ابھی بڑی عید گذری ہے اﷲ کا لاکھ لاکھ شکرہے کہ
کرونا وائرس کا زور ٹوٹ گیاہے مریضوں کی تعداد کم سے کم ہورہی ہے لیکن
ماہرین کا خیال ہے ابھی ہم خطرے میں ہیں اسلئے احتیاط میں ہی عافیت ہے ذرا
تصورکی آنکھ سے دیکھئے ماضی کا خوف وہراس کیا یہ قیامت سے کچھ کم تھا؟ نہیں
اب بھی یاد آجائے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ انسان اتنا بااختیارہونے کے
باوجود کتنا بے بس ہے یہ 3مئی 2020ء کا دن تھا ایک فرانسیسی ڈاکٹر نے "Tv5"
نامی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: آج ایک گھڑی ایسی آئی کہ مجھے لگا میں
"شدت تکلیف سے" اندر ہی اندر جھلس رہا ہوں۔
ہوا یہ کہ "کرونا" کے ایک مریض نے اپنے آخری وقت میں ہم سے درخواست کی کہ
وہ آخری مرتبہ اپنی اولاد سے ملنا چاہتا ہے۔ پہلے تو ہم نے صاف انکار کر
دیا۔لیکن جب وہ بری طرح رو رو کر اصرار کرنے لگا تو ہمیں اس پر بہت ترس آیا
اور ہم نے اس کی بات ماننے کا فیصلہ کیا۔ چناچہ ہم اس جگہ کی خاص طور پر
صفائی میں مشغول ہو گئے۔تاکہ مریض کے گھر والوں کے لئے کوئی خطرہ نہ رہے۔
پھر "بطور ڈاکٹر" جب ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ اب "وہ " کسی اندیشہ کے بغیر
آسکتے ہیں تو ہم نے "موت کی آغوش میں آخری سانسیں لے رہے شخص کی " آخری
خواہش " پوری کرنے کے لئے " اس کے گھر والوں کو فون کیا۔ لیکن بہت افسوس کے
ساتھ یہ بتانا پڑ رہا ہے کہ مریض کے گھر والوں نے باپ سے آخری مرتبہ ملنے
سے انکار کردیا کہ کہیں ان کو بھی یہ وائرس نا لگ جائے۔
ہم نے ان سے التجا کی اور لاکھ یقین دلایاکہ ہم نے احتیاطی تدابیر لے لی
ہیں اور آپ کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن وہ نہیں مانے اور فون کاٹ دیا۔
اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قیامت کا ہولناک منظر کھینچتے ہوئے فرمایا: یہ
وہ دن ہے کہ جس دن انسان اپنے بھائی سے بھاگے گا،اپنے ماں باپ اور اپنی
بیوی بچوں سے بھاگے گا۔
یہ ووہان ہے... یہ امریکہ ہے۔۔۔یہ اٹلی بھی ہوسکتاہے یاپھرپاکستان ہرجگہ
ایک جیسے مناظر ایک جیسا خوف و ہراس ،ایک جیساماحول۔۔ کروناوائر س انسانوں
کے ساتھ جو کیا وہ کسی قیامت سے کم تو نہیں تھا دنیابھر میں سینکڑوں،ہزاروں
شہر،لاکھوں ہسپتال اور کروڑوں متاثرین سب سے سب ایک وباء کے سامنے
ڈھیرہوگئے یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ انسان چاندکی تسخیرکے باوجود قدرت
کے سامنے بے بس ہے۔ ووہان کے ایک ہسپتال میں اسٹریچر پر لیٹے مریض کو
ڈاکٹرز نے جواب دے دیا، اس کے چہرے پرمایوسی تھی اسٹریچر کے ساتھ کھڑا
ڈاکٹر لی ہے، مریض نے ڈاکٹر لی سے کہا زندگی کا علم نہیں کیا پتا مزید کتنی
سانسیں باقی ہیں ایک خواہش ہے پوری کردو گے ؟
ڈاکٹر نے پوچھا بتاؤ ؟
مریض بولا آج شام کا سورج ڈوبتے دیکھنا چاہتا ہوں قبل اس کے کہ میری زندگی
کا سورج ڈوب جائے شاید یہی سورج میری زندگی کا آخری ڈوبتا سورج ہو
ڈاکٹر لی مریض کو مغرب سے قبل باہر لے آیا اور مریض نے سورج ڈوبنے کا نظارہ
کیا۔ پھر یہ ہوا کہ سورج تو ڈوب گیا لیکن کمال یہ ہوا کہ مریض کی زندگی کا
سورج دوبارہ طلوع ہوا، دوسرے دن اس کی صحت میں بہتری کے آثار نمودار ہوئے
اور وہ آج مکمل صحت یاب ہو کر گھر بیٹھا ہے لیکن جب بھی سورج ڈوبتے دیکھتا
ہے تو رونے لگتا ہے
جانتے ہیں کیوں ؟
کیوں کہ ڈاکٹر لی کی زندگی کا سورج ڈوب گیاتھا وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔۔
بلاشبہ جِس کی موت لِکھی ہوئی ہے اْس نے جانا ہے چاہے وہ بیمار نہ ہو……!!!
کرونا وائرس نے درجنوں ڈاکٹروں کی جان لے لی پاکستان میں ایک درجن سے زائد
ڈاکٹر انسانیت کی خدمت کرتے کرتے اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں ایک روز
قبل بھارت کی نامور ڈاکٹر عائشہ کرونا کے مریضوں کا علاج کرتے کرتے اپنے خا
لق ِ حقیقی سے جاملی ان تمام مسیحاؤں کو پوری انسانیت خراج ِ تحسین پیش
کرتی ہے۔ایک ڈاکٹرنے اپنے مشاہدات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ایک 35 سالہ
نوجوان کے پھیپھڑوں کی ہے جو جناح ہسپتال لاہور میں انتقال کر گیا تھا حیرت
انگیز بات یہ ہے کہ اس کی میڈکل ہسٹری بتاتی ہے کہ اس کے پھیپھڑوں کا یہ
حال صرف 24 گھنٹوں میں ہوا میڈیکل سے وابستہ لوگ تو دیکھ کر سمجھ سکتے ہیں
کہ کس طرح کورونا نے پھیپھڑوں کا بھرکس نکال دیا ہے مگر میرے جیسا میڈیکل
سائنس میں ڈفر بھی دیکھ رہا ہے کہ مریض کو LG یا SG کے کارتوس سے چھلنی کیا
گیا ہو۔
کورونا وائرس کی اپنی بائیو سنتھیٹک مشینری (biosynthetic machinery) نہیں
ہوتی. جس کا مطلب ہے یہ خوراک کھا نہیں سکتا. خود حرکت نہیں کرسکتا، اپنی
افزائش نہیں کر سکتا . یعنی یہ کسی دوسرے زندہ جاندار کے جسم کے اندر رہ کر
ہی افزائش کرسکتے چونکہ خود سے حرکت بھی نہیں کر سکتا اس مقصد کے لیئے اسے
ایک زندہ جسم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جسم تک پہنچ کر سب سے پہلے یہ اس کے جسم کے
سیلز میں گھستا ہے. جونہی وائرس ہوسٹ کے ان سیلز میں داخل ہوتا ہے تو سب سے
پہلے ان کا مکمل کنٹرول اپنے اختیار میں کرتا ہے. سیلز کے میٹابولزم یعنی
وہ ری ایکشنز جو ہوسٹ کے سیلز ہوسٹ کے لئے کر رہے ہوتے ہیں اب وہ وائرس کے
لئے کرنا شروع کردیتے ہیں. آسان الفاظ میں کورونا بہت بڑا ہائیکر ہے۔جو
انسانی جسم کے سیلز کو ہائیک کر کے اپنے استعمال میں لء آتا ہے۔ وائرس اپنے
ہوسٹ کے سیلز سے سب سے پہلے اپنے نیوکلیک ایسڈز کی کاپیز تیار کرواتا ہے.
ایک سے دو. دو سے چار اور اسی طرح وائرس کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا
ہے. وہ ایک ہوسٹ سیل جس کو آغاز میں ایک وائرس نے ہائی جیک کیا تھا اب وہ
ہزاروں وائرسز کی آماجگاہ بن چکا ہوتا ہے. اسی دوران یہ ہوسٹ سیل پھٹ جاتا
ہے جسے لائسز (lysis) کہا جاتا ہے. ایک سیل کے پھٹنے سے ہزاروں وائرسز
برآمد ہوکر ہوسٹ کے جسم کے ہزاروں نئے سیلز میں گھس جاتے ہیں. ایک بار پھر
سے وہ تمام سیلز وائرس کی تعداد بڑھانے میں لگ جاتے ہیں. اور لاکھوں نئے
سائیکلز شروع ہوجاتے ہیں. ان سارے مراحل کے دوران ابھی تک ہوسٹ بظاہر صحت
مند رہتا ہے. کیونکہ ہوسٹ کا اپنا جسم بھی کھربوں سیلز کا بنا ہے اور
لاکھوں سیلز تباہ ہوجانے کے باوجود نارمل دکھائی دیتا ہے. ان مراحل کو
وائرس کا انکیوبیشن پیریڈ (incubation period) کہا جاتا ہے. جیسے وزیر تعلم
سعید غنی بظاہر ٹھیک ہیں اور محسوس بھی نہیں کر رہے بھر بھی کورونا + ہیں۔
یہ اس incubation period میں تھے کہ چیک ہو گئے۔ ان ساری معلومات کا مقصد
آپ کو یہ یقین دلانا ہے کہ اگر آپ اب تک کرونا میں مبتلا نہیں بھی ہیں پھر
بھی آپ خود کو اور دوسروں کو بچائیں. آپ میں سے کوئی بھی وائرس کا کیرئیر
ہوسکتا ہے مگر وائرس انکیوبیشن پیریڈ میں ہونے کے باعث علامات ظاہر نہیں کر
رہا ۔ خطرے کی بات یہ ہے کہ کورونا کش ادویات ابھی مارکیٹ میں نہیں احتیاط
ہی آخری اعلاج ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ جو صحت یاب ہوگئے ہیں یہ کیسے ممکن
ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اپنے جسم کے مدافعتی نظام کے باعث ہورہے
ہیں. مدافعتی نظام یا امیون سسٹم بیماری پیدا کرنے والے جراثیموں کے خلاف
ہمارے جسم کا ایک قدرتی حفاظتی نظام ہے. جو ہائی جیک ہونے سے پہلے آخری حد
تک مقابلہ کرتا ہے۔اور یہی قدرتی حفاظتی نظام ہی لوگوں کو کرونا سے محفوظ
کر رہا ہے۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے ابھی ہم خطرے میں ہیں اسلئے احتیاط میں
ہی عافیت ہے ذرا تصورکی آنکھ سے دیکھئے ماضی کا خوف وہراس کیا یہ قیامت سے
کچھ کم تھا؟ان ساری باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں اس عالمی وبا ء کے
خلاف کھڑے ہوکر خود کو بچانا ہے. اپنے اہل خانہ کو بچانا ہے. اپنے ملک کو
بچانا ہے. اور تمام نسل انسانی کو اس بحران سے نجات دلانی ہے ابھی احتیاط
کریں زیادہ سے زیادہ اپنے گھروں میں قیام کریں اپنے ہاتھوں کو دھوتے رہیں.
مصافحے اور معانقے سے پرہیز کریں. پرہجوم جگہوں سے دور رہیں. سیر سپاٹے ترک
کریں کہیں کرونا پھر نہ لوٹ آئے ۔ |