عالیہ ایک بہت ہی مغرور،اور
گھمنڈی قسم کی لڑکی تھی؛ لیکن جب اس کے باپ کا انتقال ہوگیا تو اس پر اس کا
بڑا گہرا اَثر پڑا۔وہ ہمیشہ اپنے باغ میں تن تنہا کھیلا کرتی تھی، محلے کی
کسی لڑکی سے اس کا کوئی ربط ضبط نہیں تھا حتیٰ کہ بغل کے گھر والی بدریہ سے
بھی وہ بات چیت نہیں کرتی تھی۔بدریہ کا قصور یہ تھا کہ وہ غریب گھر میں
پیدا ہوئی تھی۔
ایک دن بدریہ دوڑتی ہوئی عالیہ کے باغ میں آئی اور کہنے لگی: عالیہ ! میرے
والد سخت بیمار ہیں، کسی لمحے ان کا دم نکل سکتا ہے۔ نہ معلوم کیوں وہ اس
عالم میں تم سے ملنا چاہتے ہیں۔وہ تم سے کوئی اہم وصیت کرنا چاہتے ہیں۔
عالیہ نے وہی اپنے پرانے مغرورانہ انداز میں کہا : تمہارے باپ کی طرح مفلس
آدمی سے کیا کسی اہم بات کی توقع رکھی جاسکتی ہے!۔اور پھر تمہارے گھر سے
ایسی بدبو پھوٹتی ہے کہ کوئی عزت دار انسان اس کے قریب بھی نہیں جانا چاہے
گا۔
بدریہ نااُمید ہوکر چلی گئی مگر تھوڑی ہی دیر کے بعد پھر بھیگی پلکوں کے
ساتھ آئی اور آکر کہنے لگی :میرے والد واقعتاً کوئی اہم بات تم سے کہنا
چاہتے ہیں۔اصل میں تمہارے باپ نے اپنی موت سے تھوڑی دیر قبل کچھ سونا کہیں
دفن کردیا تھا اور اس راز کی خبر میرے والد کے علاوہ کسی کو نہیں ہے۔تمہارے
باپ نے میرے والد سے کہا تھا کہ عالیہ جب تک بڑی نہ ہوجائے اس وقت تک اس سے
یہ راز نہیں بتانا، لیکن چوں کہ اب ان کے چل چلاؤ کا وقت آگیا ہے تو وہ
چاہتے ہیں کہ تم کو اس سے آگاہ کردیں۔ برائے کرم جلدی کرو۔
بدریہ کی بات سن کر عالیہ دوڑ پڑی؛ مگر بہت دیر ہوچکی تھی اور وہ مفلس آدمی
موت کی آغوش میں سو چکا تھا۔عالیہ کو اپنی حرکت پر بہت غصہ آیا اور وہ خود
کو کوس رہی تھی۔
پیارے بچوں! عالیہ نے کیا صرف سونا ہی کھویا، نہیں بلکہ اس نے اپنے غرور و
گھمنڈ کی پرانی عادت کی وجہ سے جنت پانے کا موقع بھی گنوا دیا۔ پیارے آقا
صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنا اچھا پیغام اُمتیوں کو دیا ہے : ’’وہ جنت میں
نہیں جاسکتا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی گھمنڈ ہو‘‘۔
لاَ یَدْخُلُ الجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِنْ
کِبْرٍ
(صحیح مسلم:۱؍۲۴۷ حدیث: ۱۳۱) |