نیلا آکاش سر مئی سیاہ گھنے بادلوں سے ڈھکاہوا تھا بادلوں
کے آوارہ مست غول تیز ہواؤں کے دوش پر ادھر اُدھر مستیاں کر تے دھمال ڈالتے
نظر آرہے تھے جولائی اگست کی تیز گرمی حبس کے بعد جب انسانوں چرند پرند
جانوروں کھیتوں فصلوں درختوں کا گرمی اور حبس سے برا حال ہو کر صبر کا
پیمانہ لبریز ہو نے لگا تو قدرت کو رحم آیا رات سے ہی آسمان بادلوں سے ڈھک
گیا تھا نماز فجر کے بعد تیز بارش سے ہوا میں تپش اور حبس ختم ہو گئی تھی
اب خوشگوار ٹھنڈے جھونکوں کے ساتھ بارش کی ننھی منی بوندوں والی پھوار سے
تھوڑے تھوڑے وقفے سے برسنا شروع ہو جاتی خوشگوار تیز ٹھنڈے ہوا کے جھونکوں
میں صبح کی بارش کی وجہ سے غبارمٹی نہیں تھی بلکہ صاف ہوا درختوں پھولوں
فصلوں کی مہک کے ساتھ انسانوں کے مستام جان کو تازگی فرحت آسودگی راحت بلکہ
مدہوش کیف آور احساس بخش رہی تھی آسمان پر بادلوں کے آوارہ غول بارش کے بعد
ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے پتہ نہیں اِن میں کیا ہوتا ہے کہ جیسے ہی آسمان
بادلوں سے بھر جاتا ہے تیز ہواؤں کے دوش پر جب درخت مست ہاتھیوں کی طرح
جھومتے ہیں ایسے موسم میں ہر انسان کے قلب و روح دماغ جسم پر ایک کیف آور
سرور آور نشہ سہ طاری ہو جاتا ہے محبوب کو محبوب کی یاد شدت سے آتی ہے پھر
انسان کھلے آسمان کے نیچے آکر خود کو اِن مدہوش خوشگوار شبنمی پھوار والے
جھونکوں کے حوالے کر کے آنکھیں بند کر کے خود کو اِس مدہوش مست دل نشین اثر
آفرین کیف و نشاط کے جھولے کے حوالے کر کے اِس دنیا سے رابطہ منقطع کر دیتا
ہے پھر ٹھنڈے خوشگوار جھونکے انسان کے رگ و پے کو نشیلے مشروب کا نشہ عطا
کر کے ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہیں اِیسے موسم میں اگر انسان لہلاتے
کھیتوں کسی باغ پارک میں ہو تو حسن اور نشہ دو آتشہ ہو جاتا ہے میں اپنے
حجرے کے دروازے اور کھڑکی کھول کر آسمان پر رقص کر تے بادلوں اور شبنمی
پھوار والے تیز ہوا کے جھونکوں کو کھڑکی کے پاس بیٹھا جسم و روح کو سرور
مستی کے جام پلا رہا تھا ایسا موسم جب بھی آتا ہے تو مجھے مری میں گزارے
بارہ سال یاد آجاتے ہیں جہاں موسم گرما میں روز ہی ایسا دل بہار مسحور کن
موسم جب بادلوں کے غول آپ کے جسموں کو چھو کر پھوار سی ڈال کر آگے گزر جاتے
تھے میں اِس موسم کو تازہ رسیلے لذیز قدرتی میٹھے آلو بخاروں کے ساتھ
انجوائے کر رہا تھا اِس طرح میرا دماغ اعصاب روح موسم کی خوشگوار یت کو
انجوائے کر رہے تھے اور میں رس سے بھرے پکے تازہ آلوبخاروں سے جسم کو لذت و
سرور کی شیرینی سے متعارف کر ا رہا تھا ایسا موسم بنجر سے بنجر انسان کو
بھی زندگی کے خوشگوار رنگوں کا احساس دلاتا ہے فطرت قدرتکے قدرتی مناظر
موسم کی خوشگواریت ٹھنڈی ٹھنڈی شبنمی پھوار آبشار سے گرتے پانی کی نمی اور
جھرنوں کی آواز چاروں طرف چاندی کی نقرئی گھنٹیوں کے بجنے کا احساس اﷲ تیرے
نظارے سبحان اﷲ بڑے سے بڑا ملحد بھی اِس کائنات کے عظیم خالق کے بارے میں
سوچھنے پر مجبور ہو جاتا ہے میں خد ا اور اُس کے بارش کے مدہوش ہوا کے
جھونکوں نیلے افق پر بادلوں کے آوارہ غول آسمان سے برستی سفید موتیون کی
پانی کی دھاریاں خدا بھی عظیم اُس کے نظارے بھی عجیب میں کتنی دیر سے اِس
موسم کی دلربائی اور بادلوں کی مستیاں انجوائے کر رہا تھا کہ میرے گیٹ پر
ایک جہازی جیپ آکر رکی جیپ کو دیکھ کر میرا موسم کو انجوائے کر نے کا عمل
تعطل کا شکار ہو گیا میں موسم کو چھوڑ کہ جیپ کہ اندر بیٹھے شخص کا انتظار
کر نے لگا کہ اِس خوشگوار ترین موسم کو غارت کرنے کون آیا ہے ساتھ ہی مجھے
یہ بھی احساس تھا کہ اب موسم انجوائے کر نے کا ہنی مون ختم آنے والے سے
ملاقات اُس کے مسائل سننا پڑے گی اِسی دوران فرنٹ دروازہ کھلا تو بوسکی کے
سوٹ ساتھ میں سنہری راڈو گھڑی گلے میں سونے کا لاکٹ پاؤں میں سنہرا ریشمی
کھُسہ ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ اٹھا ئے ایک پچاس سالا شخص برآمد ہوا اور ڈور
بیل پر ہاتھ رکھ دیا میں نے آنے والے کو غور سے دیکھا تو پہچان گیا ملک
صاحب گوجرانوالا سے آگے سیالکوٹ روڈ پر گاؤں جہاں پر اِن کا اینٹ کا بھٹوں
اور چاولوں کی فیکٹری کا کام ہے یہ عید سے پہلے میرے کسی دوست کے ساتھ آئے
آج دوسری بار پھر پتہ نہیں کیوں آئے تھے میں تیزی سے حجرہ سے نکل کر نیچے
دروازے کی طرف بڑھا کیونکہ میں جانتا تھا یہ گاؤں سے آئے ہیں ہر صورت مل کر
ہی جائیں گے میں نے جاکر دروازہ کھولا تو ملک صاحب مجھے دیکھتے ہی پر جوش
انداز میں گلے ملنے کے بازو پھیلا دیے انہوں نے گرم جوشی سے مجھے جپھی ڈالی
اپنے ڈرائیور سے کہا پروفیسر صاحب کے لیے ہم جو خاص چاول لے کر آئے ہیں وہ
توڑا نکال کر اندر رکھو اور پھر اندر کی طرف بڑھتے ہو ئے بولے پروفیسر صاحب
چائے کا آرڈر دو جی آپ کے لیے خاص طور پر خالص لال کھوئے کی الائچی
بادواموں والی برفی اپنی نظروں کے سامنے بنوا کر لایاہوں آپ کے ساتھ چائے
برفی اور گپ شپ کا خوب مزا آئے گا اب جناب آپ سے دوستی ہو گئی اب میں آپ کے
پاس آتا جاتا رہوں گا مجھے اچھے لوگوں کے ساتھ تعلقات بنانے کا بہت شوق ہے
زندگی چار دن کی ہے اِس کو خوب انجوائے کر نا چاہیے ملک صاحب سے عطر کی
خوشبوؤں کے بھبھوکے اٹھ رہے تھے اپنی بھاری اوپر کی مڑی ہو ئی نوک دار
مونچھوں پر انہوں نے کوئی خاص تیل یا عطر وغیرہ لگایا ہوا تھاجب وہ چل کر
اندر آرہے تھے تواُن کے پاؤں میں طلائی تاروں سے بنا ہوا کھُسہ جس کی نوکیں
اوپر سے نیچے کو مڑی ہو ئی تھیں ملک صاحب کے چلنے سے کھُسے سے چر ر چرر کی
آوازیں نکل رہی تھیں ملک صاحب کا چھ فٹ سے نکلتا قد گندمی سرخ رنگ انگ انگ
سے طاقت کا اظہار ہاگھ میں سنہری راڈو گھڑی گلے میں اﷲ کا سنہرا سونے کا
لاکٹ پاؤں میں مہنگا خاص طور پر بنوایا ہوا ریشمی کھسہ جب وہ چلتے تو اُس
سے چرر چرر کی آواز مد مقابل کو متاثر کر دیتی چہرے کے رنگ اور حرکات سے
پتہ چل رہا تھا کہ دودھ مکھن دہی دیسی گھی کے ساتھ ملک صاحب اپنی خوراک کا
خاص خیال رکھتے ہیں ملک صاحب کیچہرے کے تاثرات اور جسمانی حرکات سے پتہ چل
رہا تھا کہ وہ پنجاب کے زرخیز دھرتی کے گھبروجوان ہیں جوانی اب گزر چکی تھی
لیکن وہ اپنے جسم کا خیال کر کے جوانی کے رنگوں شباب کو روکنے کی کامیاب کو
شش کر رہے تھے اُن کے چہرے کا رنگ حرکات سکنات آواز چلنے کے انداز سے اچھی
طرح احساس ہو رہا تھا کہ اُن کامیٹا بولزم ایمیون سسٹم اچھی طرح کام کر رہا
ہے اُن کی مونچھوں اور جلد کا رنگ بتا رہاتھا کہ اُن کے جسم میں چربی کے
وافر ذخائر موجود ہیں جن کے بل بوتے پر وہ جوانوں جیسی چال چل رہے تھے پہلی
نظر میں ان کو کوئی بھی دیکھتا تو متاثر ہوئے بغیرنہ رہ سکتا اپنی قابل رشک
صحت کے ساتھ انہوں نے ظاہری لباس پر بھی خصوصی توجہ دی تھی اِسی لیے بھر
پور شخصیت کا اور بتا کے وہ چلتے ہو ئے بلکہ کھُسے کی آواز نکالنے نکالتے
میرے کمرے میں آکر بیٹھ گئے برفی کا ڈبہ شاپر سے نکال کر اُس کو کھول کر
برفی کا لذیز ٹکڑا اٹھا کر میری طرف بڑھایا اور بولے پروفیسر صاحب آپ کے
پاس اُس دن آیا تھا آپ کے مشورے پر عمل کیا تو یقین جانیں زندگی میں پہلی
بار عید کا اصل مزا آیا میں نے زندگی میں بچپن سے بڑی عیدیں کی ہیں لیکن جو
سکون خوشی اِس عید پر آیا زندگی میں کبھی نہیں آیا میں آج آپ کے پاس صرف
شکریہ ادا کر نے آیا ہوں ۔(جاری ہے )
|