غریبوں پر حکومتی احسانات

صیام یہ تھائی لینڈکاکوئی دوسرانام ہے یانہیں لیکن ہمارے دیہات کے پرانے لوگ آج بھی تھائی لینڈکوصیام کے نام سے پکارتے ہیں۔ہمیں تویہ نہیں پتہ کہ یہ تھائی لینڈہے کہاں۔۔؟مشرق کی طرف ہے،مغرب یاپھرشمال وجنوب کی طرف۔سچ پوچھیں توانڈیاکی طرح اس تھائی لینڈکوبھی ہم نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھاحالانکہ ہمارے دورکے کئی رشتہ داراورعلاقے والے آج بھی تھائی لینڈمیں زندگی کے شب وروز گزاررہے ہیں۔ہمارے بھانجے توصیف احمدخان توکروناکی وباء آنے سے کچھ دن پہلے ہی تھائی لینڈکی سیریادیدارکرکے آئے ہیں ۔خیراﷲ کومنظورہواتوایک دن ہم بھی انشاء اﷲ خانہ کعبہ کے طواف اورروضہ رسول ﷺپرحاضری کے ساتھ تھائی لینڈکی بھی سیرکرلیں گے۔بہرحال صیام سے شروع ہونے والی بات گپ شپ میں کہاں تک پہنچی۔کہنے کامطلب یہ ہے کہ پرانے زمانے میں ہمارے کچھ بڑے تھائی لینڈپرانے صیام سے صیامی دلہنوں کوسجاکرلائے۔اوروں کاتوہمیں اتناعلم نہیں ۔ہمارے علاقے میں رہنے والی کسی صیامی خاتون کاذکرخیرہم نے اپنے بڑوں سے کئی بارسنا۔ہمارے بڑے اس خاتون کے بارے میں کہاکرتے تھے کہ یہ صیامی خاتون پاکستان اورپھراس طرح کے دوردرازعلاقے میں شادی کرنے کے لئے ہرگزتیارنہ تھیں لیکن ہمارے اس پاکستانی نے اسے وہ سپنے اور خواب دکھائے اورکہانیاں سنائیں کہ اف توبہ۔ اس وقت یہاں اس طرح کے گھرتوکہیں تھے ہی نہیں۔لوگ جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔ان کابھی اسی طرح یہاں کہیں کوئی ایک جھونپڑی تھی جس میں ان کے بہن ،بھائی اوروالدین رہتے تھے۔اس جھونپڑی میں یہ بھی نہیں پتہ کہ کوئی چارپائی بھی تھی یا نہیں۔لیکن اس صاحب نے اس خاتون کوجوسپنے اورخواب دکھائے۔اس میں ایک ایسے تاج محل کاذکرتھاجس میں ہرروزبیڈکونئے بیڈسے تبدیل کیاجاتاتھا۔قسم قسم کے تازہ پھل۔۔بازار۔۔چمن ۔۔صاف وشفاف پانی اورٹھنڈی ویخ ہوائیں اوردنیاکی دیگرہرسہولت ونعمت۔بے چاری وہ خاتون ان سپنوں اورخوابوں میں آکرانہوں نے اس سے شادی کرلی۔جب وہ یہاں آئیں توپھرنہ کوئی گھرتھا،نہ بازار،نہ پھل اورنہ کوئی نیاکیا۔۔؟کہ پراناکوئی بیڈ۔اس زمانے میں جھونپڑیوں میں رہنے والے لوگ جھونپڑی کے اندرپتوں سے بنابھوسہ ڈالتے تھے جسے ہرروزتبدیل کیاجاتاتھا۔اس خاتون نے جب بیڈکے بارے میں دریافت کیا۔تواس جوان نے اس بھوسے کی طرف اشارہ کرکے جواب دیاکہ اس پرہم سوتے ہیں اوردیکھنااس کویہاں ہرروزنئے بھوسے سے تبدیل کیاجاتاہے۔جس بھوسے کواس نے نئے بیڈکانام دیاتھاباقی سہولیات اورنعمتوں کابھی وہی حال تھا۔اس خاتون پرپھرکیاگزری ۔۔؟یہ اس کواوراس کے اﷲ کوہی پتہ ہے ۔بہرحال تبدیلی کے نام پرنئے گھر،روزگار،ترقی اورخوشحالی کے خواب دیکھنے والوں کی آج جب میں آہیں اورسسکیاں سنتااوریہ حال بے حال دیکھتاہوں تومجھے اس خاتون کے ساتھ ہونے والایہ واقعہ یادآنے لگتاہے۔اس صیامی خاتون کوتوشائدکہ کم خواب اورسپنے دکھائے گئے ہوں لیکن وزیراعظم عمران خان نے توپورے 22سال تک اس بھولی بھالی قوم کواتنے خواب اورسپنے دکھائے کہ جس کی کوئی حدہی نہیں۔ وہ کونساخواب ہے۔؟یاوہ کونساسپناہے۔؟جوعمران خان نے اس قوم کونہیں دکھایا۔ایک آسمان سے تارے توڑنے کی بات کپتان نے نہیں کی باقی کوئی بات اس نے چھوڑی نہیں۔دوسال پہلے اگر اقتداران کونہ ملتاتویقینناً آسمان سے تارے توڑکرلانے کی قسم بھی یہ جناب ضرور کھالیتے۔ڈی چوک میں لگی قدآورسکرین پرایک خواب یہ بھی دکھائی گئی تھی کہ ہماری حکومت آئی توآپ کوکسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت پڑے گی اورنہ ہی کوئی نوبت آئے گی۔عمران خان کے اقتدارمیں آنے سے پہلے سابق وزیراعظم نوازشریف اورآصف علی زرداری کی طرح شائدکہ کچھ لوگ کسی اورکے سامنے ہاتھ پھیلاتے رہے ہوں لیکن آج تواس عمران خان کی حکومت میں ہردوسراشخص غربت ،بیروزگاری ،بھوک وافلاس اورمجبوری کی وجہ سے دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پرمجبورہے۔ہماری حکومت آئی توہم سرکاری ملازمین کودودولاکھ تنخواہیں دیں گے۔دودولاکھ تودور۔۔جن غریبوں کونوازاورزرداری دورمیں چندہزارکی تنخواہیں بھی ملتی تھیں کپتان نے حکومت میں آتے ہی ان غریبوں کوان چندہزارسے بھی محروم کردیاہے۔کپتان اکثرفرمایاکرتے تھے کہ مہنگائی اگربڑھ جائے توسمجھ لیناکہ وزیراعظم چورہیں۔آج تواس حکومت اوراقتدارمیں کوئی چورنہیں ۔سارے دودھ کے دھلے ہوئے اورامریکہ،برطانیہ اوردبئی سے لائے گئے فرشتے ہیں لیکن ایک بات کی کسی کوسمجھ نہیں آرہی کہ ان فرشتوں اورایمانداروں کی حکمرانی کے باوجودپچھلے دوسال سے مہنگائی کاطوفان اورجکڑتھمنے کاکوئی نام نہیں لے رہا۔ہزاروں خوابوں میں ایک خواب ترقی اورخوشحالی کابھی تھا۔ترقی توتبدیلی کے ساتھ ہی گئی ناناکے گھر۔رہی خوشحالی وہ بھی اب تقریباًقصوں اورکہانیوں تک ہی کتابوں میں رہ گئی ہیں۔سرچھپانے کے لئے چھت،پیٹ کاجہنم بھرنے کے لئے روٹی اوربدن ڈھانپنے کے لئے اگرکپڑانہ ہوتوغربت،بیروزگاری،بھوک اورافلاس کے سائے میں انسان کیسے خوش اورخوشحال رہے گا۔۔؟سچ تویہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ملک میں ایک مہنگائی پرزوردے کرخوشی اورخوشحالی کی قبرپرفاتحہ بھی پڑھ لیاہے۔نہ رہے بانس اورنہ بجے بانسری۔اب اس ملک میں خوشی رہے گی اورنہ ہی خوشحالی کی کوئی بانسری بجے گی۔ آٹا،چینی،بجلی اورگیس کے بعدادویات کی قیمتوں میں ایک بارپھراضافہ ۔یہ نئے پاکستان نہیں نئے قبرستان آبادکرنے کی طرف اہم پیش رفت ہے۔جب سے اس ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے۔کپتان کے نادان اورجاہل کھلاڑیوں کے علاوہ کسی نے ایک دن بھی کبھی سکھ کاسانس نہیں لیا۔ملک کے اکثرعوام مہنگائی،غربت اوربیروزگاری تلے دب چکے ہیں۔دودھ سے دھلے ہوئے جن ایمانداروں اورفرشتوں کی حکمرانی میں غریبوں نے پیٹ بھرکرکھاناکھاناتھا۔آج ان کی حکمرانی میں غریب ایک وقت نہیں بلکہ ایک ایک نوالے کے لئے ترس اورتڑپ رہے ہیں۔پہلے صرف ایک وزیراعظم کشکول اٹھایاکرتاتھاآج وزیراعظم سمیت پوری قوم کشکول اٹھائے دربدرپھررہی ہے۔ملک میں غریبوں کی حالت زاراورمہنگائی کی روزبروزبڑھتی شرح کودیکھ کریقین نہیں آرہاکہ اس ملک میں کہیں اس عمران خان کی حکومت ہے جوکبھی اس ملک کے غریبوں کوپیٹ بھرکرکھاناکھلانے اورچوروڈاکوؤں کے پیٹ پھاڑنے کے خواب اورسپنے دکھایاکرتے تھے۔جنہوں نے کشکول کولات مارکرہوامیں اڑادیناتھا۔انہی نے مہنگائی ،غربت اوربیروزگاری کے ذریعے پوری قوم کوکشکول تھماکرمانگنے پرلگادیا۔کیسازبردست وقت اورکیاعجیب دورتھاوہ۔۔جب آج کے وزیراعظم عمران خان آستین چڑھاکرغریبوں کوایک کروڑنوکریوں،پچاس لاکھ گھراورترقی وخوشحالی کی وادیوں کی مفت میں سیرکرایاکرتے تھے۔ہمیں نہیں یادپڑرہاکہ سٹیج سے اترنے اوراقتدارکی ہماپرچڑھنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے غریبوں کے لئے کوئی ایک بھی ڈھنگ کاکوئی کام کیاہو۔کروناوباء کے دوران غریبوں کو12ہزارروپے۔۔اس جتنے پیسے توپہلے والے چوراورڈاکوبینظیرانکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کروناجیسی وباؤں اورآفتوں کے بغیربھی غریبوں کودیاکرتے تھے۔پہلے والے توملک لوٹنے کے لئے آتے تھے ان سے توکوئی گلہ نہیں۔لیکن یہ ایمانداراورفرشتے توغریبوں کی تقدیراورحالت بدلنے کے لئے آئے ہیں ۔پھریہ بتائیں ان دوسالوں میں آٹا،چینی،دال،پٹرول،گیس،بجلی،ادویات،دودھ،مصالحہ جات،سیمنٹ،کپڑے،جوتے اورچاول جیسی بنیادی وضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ غریبوں کے لئے اورکیاکیا۔۔؟بجلی بل میں ٹی وی فیس کو35سے بڑھاکر100کرنایہ بھی ان ایمانداروں کاکارنامہ ہے۔واقعی جوکام کل کے چوراورڈاکونہیں کرسکے ۔وہ ان ایمانداروں نے محض 2سال میں کرکے دکھایا۔یہ قوم ان ایماندارحکمرانوں کاآخرکون کون سااحسان یادرکھے گی۔
 
Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 223 Articles with 161230 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.