیتا ہے ۔ ابھی کل کی بات لگتی ہے جب مجھے مرزا ارسلان بیگ نے موبائل پر مسیج کرکے بتایا کہ ملتان میں دادا جان فوت ہوگئے ہیں ۔میں نے پوچھا تو کیا آپ ملتان جا رہے ہیں ، ارسلان نے بتایا انکل جی نہیں ۔ ہم تو بہاولپور پہنچنے والے ہیں ۔میں نے پوچھا دادا تو آپ کے ملتان میں تھے پھر آپ بہاولپور کیوں جا رہے ہیں ۔ اس نے بتایا کہ مرنے سے پہلے دادا جان نے بہاولپور دفن ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا ۔ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے دادا جان کی تدفین کا انتظام بہاولپور میں کیا جا رہا ہے ، میں نے پوچھا کیا وہاں بھی آپ کا کوئی رشتے دار رہتا ہے تو ارسلان نے جواب دیا جی میرے سگے چچا بہاولپور میں رہتے ہیں ۔ارسلان جب تک لاہور واپس نہیں پہنچ گیا وہ مسلسل میرے رابطے میں رہا ۔

اس میں شک نہیں کہ میں اسے اپنے بیٹوں کی طرح ہی چاہتا تھا ، وہ بھی اپنے باپ کی طرح میری عزت کرتا تھا ۔میں نے جب بھی اس کو اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا اس نے انکار نہیں کیا بلکہ اس نے مجھے سہارا دینے میں بھی کو ئی عار محسوس نہیں کی ۔مسجد میں نماز کے بعد اس وقت تک وہ باہر نہ نکلتا جب تک میں نماز سے فارغ ہو کر اشارے سے اسے باہر چلنے کو نہ کہتا ۔ایک دن میرے جسم میں شدید درد تھا ۔ ارسلان سے پوچھا تم نے بھی بی فارمیسی کی ہوئی ہے ، کسی ایسی ٹیبلٹ کا نام بتاؤ جس سے میرا جسم درد ٹھیک ہو جایا کرے ۔اس نے بتایا انکل جی آپ Nims کی ایک گولی بوقت ضرورت کھا لیا کریں ۔جب بھی شام ڈھلے میرے جسم میں شدید درد ہوتا ہے تو میں Nims گولی کھا لیتا ہوں جس سے مجھے افاقہ ہو جاتا ہے ۔

اکثر اوقات ارسلان کا مسیج موبائل پر موصول ہوتا ۔ گھر میں اہم مہمان آئے ہوئے ہیں اس لیے قاری صاحب پڑھانے نہیں آسکتے ۔ایک دن میں نے قاری صاحب سے پوچھ ہی لیا کہ مہمان کہاں سے آئے تھے ۔وہ چونکہ جھوٹ نہیں بولتے اس لیے انہوں نے صاف بتا دیا کہ گڑھی شاہووالی بہن آئی تھی ۔جب وہ گھر میں آتی ہے تو ہم میں سے کوئی بھی گھر سے باہر نہیں نکلتا ۔ہم زیادہ سے زیادہ وقت اپنی بہن کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں ۔

18جولائی 2020ء کی صبح مجھے ملک ریاض کے توسط سے یہ منحوس خبر سننے کو ملی کہ آپ کا دوست ارسلان فوت ہوگیا ہے ۔میسنجرپر ارسلان کی تصویر دیکھتے ہی میں زار وقطار رو پڑا ۔ یا اﷲ رحم .......مجھے یاد ہے جمعہ کی دوپہر جب قاری منیب صاحب مجھ سے قرآن پاک پڑھنے آئے تو میں نے حسب معمول ارسلان کے بارے میں پوچھا ۔قاری صاحب نے بتایا اسے بخار ہے ۔وہ نڈھال ہو کر گھر میں لیٹا ہوا ۔اسی وجہ سے وہ جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھنے آیا ۔ میری نگاہیں اسے تلاش ہی کرتی رہیں۔کپڑے تبدیل کرکے میں ان کے گھرپہنچا تو دور ہی سے لوگوں کا ہجوم دکھائی دیا میں سمجھ گیا کہ میرا جان سے بھی پیارا دوست جسے میں اپنا تیسرا بیٹا سمجھتا تھا ، وہ حقیقت میں ہم سے روٹھ کر اس دنیا میں جا بسا ہے جہاں سے کو ئی واپس نہیں آتا ۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون
بقول شاعر ؔ
حشرتک ان سے ملاقات نہ ہو گی اب تو
رہ گئی دل میں جو بات ،وہ نہ ہو گی اب تو
لو تیری یاد کی سینے میں رہے گی لیکن
ختم تنہائی کی یہ رات ، نہ ہو گی اب تو

(3)
زندگی اپنی خوش اوقات تھی تیرے دم سے
زندگی ایسی خوش اوقات نہ ہوگی اب تو
یوں تری یاد میں اشکوں کی لگی ہیں جھڑیاں
ایسی ساون میں بھی برسات نہ ہو گی اب تو
موت کی مات نے کھولا ہے در خلد ارسلان
پھر کبھی ایسی تجھے مات نہ ہو گی اب تو
سب کے دل ہاتھ میں لینے کا سلیقہ تھا تجھے
اہل دل کی یہ مدارت نہ ہوگی اب تو
اپنے بیگانے سبھی تیری توجہ میں رہے
یہ میسر انہیں سوغات نہ ہو گی اب تو
کتنے پاکیزہ عزائم ترے ہمدوش رہے
تجھ سے جو بات تھی وہ بات نہ ہو گی اب تو
سرکیئے معرکہ اخلاص ویقین سے تونے
تجھ سے ایسی کرامات نہ ہوگی اب تو
دل کے اس خوف کا چارہ کوئی اے رب کریم
ختم یہ گردش حالات نہ ہوگی اب تو

 

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 781 Articles with 652849 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.