قربانی سے پہلے قربانی

ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ حالیہ تناظر کو دیکھتے ہوئے شیخ صاحب اگر پہلے کی طرح اس دفعہ بھی حسبِ معمول اس جملے یعنی ( قربانی سے پہلے قربانی ) کا تذکرہ کرتے، تو اس کے محرکات کیا ہوتے؟ کیا یہ قربانی حسبِ اقتدار کی طرف سے سامنے آتی یا اس قربانی کا وسیلہ بھی اپوزیشن ہی بنتی؟ اگر ہم حالیہ تناظر میں اس پیشین گوئی کا تجزیہ کریں،تو درحقیقت یہ قربانی حسبِ اقتدار اور اختلاف دونوں کے حصے میں آئی ہے. کیونکہ آج کے دن یعنی کہ عید قربان سے محض دو دن قبل حکومتی حلقوں میں سے ایک نہیں بلکہ دو  بڑی قربانیاں سامنے آئی ہیں.
اب تک ہم اس جملے کو سیاسی عینک لگا کر دیکھ رہے تھے. لیکن اگر ہم اخلاقی لحاظ سے اس جملے ( قربانی سے پہلے قربانی ) کا بغور جائزہ لیں تو یہ جملہ ہمیں قربانی سے پہلے اپنی انا، غرور، حوس اور دیگر اخلاقی بیماریاں قربان کرنے کا درس دیتا ہے.


اس عنوان کا انتخاب کرتے ہوئے میں یہ سوچ رہا تھا کہ ماشاﷲ جب بھی عید قربان قریب آتی تھی، شیخ رشید احمد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ازرہ تفنن کہا کرتے تھے کہ قربانی سے پہلے قربانی ہوگی. یقیناً وہ اپنی طرف سے  کوئی نئی پیشین گوئی کیا کرتے تھے. لیکن حقیقت میں کم و بیش ہی ان کی کوئی پیشین گوئی سچ ثابت ہوتی تھی. اس دفعہ بھی میں یہ امید کر رہا تھا کہ پہلے کی طرح اب بھی شیخ صاحب میڈیا کی مدد سے  حالیہ تناظر میں قربانی سے پہلے قربانی کا جملہ استعمال کرتے ہوئے مستقبل کی پیشین گوئی کریں گے. لیکن اس دفعہ شیخ صاحب منظر سے غائب ہیں. ممکن ہے کہ ابھی بھی ان کی طبیعت ناساز ہو اور کورونا کا اثر موجود ہو. یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس دفعہ خاموشی سوچ سمجھ کر اختیار کی گئی ہو.  خیر جو بھی ہو یہ خوش آئند ہے کہ بغیر سوچے سمجھے قربانی سے پہلے قربانی کے جملے کا استعمال عمل میں نہیں لایا گیا.

کیونکہ اس جملے کے استعمال سے حکومتی حلقوں میں بھی تجسس اور بےچینی بڑھ جایا کرتی تھی اور اپوزیشن بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتی تھی کہ  اب یہ قربانی کس کی ہوگی؟ لیکن حسبِ اقتدار اور اختلاف کے کئی سمجھ دار افراد اس جملے کو محض مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے.

ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ حالیہ تناظر کو دیکھتے ہوئے شیخ صاحب اگر پہلے کی طرح اس دفعہ بھی حسبِ معمول اس جملے یعنی (قربانی سے پہلے قربانی) کا تذکرہ کرتے، تو اس کے محرکات کیا ہوتے؟ کیا یہ قربانی حسبِ اقتدار کی طرف سے سامنے آتی یا اس قربانی کا وسیلہ بھی اپوزیشن ہی بنتی؟ اگر ہم حالیہ تناظر میں اس پیشین گوئی کا تجزیہ کریں،تو درحقیقت یہ قربانی حسبِ اقتدار اور اختلاف دونوں کے حصے میں آئی ہے. کیونکہ آج کے دن یعنی کہ عید قربان سے محض دو دن قبل حکومتی حلقوں میں سے ایک نہیں بلکہ دو  بڑی قربانیاں سامنے آئی ہیں.

پہلی قربانی تانیہ ادریس المعروف تانیہ ایندروس کی جانب سے سامنے آئی . جنہوں نے سب سے پہلے استعفیٰ دیا اور وجوہات یہ بتائیں کہ ان کی دوہری شہریت کے بارے میں میڈیا کی تنقید اور اس باعث ان کی ہزیمت اس استعفے کی وجہ بنی. لیکن تانیہ ایندروس کی یہ وجوہات درحقیقت ان کے استعفے کی وجہ نہیں بنی. بلکہ وہ پرائم منسٹر عمران خان کو ڈیجیٹل پاکستان کمپنی کی بطور ڈائریکٹر سوال پر اعتماد میں نہ لے سکیں. جس کی بدولت یہ استعفیٰ ان سے طلب کیا گیا. تانیہ ایندروس جہانگیر ترین کے ہی اصرار پر پاکستان آئی تھیں. مزید یہ کہ وہ جہانگیر ترین کی ایک کمپنی جس کا نام ڈیجیٹل پاکستان تھا. جو کہ (سیکیورٹی اور ایکسچینج کمیشن آف پاکستان) میں رجسٹرڈ تھی، بطور ڈائریکٹر فرائض انجام دے رہی تھیں. لیکن ساتھ ہی وہ عمران خان کی طرف سے ڈیجیٹل پاکستان منصوبہ کو بھی ہیڈ کر رہی تھیں. کیونکہ پاکستان کے قانون کے تحت یہ ممکن نہیں کہ ایک معاون سرکار کو بھی خدمات پیش کرے اور ساتھ ساتھ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی وہ بطور ڈائریکٹر فرائض انجام دے رہا ہو. در اصل یہی وجہ ان کے استعفے کا سبب بن گئی. ان کے استعفے پر لوگوں نے مختلف آراء کا اظہار کیا. بعض افراد نے گہرے دکھ  اور تشویش کا اظہار کیا اور بعض نے اس فیصلے کی تائید کی.

دوسری بڑی قربانی وزیراعظم کے معاون خصوصی صحت ظفر مرزا کی جانب سے سامنے آئی. جنہوں نے تانیہ ایندروس کی طرح ہی بذریعہ ٹویٹ اپنے استعفے کا بتایا اور ان کے طرز کی ہی وجوہات پیش کیں یعنی دوہری شہریت کے باعث ہزیمت کو بنیاد بنایا. جبکہ اس کے پس پردہ بھی وجوہات کچھ اور ہیں. گزشتہ کئی کابینہ میٹنگز میں کابینہ ارکان اور بشمول عمران خان ان کی سرزنش کرتے رہے. کورونا وائرس کو اگر ہم نظر انداز کردیں جو کہ نہیں کرسکتے، ظفر مرزا  نے سپریم کورٹ کی جانب سے بھی سرزنش کا سامنا کیا. جبکہ میری ناقص رائے کے مطابق یہ عمل درست نہیں تھا. کیونکہ ظفر مرزا نے کورونا وائرس کی صورتحال میں اتنی بھی بری پرفارمنس نہیں دی. خیر ادویات کی قیمتوں میں اضافے کو وہ روکنے میں ناکام رہے، اور بھارت سے ادویات کی خریداری بھی ان کے استعفے کی وجہ بنی.

حکومتی سطح پر قربانیوں کا یہ سلسلہ آج یوں اختتام کو پہنچا. لیکن حکومتی حلقوں میں سے مزید استعفوں کی بھی بازگشت سننے کو مل رہی تھی. جو کہ وقت نے روک دی ہے یا پھر عمران خان نے، خیر جب مناسب وقت آئے گا مزید لوگ قربان ہوجائیں گے. یہ سب قربانیاں تو حسبِ اقتدار کی جانب سے سامنے آئی ہیں .

لیکن آج  ہی کے دن اپوزیشن کی جانب سے بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا گیا. بلکہ سب سے بڑی قربانی جو اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی وہ یہ تھی کہ آصف علی زرداری کے خلاف  پارک لین کیس میں دو بینک کے افسران نے وعدہ معاف گواہ کی درخواست دائر کردی. آج ہی کے دن ایک اور قربانی جو کہ سندھ کے پس منظر میں سامنے آئی. وہ یہ کہ کراچی کے بد ترین حالات کے سبب عمران خان نے فوج کو کراچی کی صفائی اور ستھرائی کا حکم دے دیا. نیز یہ کہ ڈی جی (این ڈی ایم اے) کو بھی کراچی کی صفائی کے لئے روانہ کردیا. یقیناً سیاسی لحاظ سے تو یہ پی پی پی کے لئے کسی قربانی سے کم نہیں. لیکن عوامی حوالے سے یہ خوش آئند ہوسکتا ہے. لیکن یہاں ایک بات جو مجھ خاکسار کو سمجھ آئی کہ کب تک ہم شہروں کی صفائی اور دیگر چھوٹے کاموں کے لئے فوج طلب کریں گے.  یقیناً یہ کسی مسئلے کا حل نہیں کیونکہ فوج ہمارے دفاع کی ضامن ہے، صفائی اور ستھرائی کی نہیں. لیکن کیا کریں اگر عوامی نمائندے اپنی ذمہ داریاں نہیں سنبھالیں گے تو ، یہ تو ہوگا. اگر ہمارے نمائندے سیلاب کے دوران کیک کاٹتے رہیں گے اور عوام کو موسمی مینڈک کے نام سے پکاریں گے ، تو یہ تو ہوگا. خیر یہ سب قربانیاں تو سندھ کے ہی حصے میں آئی ہیں. مزید یہ کہ شہباز شریف نے بھی حکومت مخالف تحریک میں پہلے آپ، پہلے آپ کرتے ہوئے بلاول کو ذمہ داری سونپ دی ہے  اور انھیں قربانی کا بکرا بنا دیا ہے، کہ وہ اس تحریک کو لیڈ کریں گے. جبکہ ممکن ہے کہ شہباز جس کی پرواز سے جلتا ہے زمانہ، وہ پھر سے پرواز ہی نہ کر جائیں. نیز عوام کے لئے بھی خوشی کی خبر نہیں ہے، ممکن ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے سبب ایک قربانی عوام کو بھی پیش کرنی پڑے.

میں امید کرتا ہوں کہ اس دفعہ آپ کو شیخ صاحب کی قربانی سے پہلے قربانی والی پیشین گوئی حقیقت کا روپ لیتی نظر آئی ہوگی. اس دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واقعی قربانی سے پہلے قربانی ہو گئی ہے . نیز یہ کہ قربانی کا یہ سلسلہ عید قربان کے بعد بھی جاری رہے گا. اب تک ہم اس جملے کو سیاسی عینک لگا کر دیکھ رہے تھے. لیکن اگر ہم اخلاقی لحاظ سے اس جملے (قربانی سے پہلے قربانی) کا بغور جائزہ لیں تو یہ جملہ ہمیں قربانی سے پہلے اپنی انا، غرور، حوس اور دیگر اخلاقی بیماریاں قربان کرنے کا درس دیتا ہے.
اگر ہم اب کی بار قربانی سے پہلے اخلاقی بیماریوں کی قربانی پیش کریں، تو درحقیقت ہمیں عید قربان کی اصل خوشنودی حاصل ہو گی. 

 

Muhammad Humayun Shahid
About the Author: Muhammad Humayun Shahid Read More Articles by Muhammad Humayun Shahid: 34 Articles with 31517 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.