کراچی میں آج کی موصلا دھار بارش----- ارے جناب ذرا توقف فرمائیں میں بلدیاتی مسائل کا رونا ہر گز نہیں رونے والا یہاں کے بلدیاتی مسائل پر توبڑے بڑے طرم خان کے کہنے سے فرق نہیں پڑا اس نقار خانے میں مجھ طوطی کی کون سنتا ہے اور خواہ مخواہ کی توانائی کے فضول میں ضائع کرنے کا میں ہر گز قائل نہیں ہوں، اب تکرار معنویت پر مت جائیے گا جذبات بھی کسی چڑیا کا نام ہے، خیر بات چل رہی تھی آج کی بارش کی، اتنی زبردست بارش ہو اور برسات کے پکوان نہ ہوں کراچی میں تو سوچنا ہی گناہ ہے یہاں تو بوندا باندی میں ہی پکوڑے سموسے والوں کی موج ہو جاتی ہے کجا کہ اتنی شدید بارش، لیکن مسئلہ یہ بھی نہیں ہے، مسئلہ دراصل واٹس ایپ ہے، اب اپ کہیں گے کہ واٹس ایپ اور بارش کا کیا تعلق؟ تو جناب جواب عرض ہے کہ واٹس ایپ اور علاج بالشفاء کا کیا تعلق ہے، جب کے روز اپ کے واٹس ایپ پر کینسر سے لے کر انتہائی پوشیدہ امراض ( کچھ فحش ہو گیا) کا مجرب علاج دستیاب نہیں ہوتا، یار آپ لوگ بار بار موضوع سے ہٹ جاتے ہیں تو بات چل رہی تھی برسات کے پکوانوں کے واٹس ایپ ایڈیشن پر، اب پھر آپ نا سمجھ بن جائیں گے کہ یہ پکوانوں کا واٹس ایپ ایڈیشن کیا ہوتا ہے، تو بھائی فلٹرز صرف بوتھی ( چہرہ) سنوارنے کے کام ہی نہیں آتے اس مد میں بھی کراچی والوں کی فنکاری اپنی مثال آپ ہے تو جب واٹس ایپ پر دھڑا دھڑ لوگوں نے اپنے اپنے پکوانوں کی فلٹر تصاویر پوسٹ کرنا شروع کیں تو پہلے ہلے میں تو منہ میں پانی بھر آیا ، اور پھر جوشِ غیریت میں ہمارے اندر یہ ولولہ جاگا کہ ہمیں بھی اس میدان میں اترنا چاہیے، ایک کووڈ فائٹر کے شوہرِ نامدار کی حیثیت سے ہم یہ جانتے تھے ہماری بیگم صاحبہ آج اتوار کے دن بھی فرائضِ منصبی کی ادائگی میں مصروف ہیں تو ہم نے یہ تہیہ کیا کہ آج ان کو اپنے ہاتھ سے بنائے گئے پکوڑوں اور میٹھی ٹکیاں سے مرعوب کریں، اب مسئلہ یہ تھا کہ بناء لائٹ کے یہ کار مشکل کیا کیسے جائے کیونکہ کراچی کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہماری ہر دلعزیز الیکٹرک سپلائی کی کمپنی اور گیس سپلائی کی کارپوریشن یک جان و دو قالب ہیں لائٹ اور گیس باہم ندارد ہوتی ہیں، خیر ہم نے رسک لے کر جنریٹر پر الیکٹرک چولہا چلایا (سلمان بھئی نوازش) اور جیسے تیسے ٹکیان اور پکوڑے بنا ہے لئے اور واٹس ایپ پر بناء فلٹر مارے فخر کے ساتھ پوسٹ بھی کر دئے، بس یہ ہی ہماری سب سے بڑی غلطی تھی جو کہ ٹیکنالوجی کا درست استعمال جانتے ہوئے بھی جذبات کے غلبے میں ہوئی اب جو لوگوں نے کمنٹس کرنا شروع کئے تو دل کیا کہ گلیاں ہو جان سونیاں تے وچ مرزا یار پھرے، کسی نے کہا کہ اتنی بد ہئیت مخلوق دکھا کر آپ ڈرانا چاہ رہیں ہیں، کسی نے انہیں قرب قیامت کی نشانیوں یاجوج ماجوج سے تشبیہ دی۔ مگر جناب ڈھٹائی میں ہم بھی اپنی مثال آپ ہیں اور ہم نے بھی ایک نئی اختراع متعارف کروا دی ہم نے انتہائی ڈھیٹ بن کر کہا کہ وہ پکوڑے چونکہ خواتین کے ہاتھوں سے بنے تھے اس لئے وہ ان کی مانند حسین تھے یہ چعنکہ مردانہ پکوڑے تھے اس لئے ان کی طرح کھردرے اور زیادہ تر شادی شدہ افراد کی طرح ادھر ادھر پھیلے ہوئے تھے خیر اس جواب سے لوگوں کی تشفی ہوئی یا نہ ہوئی ڈراپ سین یہ نہیں ہے، ہماری اہلیہ محترمہ جب ہسپتال سے واپس آئیں تو ہم نے بے حد چاؤ سے یہ مردانہ پکوڑے انکے سامنے پیش کئے اور انہوں نے بہت تعریفوں کے ساتھ انہیں نوش فرمایا اور ہم سینہ پھلا کر اپنی ہی پیٹھ ٹھونکنے والے تھے کہ ہماری بیگم صاحبہ نے کچھ دیر میں آنے کا کہ کر اس نشست سے معذرت چاہی تو ہم نے بھی سوچا کہ اب ہم بھی اپنے اس شاہکار کو چکھ ہی لیں اور ایک مردانہ پکوڑا منہ میں ڈال لیا، یقین کرین کہ اس سے برا ذائقہ اپنی زندگی میں کبھی میری زبان نے محسوس نہیں کیا ایسا لگ رہا تھا کے گندھی ہوئی لئی منہ میں آ گئی ہے، اسی اثناء میں بیگم صاحبہ بھی واپس آ گئیں اور ہمیں بھی پتہ چل گیا کہ وہ کیوں بیچ میں سے اٹھ کے گئیں تھیں ہم ہونقوں کی مانند ان کی جانب دیکھ رہے تھے اور وہ مسکرا کر ہمیں دیکھ رہی تھیں ہم نے کہا کہ جنا اس قدر بد ذائقہ چیز پر آپ تعریف کئے جا رہیں تھیں لیکن انہوں نے جو جواب دیا یہ ان کا ہی خا صہ ہے انہہوں نے ایک ادائے دلبرانہ سے جواب دیا کہ وہ تعریف ان مردانہ پکوڑون کی نہیں میرے لئے محنت کر کہ انہیں بنانے والے کے لئے تھی اور ہم دونوں کھلکھلا کر ہنس دئے۔
|