حضرت عیسی ٰکی پیدائش سے تین چارصدیاں پہلے یونان کی
زرخیز سرزمین نے جن عظیم لوگوں کو جنم دیا ان میں علم الحیوانات کا بانی
ارسطو ایک نمایاں حیثیت کا حامل ہے ۔ ارسطو کا شمار دنیا کے چھ بہترین
فلسفیوں میں ہوتا ہے۔ارسطو نے تعلیم ایتھنز میں سقراط کے شاگرد افلاطون کی
اکیڈمی میں حاصل کی۔ افلاطون کی وفات کے بعد یہ اس کی اکیڈمی کی وراثت کا
دعویدار تھا مگر افلاطون کے بھتیجے سے شکست کھا کر مقدونیہ واپس چلا
گیا۔وہیں اس نے دنیا کا پہلا شفاخانہ حیوانات قائم کیا۔کہتے ہیں سقراط نے
دنیا کو فلسفہ دیا اور ارسطو نے سائنس۔ سقراط سے پہلے فلسفہ موجود تھا اور
ارسطو سے پہلے سائنس۔ ان لوگوں نے ان علوم کو وہ جلا بخشی کہ سقراط کے بعد
فلسفے اور ارسطو کے بعد سائنس نے بے حساب ترقی کی۔ان سے پہلے گویا یہ
مضامین شکم مادر میں تھے مگر ان کی کاوشوں نے انہیں ایک خوبصورت جنم دیا۔
ارسطو سکندر اعظم کا استاد بھی تھا۔323 ق۔م میں سکندر اعظم کی نا گہانی
وفات ہو گئی۔ مقدونیہ والوں کا اقتدار ختم ہو گیا۔ایتھنز والوں نے بغاوت
کرکے آزادی کا اعلان کر دیا۔ارسطو پر بھی الزامات لگے۔ اس نے محسوس کیا کہ
اس کا مقدمہ سننے والے لوگ سقراط کے مخالفوں سے بھی بڑھ کر اس کے مخالف ہیں
۔ اس وقت کے مروجہ قانون میں اجازت تھی کہ ملزم یا تو عدالت کا سامنا کرے
یا خود ہی جلا وطن ہو جائے ، تو اس نے یہ کہتے ہوئے کہ وہ ایتھنز کے شہریوں
کو یہ موقع نہیں دے گا کہ وہ فلسفے پر دوبارہ ظلم ڈھائیں، شہر چھوڑ دیا۔ اس
سے کچھ عرصہ بعد یہ بوڑھا فلسفی انتہائی مایوسی کی حالت میں بیمار ہو کر 65
برس کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اس کی رخصتی کے ساتھ ہی یونان کا
جاہ وجلال بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زوال پذیر ہو گیااور روم کی ابھرتی ہوئی
قوت نے یونان کی ہر چیز تہس نہس کر دی۔
گو اس عظیم فلسفی او ر سائنسدان کو ہم سے بچھڑے آ ج 23 سے زیادہ صدیاں گزر
گئیں مگر اپنے فلسفے،اپنے نظریات، اپنی تحقیق، اپنی خدمات ، اپنی منطق اور
اپنے علم کی بنا پر وہ آج بھی زندہ ہے۔ اس کی تحریریں بنی نوح انسان کے لئے
کل بھی منبع علم و عرفان تھیں اور آج بھی ہیں۔ان تحریروں کی خوشبو اور ان
کی مہک کو کبھی بھی زوال نہیں ۔ ہر عظیم فلسفی کی طرح ارسطو بھی حکومت کے
لئے اہل دانش کی بات کرتا اور فقط تعلیم یافتہ لوگوں کو چناؤ کا حق دیتا
ہے۔ میں جب حکمرانوں کی پھرتیوں کو دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ اس کی
تحریریں آج کے حالات میں بھی مینارہ نور ہیں۔ ارسطو نے کہا ہے،’’ معمولی
باتوں کے لئے قوانین میں تغیر اور تبدل کرنافساد کا باعث ہوتا ہے اور جب
تغیر سے فائدہ بہت کم ہوتو مناسب یہ ہے کہ قانون یا فرمانروا میں جو نقائص
ہیں،اس سلسلے میں فلسفیانہ تحمل سے کام لیا جائے ۔پرانے قوانین کی جگہ نئے
قوانین نافد کرنا ، قانون کی بنیاد کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
’’ اشتراکی نظام میں اعلیٰ قابلیتوں کے اظہار کے موزوں محرکات موجود نہیں۔
آدمی جی لگا کر تبھی کام کرے گا کہ ذاتی فائدہ حاصل ہو۔ ملکیت کا محرک صنعت
و حرفت، کاشتکاری اور تحفظ کے لئے ضروری ہے۔ جب کوئی چیز کسی ایک کی نہیں
سب کی ملکیت ہو گی۔ تو کوئی شخص بھی اس کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے گا۔
جو چیز بہت سے آدمیوں میں مشترک ہو، اس کی پرواہ کوئی نہیں کرتا۔ذاتی مفاد
کا خیال سب رکھتے ہیں ، قومی مفاد کا کوئی بھی نہیں۔‘‘
’’ سیاسیات انسان تخلیق نہیں کرتی،بلکہ جیسے لوگ ہوں ان ہی سے کام لیتی ہے۔
زیادہ تر انسانوں کی فطرت دیوتاؤں کی نسبت حیوانوں سے زیادہ قریب ہوتی
ہے۔یہ زیادہ لوگ احمق اور کاہل ہوتے ہیں۔ نظام کوئی بھی ہو ان لوگوں کو
ڈوبنا ہوتا ہے اور یہ ڈوب کر رہتے ہیں۔ان پر حکومت کی زیادہ محنت اک سعی لا
حاصل ہوتی ہے۔ولادت کے وقت ہی سے کچھ لوگ حکومت کے لئے اور کچھ محکومیت کے
لئے موضوع ہوتے ہیں‘‘۔
’’ باہمی استفادے کی سب سے شرمناک صورت سود خوری ہے، جو روپے کے قدرتی
استعمال سے نہیں بلکہ محض روپے کے وجود سے فائدہ اٹھاتی ہے۔روپے کا مقصد یہ
ہے کہ تبادلے کا آلہ بن جائے نہ کہ سود کا ماخذ قرار پائے۔یہ سود خوری نفع
اندوزی کی بد ترین شکل ہے۔ روپے کو کسی بھی صورت جننے کی اجازت نہیں دینا
چائیے۔مال کمانے کے نظریہ کو پیش کرنے سے فلسفے کو عار نہیں لیکن ہروقت
روپیہ کمانے میں مشغول ہونایا ساہوکارے میں مصروف رہنا انسان کے شان شایان
نہیں۔‘‘
’’موروثی اشرافیہ میں یہ نقص ہے کہ اس کی معاشی بنیاد پائدار نہیں ہوتی۔۔
یہ جو نو دولتئے گویا ازل سے چلے آئے ہیں ان کی بدولت سیاسی منصب یا عہدے
سب سے بڑھ کر بولی دینے والے حاصل کر لیتے ہیں۔بے شک یہ بری بات ہے کہ کہ
مملکت کے جلیل القدر عہدے اور منصب خرید لئے جائیں۔جو قانون اس فساد کو
جائز رکھتا ہے وہ گویا دولت کو لیاقت پر ترجیح دیتا ہے یوں ساری مملکت ہی
بندگان حرص وہوا پر مشتمل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ کسی مملکت کے منصب دار جب کسی
چیز کو قابل تعظیم تصور کرتے ہیں تو عام لوگ ان کی نقالی کرتے ہیں۔‘‘
سوچتا ہوں کہ ارسطو کی یہ اور ایسی بے بہا سب باتیں 23 سو سال گزرنے کے بعد
بھی ویسی ہی ہیں جیسے کچھ نہ بدلا ہو۔کچھ انسان اسی طرح حریص اور خود غرض
بھی ہیں، کچھ اسی طرح محکوم اور بے بس ، لاچار بھی ہیں افراد بدلے ہیں فطرت
میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
|