’’ہر فردپر اس معاشرے کی طرف سے ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی
ہیں،جس میں رہ کر ہی اس کی شخصیت کی آزادانہ و مکمل نشو نما ممکن ہے،اپنے
حقوق اور آزادیوں کے سلسلے میں ہر شخص صرف قانون کی عائد کردہ پابندیوں کے
دائرہ میں رہے گا،جن کا مقصد دوسروں کے حقوق اور آزادیوں کے احترام کو
یقینی بنانا ہے، ان حقوق اور آزادیوں کو اقوام متحدہ کے اصولوں کے منافی
استعمال نہیں کیا جاسکے گا۔‘‘
یہ شق نمبر29ہے جو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے منشور میں شامل ہے۔ 10
دسمبر 1948ء اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کا تیس نکاتی منشور
منظور کیا تھا،جس کی شق نمبر 29 میں انسانی حقوق و آزادی کے احترام کو
یقینی بنانے کا مفصل ذکر کیا گیااور اس میں یہ بھی لکھا گیا کہ اگر کسی نے
جبراََ کسی کی آزادی سلب کی ،یا پھر اس منشور کے خلاف کھڑا ہوا تو جنرل
اسمبلی اس کا مواخذہ کرے گی۔
مگر اقوام متحدہ کے منشور کا یہ بناوٹی بُت اور اس کے پجاری ایک سال سے
کشمیر یوں پر قابض بھارتی فوج کی درندگی،مودی سرکار کی عالمی قوانین کی
دھجیاں اڑانے پہ آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔گزرے ستربرسوں میں آج تک اقوام
متحدہ کے لمبے چوڑے ہاتھ بھارت کے گریبان تک نہیں پہنچ سکے ۔ بھارت سات
عشروں سے لاکھوں کشمیریوں پر ظلم و تشدد کررہا ہے اوراقوام متحدہ و سلامتی
کونسل کے اجلاسوں میں ایک سال سے جبری لاک ڈاؤن میں بند ہزاروں کشمیریوں کا
مقدمہ مذمتی بیانات سے آگے نہیں سرک سکا۔ وادی کشمیر گزشتہ ایک سال سے مکمل
کھلی جیل بنی ہوئی ہے۔کشمیری بزرگوں نے مہینوں سے کھلی فضا میں سانس نہیں
لی۔ ماؤں سے ان کے جگر گوشے چھینے گئے،بہنوں کی ردائیں تار تار کی گئیں،
بچوں پر جسمانی تشدد کے ساتھ ہر طرح کی اذیت روا رکھی گئی۔ انٹرنیٹ کی
بندش،سوشل میڈیا پر پابندیاں لگائی گئیں۔مودی سرکارنے ذرائع ابلاغ پر قانون
سازی کرکے ایسے لوگوں پرجھوٹے مقدمے چلائے اورانہیں ہراساں کیا ،جنہوں نے
کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر بھارتی پالیسیوں پر تنقید کی تھی۔ ان
میں کئی کشمیری صحافی بھی شامل ہیں جو بھارت کے بزدلانہ رویے کا سامنا کر
چکے ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے مئی 2019 میں بھاری اکثریت سے انتخابات جیتے اور
مودی دوسری بار ملک کے وزریر اعظم بن گیے ۔ اس کے بعدپلوامہ میں قابض
بھارتی فوج کے ایک کانوائے پرایک کشمیری نوجوان نے حملہ کیا جس میں40
بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ریاستی طاقت کا
استعمال شروع کیا اور انسانی استحصال کاخونیں منظر نامہ دیکھنے میں آیا ۔
صرف مقبوضہ وادی میں لاکھوں مسلمان کشمیر یوں پر مودی سرکار کی جانب سے کڑی
پابندیاں لگائی گئیں،بلکہ پورے بھار ت کے اقلیتی ریاستوں ،خاص طور پر مسلم
اکثریتی علاقوں میں رہنے والے شہریوں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جانے
لگا۔ ان کے سر پہ شہریت کے قانون کا ہتھوڑا رکھ کران کے شہری حقوق غصب کرنے
کے ساتھ ساتھ ان کے دیگر مسلمہ انسانی حقوق کو بھی پامال کیا گیا۔
اسی طرح کشمیر میں 5 اگست 2019 کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی
اور اس وادی کوجبراََ اپنے ساتھ ملا لیا۔ جس کے ایک سال مکمل ہونے کے بعد
5اگست2020ہی کے دن پاکستان کی خواہش پر سلامتی کونسل کا بند کمرہ اجلاس
بلایا گیا۔ جس میں اقوام متحدہ کے نمائندگان نے بھارتی اقدامات کی سخت
الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے بھارت سے جواب طلب کیا ہے۔ پاکستان کی کوششوں سے
آرٹیکل370 اور 35اے کے خاتمے کے بعد مسئلہ کشمیر اب پوری طرح دنیا کے سامنے
واضح ہو چکا ہے ۔ اور عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ بات زوروشور سے اٹھ رہی ہے
کہ جب مسئلہ کشمیر 70 سالوں سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے، تو پھر
بھارت کا ایک ہندو مہاراجہ کی من گھڑت دستاویز کو جواز بنا کرمقبوضہ جموں
وکشمیر کے مسلم اکثریتی علاقے پر قبضہ جائز نہیں۔ سلامتی کونسل کا اجلاس جو
پاکستان کی درخواست پر بلایا گیا، جس میں چین کی معاونت خاص شامل تھی اور
یہ ایک برس میں کشمیر ایشو پرسلامتی کونسل کا چوتھا اجلاس تھا۔یہ پاکستان
کی ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ جینوا میں ہوئے سلامتی کونسل کے اس اجلاس
میں اقوام متحدہ کے نمائندوں نے بھارتی مندوب سے سخت سوالات کیے اور اسی
مدعا کو اٹھایاکہ بھارت کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہے۔
بھارت سرکار نے قانون سازی کرکے فوج کو خصوصی اختیارات دیے ہیں۔ملک کے اندر
بھی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کرنے والے فوجیوں کو استثناء دے دیا
گیا ہے کہ وہ جس طرح چاہیں اپنی من مانیاں کریں۔ یہ انسانی حقوق سے متعلق
اقوام متحدہ کے منشور اور بین الاقوامی قوانین کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف
ہے۔اس سے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں متاثر ہورہی ہیں۔یہ قانون کشمیر سمیت
شمال مشرقی بھارت میں نافذ ہے، جس کی وجہ سے ریاست اترپردیش میں قانون نافذ
کرنے والے اداروں نے اب تک اس قانون کی آڑ میں77 افراد کو قتل اور1100 کو
شدید زخمی کیاہے۔ یہ کالا قانون فرد کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کی
خلاف ورزی پر مبنی ہے،جسے بھارت اپنے داخلی سلامتی پروگرام کا حصہ قرار دے
رہا ہے۔ در حقیقت اس کی آڑ میں بھارت کی مودی سرکار ملک میں شخصی آزادیوں
اور انسانی حقوق کا گلا گھونٹ کر جمہوریت کی جڑوں کو کاٹنے کے لیے کمر بستہ
ہے۔
کشمیر یوں کا مقدمہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھلی کتاب کی طرح پڑا
عالمی نظام انصاف سے داد رسی کا طالب ہے ۔ انسانی حقوق کایہ ذمہ دارادارہ
اتنا تو کر سکتا ہے کہ کشمیریوں کی خود مختاری تک ان کے جائز شہری وانسانی
حقوق کو بحال کروائے ، ریاستی طاقت کے ناجائراستعمال کورکوائے اور بھارت کو
اپنے فاشسٹ قوانین واپس لینے پر مجبور کرے۔ اقوام متحدہ کے جسم میں اتنی تو
جان باقی ہوگی کہ وہ کشمیریوں کے حقوق اور آزادی کے احترام کی بات
کرسکے۔باقی رہی بات مقبوضہ وادی کشمیر سے بھارت کے جبری قبضے کے ختم ہونے
کی، تو اقوام متحدہ سے تو اس کی توقع نہیں رکھی جاسکتی تاہم کشمیر کی
موجودہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے دن بھی دور نہیں جب کشمیریوں کی
جدوجہد رنگ لائے گی اور بھارتی قابض فوج کا آخری فوجی ٹرک کشمیر سے نکلتا
ہوا نظر آئے گا۔
|