بہت پہلے ، ایک بادشاہ رہتا تھا جو بندروں کو بہت پسند
کرتا تھا۔ اس کے پاس ایک پسندیدہ بندر تھا جو وہ ایک دوست کی حیثیت سے اس
سے بہت قریب رہتا تھا۔ کیونکہ بادشاہ کے خیال کے مطابق بندر بہت ہی چالاک
اور مخلص تھا۔ جب بادشاہ اپنے کمرے میں آرام کرتا ، بندر اس کے پاس بیٹھا
رہتا تھا اور محافظ کی طرح اس کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ کچھ دن بعد ، بادشاہ
جانوروں اور پرندوں کا شکار کرنے کے لئے قریبی جنگل میں گیا۔ جب وہ شکار کے
بعد واپس آیا تو ، وہ بہت تھکا ہوا۔ لہذا ، اس دن وہ جلدی سے سو گیا۔ اس نے
اپنے بندر سے کہا ، "آس پاس نگاہ رکھو تاکہ سوتے وقت کوئی مجھے پریشان نہ
کرے!" بندر نے کہا ، "ٹھیک ہے!" اور بادشاہ کے پاس بیٹھا اور اپنے ہاتھ میں
تلوار لے کر اس کی حفاظت کی۔
تھوڑی دیر کے بعد ، بندر نے کمرے کے چاروں طرف ایک مکھی کی آواز سنائی دی۔
مکھی قریب آکر بادشاہ کے چہرے پر بیٹھ گئی۔ بندر نے مکھی کو دور کرنے کی
بہت کوشش کی لیکن وہ اڑکر بار بار بادشاہ کے ناک پر بیٹھ جاتی۔ بندر بہت
تیش میں آگیا اور کہا، "میں اس مکھی کو مار ڈالوں گا!" چنانچہ ، جب مکھی
ایک بار پھر بادشاہ کی ناک پر بیٹھ گئی۔ اس نے اسے تلوار سے مارا۔ مکھی اڑ
گئی لیکن بادشاہ کی ناک پر تلوار گر گئی اور اس کی ناک کاٹ دی گئی۔ اسی لیے
کہتے ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے ـ کیوں کے یہ نادان دوست آپ
کی خوشنودگی، خوشی اور محبت کے لیے ہر حد پار کرنے کو تیار ہوتا ہے، اور
یہی اس کے ذندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ پر لوگ اکثر ایسے دوستوں سے اجتناب
کرتے ہے، اور گھبرا جاتے ہیں کیون کے ان کی حد سے بڑھی ہوئی محبت، بد نامی
اور شرمندگی کا باعث بنتی ہے اور اور ان کے یہ عمل آپ کی مصیبت حل کرنے کی
بجائے اس میں اضافہ کرتے ہیں۔ شاید ایسے لوگوں کے لیے ہی مرزا اسد اللہ خان
غالب نے فرمایا۔۔
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔
یہ کہاوتیں پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں پر پورا اترتی ہیں، یہ
لوگ جب بھی منہ کھولتے ہیں پاکستان اور پاکستانی اداروں کی ناک کٹوادیتے
ہیں اور ان کی کی بدنامی کا سبب ہی بنتے ہیں۔
کچھ دن پہلے ایوان بالا کے اجلاس میں حکومتی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے
بیرسٹر محمد علی سیف نے قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ کم
کرنے کے لیے ترمیمی بل کو پیش کرنے کی تحریک پر بحث کے دوران اپوزیشن کو
بھاشن دیتے ہوئے کہہ کہ "آپ کشمیر اور افغانستان میں جنگ لڑو پاکستان کی
فوج تمھارے پیچھے ہے ۔"
اول بات تو یہ کے جنگ ہمیشہ افواج لڑتی ہیں اور عوام ان کی سپورٹ میں ان کے
پہیچھے کھڑے ہوتے ہیں اور پارلیمنٹ اس جنگ کی منظوری دیتی ہے۔ لیکن موصوف
سینیٹر فرما رہے کہ اب جنگ بھی عوام لڑے اور فوج انکے پیچھے کھڑی ہوگی۔
دنیا میں اس وقت بھی کافی جگہ پے جنگیں چل رہی ہیں وار آن ٹیرر کا ہی مثال
لے لیجئیے کسی ملک کے نمائندوں نے کیا اپنے عوام کو کہا کہ آپ جنگ لڑے۔
درحقیقت سینیٹر کی یہ بات پاکستانی افواج کی توہین ہے جو دہشتگردوں کے خلاف
اس وقت اکیلے جنگ لڑ رہی ہے۔
سب سے اہم بات افغانستان میں جنگ کی ترغیب دینا ہے، اس تقریر کی افغان حکام
نے مذمت کی ہے۔ افغانستان میں اس وقت ایک منتخب حکومت ہے اور افغان طالبان
اور امریکا نے امن کے لیے معاہدہ کیا ہوا ہے، اور اس وقت ایک ملک کے خلاف
جنگ کی ترغیب دینا درحقیقت پاکستان کو دہشتگرد ریاست ڈکلیئر کروانے میں مدد
کرنا ہیں جب پہلے سے ہی پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی
گرے لسٹ میں ہے اور اسے دہشتگردوں کی مالی معاونت اور پشت پناہی کا الزام
ہے۔ ایسے وقت میں لوگوں کو جنگ کی ترغیب دینا اور اس جنگ کو جہاد کا نام دے
کر اسلام اور ملک کو بدنام کرنا کہاں کی خیرخواہی ہے۔ سینیٹر کی ان باتوں
سے پاکستان کے دشمن یہ اخذ کرے گے کے وہ لوگ جو افغانستان میں جہاد کے نام
پر جنگ کر رہے ہیں ان کے پیچھے اور سپورٹ میں پاکستانی افواج ہے۔ گویا کہ
ان شرپسند عناصر کی پشت پناہی ہماری افواج کر رہی ہیں، اور اسی طرح کی
صورتحال کشمیر میں بھی ہے جہاں انڈیا فالس فلیگ آپریشن کا بہانہ تلاش کررہی
تاکہ پاکستان کو دہشت گرد ملک ثابت کر سکے۔ ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ
انڈیا نے ایسے بیانیے کو جواز بنا کر پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کیا
اور بعد میں انڈیا نے پٹھان کوٹ اور پلواما جیسے ’فالس فلیگ آپریشن‘ کرکے
پاکستان پر الزام عائد کیا اور پاکستان پر حملے کا جواز بنایا۔ وزیراعظم
عمران خان، ملکی اور غیرملکی میڈیا انٹرویوز، تقاریر اور ٹوئٹر پیغامات میں
انڈیا کی جانب سے ’فالس فلیگ آپریشن‘ کا موجودہ صورتحال میں دوبارہ خدشہ
ظاہر کر چکے ہیں۔ اور اس صورتحال میں لوگوں کو جنگ اور جہاد کے لیے اکسانا
نادانی، غیر سنجیدگی اور عالمی سیاست سے نابلدی کا مظھر ہے۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ ایک ملک دوسرے ملک میں مداخلت کرتا ہے وہاں جاسوسی
کرتا ہے، اور باغی عناصر کو سپورٹ فراہم کرتا ہے، امریکا، چین، روس اور
تقریبا ہر ملک اپنے حساب سے یہ کام کرتے ہیں (جیسے حال ہی میں روس کا
طالبان کو انعامات دینے کا مبینہ سکینڈل میڈیا کی زینت بنا جس میں روس پر
الزام عائد کیا گیا کہ وہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کو ہلاک کرنے پر
طالبان جنگجوؤں کو انعام دے رہے ہیں) لیکن یہ کبھی نہیں ہوتا کے اس ملک کے
ایوان کے نمائندے ایوان میں کھڑے ہوکر برملا اس بات کا اظھار کرے کی ان کی
افواج ایسے لوگوں یا پھر ایسے نظریے کو سپورٹ کرتی ہے۔ درحقیقت موصوف کی
باتیں ملک اور فوج سے کھلی دشمنی ہے۔ اس سے پھلے بھی ایک موصوف وزیر برائے
ہوابازی جناب غُلام سرور صاحب نے پالیامینٹ میں کھڑے ہوکر پاکستان کے ایک
ادارے پی آئی اے کے بارے میں بلاتحقیق دعویٰ کیا اور فرمایا پی آئی اے کے
تیس فیصد پائلٹس کی ڈگریاں یا لائیسینس جعلی ہیں اور پھر سِول ایوی ایشن
اتھارٹی کے تحقیقات نے اس دعوے کی نفی کردی۔ لیکن موصوف کے بیان سے پی آئی
اے کو دنیا میں بین کردیا گیا اور پاکستانی پائلٹس کو گرائونڈ کردیا گیا۔
آج پی آئی اے مکمل تباھ ہوگیا ہے اور پاکستان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی
ہوئی ہے۔ نہ صرف یہ حکومتی وزراء اور اتحادی لوگ بلکہ ہمارے وزیراعظم عمران
خان اپنے غیرملکی دوروں اور انٹرویوز میں متعدد بار کہتے آئی ہیں کہ
پاکستان ایک کرپٹ ملک ہے اس میں کرپشن، منی لانڈرنگ ہوتی ہیں، ادارے تباہ
ہیں اور بھی کافی الزام لگائے ہیں۔ بجائے کہ یہ لوٖگ سوچیں کے یہ حکومت میں
ہے اور ان مسائل کا حل تلاش کرے یہ بلاوجہ منہ کھول کر مسائل میں اضافہ
کرتے ہیں اور پھر یہ سمجھتے ہے کے دنیا ان کے اس عمل کو سراہے گی۔ درحقیقت
اس عمل سے یہ نادان لوگ اپنے ہی ملک کو رسوا کرتے ہیں اور پورے عالم میں
ناک کٹواتے ہیں۔
آخر میں ہماری اپنے ملک کے سیاستدانوں سے گذارش ہے کی خدارا جب بھی منہ
کھولے سوچ سمجھ کر ہی کھولے، کہیں آپ کی کہی ہوئی بات ملک اور ملکی اداروں
کی رسوائی، بدنامی اور ناک کٹوانے کا سبب نہ بن جائے۔
|