معلومات کا سونامی

ایک دور تھا جب معلومات کے ذرائع بہت محدود تھے اور دنیا بھر میں کیا ہورہا ہے اس سے عوام کی اکثریت نا بلد رہتی تھی۔ حصول علم کے مواقع بھی کم اور اکثریت کی دسترس سے باہر تھے۔سب سے پہلے اخبارات اور ریڈیو کے آنے سے اطلاعات اور معلومات کا دروزہ کھلا ۔ ریڈیو کی ایجاد نے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہزاروں میل دور کوئی انسان بول رہا ہے جسے گھر بیٹھے سنا جاسکتا ہے۔ اب بھی بہت سے لوگ موجود ہوں گے جو اپنے بچپن میں ریڈیو کے حوالے سے دلچسپ واقعات کے عینی شاہد ہوں گے۔ اخبارات کی بھی صورت حال کچھ ایسی ہی تھی۔ ہر روز صبح لوگ تازہ خبروں، کالموں اور دیگر تحریروں کو پڑھنے کے لئے بے تاب ہوتے تھے۔ چائے خانوں ، حجاموں اور دیگر دوکانوں پر لوگ اخبار پڑھنے کے لئے اپنی باری کے منتظر ہوتے تھے۔ بس اور ریل میں سفر کرتے کرتے ہوئے اگر کوئی اخبار خرید کر پڑھنا شروع کرتا تھا تو ساتھ بیٹھے مسافر اخبار کے دوسرے صفحات پڑھنے کے لئے مانگ لیتے تھے اور اختتام سفر پر اخبار کئی ہاتھوں میں ہوتا تھا۔ ٹیلی وژن کی آمد اور بھی حیرت کا باعث تھی۔ ایک چھوٹے سے بند ڈبے میں انسانوں کو باتیں کرتے ہوئے دیکھ لوگ متحیر ہوجاتے تھے ۔ اس دور میں ٹیلی وژن بہت کم گھروں میں ہوتے تھے اور پورے محلے کے بچے اور بڑے پروگرام دیکھنے کے لئے اُس گھر میں جمع ہوجاتے تھے جہاں ٹی وی سیٹ ہوتا تھا۔ ٹیلی وژن کی نشریات چونکہ چوبیس گھنٹے نہیں ہوتی تھیں اس لئے لوگ منتظر ہوتے تھے کہ کب نشریات کاآغاز ہو ا۔
 
لیکن اب سب کچھ بدل گیا ہے اور اتنی جلدی بدلا ہے کہ عقل محو حیرت ہے۔یہ باتیں آج کی نوجوان نسل کے لئے عجیب ہوں گی لیکن ستر کی دہائی میں پیدا ہونے والوں نے یہ سب اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا ہے۔ گذشتہ تین دہائیوں میں ذرائع ابلاغ نے ہوشربا ترقی کی ہے۔ سوشل میڈیا نے اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی وژن کی اہمیت کردی ہے۔ اب لوگوں تک خبریں سوشل میڈیا کے ذریعہ ٹیلی وژن اور اخبارات سے پہلے پہنچتی ہیں اس لئے اب کسی کو اخبار یا رات کے خبرنامہ کا انتظار نہیں ہوتا۔ دور حاضر میں روایتی میڈیا کے لئے سوشل میڈیا بہت بڑا چیلنج ہے۔ اخبارات کی اشاعت میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور بہت سے روزنامہ، ، ہفت روزہ اور ماہنامہ جرائد اب ماضی کی داستان ہیں۔ ٹیلی وژن کو یوٹیوب، فیس بک، اور واٹس اپ نے پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ جو رپورٹ ٹیلی وژن میں گھنٹوں اور بعض اوقات دنوں بعد نشر ہوتی تھی ، وہ ان چند منٹوں بعد سوشل میڈیا کے ذریعہ وائرل ہوچکی ہوتی ہے۔ صحافیوں اورٹیلی وژن کے پروگراموں کے میزبانوں نے اپنے اپنے یوٹیوب چینل اور سوشل میڈیا پیج بنا لئے ہیں اور لوگ انہیں پذیرائی دیتے ہیں۔انٹر نیٹ اور آن لائن سہولت کی وجہ سے کتابوں کی اشاعت بھی کم ہورہی ہے ۔ لوگوں کو اب لائبریری یا کتابوں کی دوکان پر جانے کی ضرورت نہیں، جس کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے، اس کی ہتھیلی میں ، دنیا جہاں کی معلومات کا سونامی ہے۔یہ اس قدر معلومات ہیں کہ کسی کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ انہیں سرسری بھی دیکھ سکے۔ اتنی زیادہ معلومات سے کوئی کیسے عہدہ براہ ہو؟ اس کا بہت خوبصورت حل، ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے صدر اور جواہر لال نہرو یونیوسٹی میں اردو کے پروفیسر ڈاکٹر اکرام الدین خواجہ نے یہ بتایا کہ جب آپ مٹھائی یا کپڑے کی دوکان پر جاتے ہیں تو وہاں انواع و اقسام کی چیزیں موجود ہوتی ہیں لیکن آپ صرف انہی کو خریدتے ہیں جو آپ کو پسند ہوں، دلچسپی رکھتے ہوں یا جن کی ضرورت ہو۔ یہی معاملہ دور حاضر میں معلومات کی بہتات کا ہے، آپ وہی کچھ پڑھیں گے یا دیکھیں جن سے آپ کی دلچسپی ہے اور ظاہر ہے باقی سب کو چھوڑ دیں گے۔

سوشل میڈیا کے جہاں بہت سے فائدے ہیں ، وہاں بہت سی خرابیاں بھی ہیں۔ روایتی میڈیا میں پھر بھی چھان بین اور ذمہ داری ہوتی ہے لیکن سوشل میڈیا شتر بے مہار ہے۔ ہر شخص صحافی، اینکر، دانشور اور تجزیہ نگار بنا ہوا ہے۔ جو چاہے اور جیسے چاہیں، غلط اور جھوٹ جیسے چاہیں پھیلاتے رہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ علمی چوری ، چربہ اور کاپی پیسٹ جیسے حربے اختیار کئے جارہے ہیں۔ایک شخص بڑی محنت سے کوئی کالم، خبریا تحریر لکھتا ہے تو نقال فوری طور پر اپنے نام سے وہی تحریر بڑی ڈھٹائی سے شائع کردیتے ہیں۔ ویڈیو کا بھی یہی معاملہ ، نقلچو یہاں بھی چربہ سازی سے باز نہیں آتے۔اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ اگر کسی کو ئی تحریر ، خبر، ویڈیو یا پوسٹ پسند ہے تو اسے لکھنے یا بنانے والے کے نام کا حوالہ دے کر دوسروں تک پہنچائیں۔ بہت لوگ غیرمصدقہ اور سطحی قسم کی معلومات پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ حماد بن خلیفہ یونیورسٹی دوہا ، قطر میں محقق ڈاکٹر محمد شہباز کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا سے معلومات Information تو پھیل رہی ہیں لیکن علم Knowledge کو فروغ نہیں ہورہا۔ آپ کوئی تحریر یا ویڈیوو اٹس اپ، فیس بک ی، ٹوئیٹریا کسی اور جگہ لگائیں، لوگ بغیر پڑھے اور دیکھے فوری طور پر لائیک اور کمنٹ شروع کردیتے ہیں۔ انہیں یہ بالکل علم ہی نہی ہوتا کہ اس میں کیا کہا گیا ہے ، وہ صر ف پوسٹ لاگنے والے کو خوش کرنے کی غرض سے کرتے ہیں۔ ڈنمارک میں مقیم اردو کے ادیب، شاعر اور محقق جناب نصر ملک کے بقول لوگ اپنا انگوٹھا لگاتے جاتے ہیں۔ اگر پطرس بخاری کی ’’میبل‘‘ اس دور میں ہوتی تو وہ حیرت ذدہ ہوجاتی اور اسے شرمندہ ہونے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی۔ ان تمام خرابیوں کے باوجود سوشل میڈٖیا ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن چکا ہے اور کووڈ۱۹ میں جہاں جہاں لاک ڈاون ہوا یہی سب سے برا سہارا رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر متعلقہ اور ضیر مصدقہ اطلاعات کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اخبارات اور روایتی میڈیا کی اپنی اہمیت ہے اور ان کے ساتھ تعلق قائم رکھا جائے۔ بچوں کا سوشل میڈیا پر وقت محدود ہونا چاہیے اور ان کا تعلق کتابوں سے جڑا رہنا بہت ضروری ہے۔ انہیں اپنی نصابی کتب کے علاوہ بھی دیگر کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ معلومات اور علم کے جدید ذرائع اپنی جگہ پر لیکن روایتی ذرائع کی اہمیت بھی پیش نظر رہنی چاہیے۔
 

Arif Kisana
About the Author: Arif Kisana Read More Articles by Arif Kisana: 276 Articles with 264454 views Blogger Express Group and Dawn Group of newspapers Pakistan
Columnist and writer
Organiser of Stockholm Study Circle www.ssc.n.nu
Member Foreign Pr
.. View More