آج کی نوجوان نسل اس واقعہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی کہ پنتالیس سال پہلے ٹوبہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے اسوقت کے رکن قومی اسمبلی چوہدری محمد اسلم کی پر اسرار وفات ہوئی تھی جس کے متعلق ٹوبہ کو کارکنوں کو شبہ تھا کہ انہیں زہر دے کر ہلاک کیا گیا۔مگران کے مطالبہ کے باوجود اسکی تحقیقات نہ کی گئی اور یہ معمہ حل طلب ہی رہ گیا۔
ان کی وفات سے قبل سابق وزیراعظم شہید ذولفقار علی بھٹو1975 میں جون کے آخر میں یا جولائی کے شروع میں فیصل آباد(اس وقت لائیلپور) کے دورہ پر آئے تو زرعی یونیورسٹی میں واقع سرکٹ ہاوس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لائیلپور ضلع(اسوقت ٹوبہ اس کی تحصیل تھی )کے ارکان اسمبلی اور کارکنوں سے خطاب کیا تھا اور ان کے مسائل سنے تھے۔اجلاس میں اس وقت کے گورنر ملک غلام مصطفےٰ کھر اور وزیر اعلیٰ حنیف رامے بھی موجود تھے۔بھٹو شہید اورشرکاؑ اس وقت دم بخود رہ گئے جب ٹوبہ سے قومی اسمبلی کے مرحوم رکن چوہدری محمد اسلم نے گورنر مصطفےٰ کھر کے خلاف سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ چونکہ وہ کھر پر ان کی غلط اور کارکن دشمن پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں اسلئے کھر نے نہ صرف انکے ترقیاتی کاموں کو رکوادیا ہے بلکہ ان کے ساتھیوں پر جھوٹے مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں۔بعد میں چوہدری اسلم ٹوبہ آئے اور یہاں مارکیٹ کمیٹی ہال میں اپنی زندگی کی آخری تقریر میں کارکنوں سے کہا کہ وہ مت گھبرائیں وہ کھر سے ڈرنے والے نہیں اور جب تک کھر کو گورنر کے عہدہ سے ہٹا نہیں دیا جاتا وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی جان کو بھی خطرہ ہے۔چند دنوں بعد وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے اسلام آباد چلے گئے۔
ان کے بڑے صاحبزادے اور آجکل پاکستان تحریک انصاف کے مقامی رہنما میاں مشہود الرحمٰن نے اپنے والد کی وفات کا واقعہ یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس وقت لائلپور گورنمنٹ کالج کے طالب علم تھے ان کے علم کے مطابق ان کے والد 9 جولائی 1975 کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک تھے کہ انہیں اچانک سانس لینے میں دقت ہوئی تو وہ اسی وقت باہر نکلے اور اپنی کار خود ڈرائیو کرکے ایم این اے ہوسٹل پہنچے اور ڈسپنسری میں موجود ڈاکٹر کو چیک کروایا جو انہیں ساتھ لے کر پولی کلینک پہنچے مگردیر ہو چکی تھی اوروہ وہاں انتقال کر گئے۔ان کا کہنا تھا کہ کسی نے انہیں بتایا تھا کہ ایک رات قبل کسی ہوٹل میں کسی کی دعوت میں شریک ہوئے تھے اور کارکنوں کا شبہ تھا کہ انہیں وہاں زہر دیا گیا ہوگا ورنہ وہ تو مکمل طور پر صحت مند تھے۔
جب بھٹوشہید نے اپنے ہیلی کاپٹر میں ان کی میت ٹوبہ بھیجی تو ہیلی کاپٹر میں وفاقی وزراؑ شیخ رشید(جنہیں بابائے سوشلزم بھی کہا جا تا تھا)ڈاکٹر مبشر حسن اور جے اے رحیم بھی میت کے ساتھ آئے تھے جن کے روبرو مقامی پارٹی کارکنوں نے اس خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ چوہدری اسلم کی موت پر اسرار ہے اور اسکی تحقیقات ہونی چاہیئے۔کارکنوں نے یہی مطالبہ جنازہ میں شریک وزیر اعلیٰ حنیف رامے۔اور بعد میں تعزیت کے لئے آنے والے پارٹی رہنماوں بشمول عبدالحفیظ پیرزادہ اور دیگر سے بھی یہی مطالبہ دہرایا تھا۔مگر 45 سال گزر گئے ابھی تک اس راز سے پردہ نہیں اٹھ سکا کہ چوہدری اسلم کی موت طبعی تھی یا انہیں منصوبہ بندی کے تحت زہر دے کر ہلاک کیا گیا۔
تحریک انصاف کے مرکزی نائب صدراور ٹوبہ سے سابق ایم این اے چوہدری محمد اشفاق نے بتایا کہ چوہدری اسلم مرحوم کرپشن کے خلاف جہا د کرتے تھے ۔وہ انتہائی ایمانداراور دلیر انسان تھے۔ان کا کہنا ہے ان کے ٹوبہ میں واقع چھوٹےسے مکا ن میں ان کے سات بھائیوں ان کی اولاد اور رشتہ داروں سمیت 61 حصہ دار تھے اور وہ اپنی اولاد کے لئے آبائی جائیداد کے علاوہ کچھ بھی چھوڑ کر نہیں گئے۔ اور یہ مکان ابھی تک ان کے بیٹوں کے نام منتقل نہیں ہو سکا ۔
پی پی پی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے مرحوم رکن غیاث الدین جانباز کے صاحبزادے عارف جانباز نے بتایا کہ ان کے والد چوہدری اسلم مرحوم کے قریبی ساتھی تھے اور ان کی زبانی میں نے سنا تھا کہ چوہدری اسلم طبعی موت نہیں مرے بلکہ ایک بہادر پارلیمنٹیرین کی دلیرانہ آواز کو سازش کے تحت ہمیشہ کے لئے خاموش کردیا گیا تھا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ مرحوم کی نشست پر پارٹی کے مقامی رہنما راجہ مبارز خاں مرحوم ضمنی الیکشن میں جیتے تھے۔
|