کسی بھی مملکت میں آزادنہ شفاف انتخابات ، عوام کی جانب
سے شفاف اظہار رائے کا استعارہ کہلاتے ہیں۔ عوام اپنے بہتر مستقبل کے لئے
ایسے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں ، جو ان کی فلاح و بہبود کے علاوہ جان و
مال کا تحفظ بھی کرے ۔19جولائی کو مملکت شام میں 20برس سے مسلط بشار الاسد
کی زیر نگرانی نام نہاد انتخابات کرائے ، جس میں1656 امیدواروں نے حصہ لیا
،بشار الاسد کی بعث پارٹی اور بعض دیگر جماعتوں نے ''قومی اتحاد'' کے پرچم
تلے متحدہ طور پر انتخابات میں حصہ لیا جس نے پارلیمان کی 250 سیٹوں میں سے
177 پر کامیابی کا دعوی کیا ہے۔ شام کے انتخابی کمیشن کے سربراہ سمیر زمریق
کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ انتخابات میں صرف 33 فیصد افراد نے اپنے حق رائے
دہی کا استعمال کیا جبکہ 2016 میں ووٹنگ کا تناسب 57 فیصد تھا۔
17,520,961 والی آبادی والے ملک میں کرونا وائرس کی وجہ سے دو مرتبہ
انتخابات ملتوی کئے جاچکے تھے تاہم 19جولائی کو مختلف جماعتوں کے سرمایہ
دار سمیت قریباََ1656امیدواروں نے حصہ لیا، جن میں 200خواتین بھی شامل
تھیں۔سات ہزار سے زیادہ پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ، اسد کی بعث پارٹی کے
امیدواروں کے اعلان پر ہی پیش گوئیاں کردی گئی کہ کوئی دوسری سیاسی جماعت
کامیابی حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔اسد الاسد اور ان کے اتحادی 20برس
سے شام میں مسلط ہیں ،شام میں گزشتہ دس برس کی جاری خانہ جنگی میں ہزاروں
افراد ہلاک اور لاکھوں لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔
اسد رجیم کے حلیف کامیابی کو عوام کی حمایت قرار دینے پر بضد ہیں ، لیکن
عالمی برداری بخوبی جانتی ہے کہ اسد کی پالیسیوں و بیرونی طاقتوں کی مداخلت
کے باعث شامی عوام کس قدر تکلیف و عذاب کی زندگی جھیل رہے ہیں ، اگر بشار
الاسد عوام میں اتنے ہی مقبول ہوتے تو 50لاکھ سے زائد افراد ہجرت کرنے پر
مجبور نہیں ہوتے۔ شامی انتخابات ایسا ڈھونگ ہیں جو دنیا کو گمراہ کرنے کے
لئے رچایا گیا ۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد
2254کے مطابق شام میں اقوا م متحدہ کی نگرانی میں ’ ’ آزادنہ و شفاف ‘‘
انتخابات کرائے جانے چاہیے تھے ، اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق ’’ تمام
شامیوں ‘‘ کو شرکت کا موقع فراہم کرنا چاہیے تھا تاہم مجموعی آبادی کی ایک
چوتھائی تعداد کسمپری کی حالت میں اپنے گھروں سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیئے
گئے ، اس لئے موجودہ انتخابات کو شامی عوام کی مکمل نمائندگی قرار نہیں دیا
جاسکتا ۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق بشار الاسد کی جانب سے عوام کو جبری
طور پر بعث پارٹی کے امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالنے پر مجبور کیا گیا اور
بعض اطلاعات کے مطابق انتخابی عملے نے پہلے ہی سے اسدکے حمایت یافتہ
امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈلوائے۔
بشار الاسد نے 2000میں اپنے والد حافظ الاسد کی جگہ اقتدار سنبھالا ، جنہوں
نے 30برس تک حکومت کی تھی ، بشار االاسد کے 20برس کے ساتھ اسد خاندان کی
شام پر حکمرانی کو نصف صدی مکمل ہوچکے ہیں ۔ پڑوسی عرب ممالک میں ’’ عرب
سپرنگ ‘‘ ( حکومت مخالف تحریکوں)سے متاثر ہوکر شامی عوام نے بھی بے روزگاری
، بدعنوانیوں اور سیاسی پابندیوں کے خلاف پُر امن احتجاج شروع کردیا ۔ عوام
بشار الاسد کی طرز حکمرانی سے خوش نہیں اور چاہتے تھے کہ جمہوریت پروان
چڑھے تاکہ ان کی مسائل حل ہوسکیں ۔ لیکن پُر امن احتجاج کو ریاستی طاقت سے
دبانے کی کوشش شروع کردیں گئیں اور احتجاجی مظاہرین کے خلاف ریاستی جبر کے
استعمال نے پوری مملکت میں خانہ جنگی کی شکل اختیار کرلی ۔ بشار االاسد نے
اپنا اقتدار بچانے کے لئے پُر امن مظاہرین کو کچلنے کے لئے بیرونی طاقتوں و
جنگجوؤں کو کرائے پر بھرتی کرنا شروع کردیا ۔مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک شام
میں گزشتہ 9 برس کے دوران ایک لاکھ 16 ہزار شہریوں سمیت 3 لاکھ 84 ہزار سے
زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔2015میں روس کے ساتھ معاہدے کے تحت فضائی حملوں
نے شامی عوام پر قیامت ڈھادی اور آہستہ آہستہ شہری حقوق کی پُر امن احتجاجی
تحریک ، خانہ جنگی و پھر اسد رجیم کی جانب سے فرقہ وارنہ جنگ میں تبدیل
کردی گئی۔ شام کی مخدوش حالات کی وجہ سے انتہا پسند عالمی تنظیموں کو شام
میں قدم جمانے کا موقع ملا اور القاعدہ سمیت داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں نے
شام میں قدم جما لئے ۔
شام میں شدت پسند تنظیموں و فرقہ وارانہ گروپوں کی موجودگی کے بعد شام دو
عالمی قوتوں کے درمیان جنگ و جدل کا میدان بن گیا اور امریکا بھی روس کی
وجہ سے اس جنگ میں شریک ہوگیا ۔ شام کی بدترین صورتحال کی ایک طویل ترین
داستان ہے ، جس کا مختصر لب لباب یہی ہے کہ بشار الاسد جیسے حکمران نے
عوامی مسائل کو حل کرنے کے بجائے طاقت کا استعمال کرکے مقدس زمین کو خون سے
سیراب کردیا ، اپنے اقتدار کے لئے فرقہ واریت کو فروغ دیا اور ایسی تنظیموں
کی سرپرستی کی جنہوں نے فرقہ واریت کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کیا
۔ مخالفین و نہتے معصوم عوام پر مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال
کیا۔ حلب ،مدحیہ ، ادلب و دیگر شہروں میں انسانیت سوز سانحات رونما ہوئے ،
اسد رجیم کی وجہ سے سینکڑوں گاؤں و قصبات کا محاصر ہ کرکے انسانوں کو کتوں
، بلیوں اور گھاس پھونس کھانے پر مجبور کیا گیا ۔ خانہ جنگی اور بیرونی
طاقتو ں کی مداخلت سے شام کو سینکڑوں ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔
ان حالات میں شام میں انتخابات کی شفافیت پر تحفظات کا ہونا فطری قرار دیا
جاتا ہے کہ نصف صدی سے حکمرانی کرنے والے خاندان نے اپنی عوام کو بھوک
افلاس ، بے امنی ، جنگ ، فرقہ واریت اور اپنے گھروں سے بے گھر ہونے کے
علاوہ دیا ہی کیا ہے۔ شدت پسند تنظیموں نے شام کی حکومت کی وجہ سے مسلم امہ
کے اتحاد کو نقصان پہنچایا بالخصوص داعش جیسی تنظیموں کی وجہ سے بے گناہ و
نہتے انسانوں کے سر قلم کرکے خوف کی حکومت قائم کی گئی۔جب تک شام سے بیرونی
قوتیں ، شدت پسند تنظیمیں و فرقہ وارنہ گروپوں کا انخلا نہیں ہوتا ، نیز
اقوا م متحدہ کی نگرانی میں تمام شامیوں کو( جو دنیا بھر میں بکھرے ہوئے
ہیں ) آزادنہ رائے دینے کا حق نہیں ملتا ، ایسے انتخابات کو ڈھونگ و
دھاندلی زدہ ہی قرار دیا جاتا رہے گا ۔بشار الاسد کی اقتدار سے علیحدگی
ضروری ہے تاکہ بعث پارٹی ریاستی طاقت کا استعمال کرکے عوام کو جبر ی طور پر
اپنے حق میں ووٹ ڈالنے کی کوشش نہ کرے۔
|