آزادی کی قدر و قیمت غلام قوموں سے معلوم کریں

اگست کا مہینہ ایک خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے کا مہینہ ہے جب مسلمانوں نے طویل جدوجہد اور قربانیوں سے اپنے لئے ایک آزاد وطن حاصل کیا۔یہ ماہ پاکستان اور بھارت کے لئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔اس ماہ دونوں ممالک اپنا اپنا یوم آزادی مناتے ہیں جسے پاکستان میں یوم استقلال بھی کہا جاتا ہے۔ 73سال قبل اسی ماہ کے وسط میں دونوں ممالک نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی اور دنیا کے نقشے پرآزاد و خودمختار ممالک کے طور پر نمودار ہوئے۔ دونوں ممالک برٹش پارلیمنٹ کے 18جولائی 1947ء کے انڈین انڈی پینڈنس ایکٹ کے تحت آزاد ہوئے اور دونوں کو 14اگست 1947ء کو آزاد ہونا تھا۔ کانگریسی انتہا پسندی یہ جشن پاکستان کے ساتھ منانا تک گوارا نہ کر سکی اور اسے ایک دن کی تاخیر کی نذر کر دیا گیا۔پاکستان کے لئے انگریزوں کے ساتھ ساتھ کانگریسی انتہا پسند ہندؤں سے بھی آزادی کی جنگ لڑنا پڑی۔ اگست کی 14 تاریخ کو پاکستان ایک آزاد وخود مختار ملک بن گیا ۔ پنجاب کے یونینسٹ اور سرحد کے خدائی خدمت گار کانگریس کی حمایت اور پاکستان کی مخالفت کے باوجود ناکام ہوئے۔ہم یہاں جشن کے مواقع پر تعطیل کرتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے قائد نیلسن منڈیلا کی سالگرہ کے موقع پرتعطیل کے بجائے اضافی محنت و مشقت کی جاتی ہے۔یہ ایک مشعل راہ ہے ۔ تاریخ سے سبق سیکھنے کا عمل اور قوموں کے مثبت امور عملانے کی جانب توجہ تعلیم یافتہ اور سوجھ بوجھ کے حامل معاشروں کا طرہ امتیاز ہوتا ہے۔غیر ترقی یافتہ اور نیم خواندہ قومیں پیامبر کوٹھکانے لگانے میں ہی بھلائی و عافیت سمجھتی ہیں۔جان و مال اور عزتوں کی قربانیاں دے کر آزادی حاصل کرنے والوں کی زمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔ پاکستان کو حاصل کرنے میں لاکھوں افراد نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔قیام پاکستان کے وقت تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت ہوئی۔پاکستان میں 1951ء کو کئے گئے پہلے سروے میں چشم کشا حقائق سامنے آئے کہ ڈیڑھ کروڑ افراد نے ہجرت کی۔80لاکھ مسلمان پاکستان آئے اور 60لاکھ ہندو پاکستان سے بھارت گئے۔اس دوران مختلف واقعات میں 10لاکھ لوگ مارے گئے۔50ہزار مسلم خواتین کو اغوا کیا گیا۔ ہندوانتہاپسندوں نے برصغیر کی تقسیم کے وقت مختلف قافلوں میں پاک سر زمین پر قدم رکھنے کے آرزو مند مسلمانوں کو بڑی بے دردی سے شہید کیا۔بزرگوں ،بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں جوان عورتوں اور کم سن بچیوں کو اغوا کرنے کے افسوسناک سانحات پیش آئے ،آج 73 برس گزرنے کے باوجودان گمشدگان کی تلاش جاری ہے ۔پاکستان ہجرت کرنے والے ہزاروں خاندانوں کے ساتھ دردناک سانحات پیش آئے ۔ ان کے لواحقین پر کیاگزری ؟ اس دکھ ودردکو محسوس کرنا انتہا ئی مشکل ہے۔ ہندوانتہاپسندوں نے مسلمان شیر خوار بچوں کوتلواروں،کرپانوں ،سلاخوں اور برچھیوں پر اچھالا ۔مسلمانوں کے گھروں،املاک و باغات کو آگ لگادی ۔ بستیاں اور بازار راکھ بنادئیے گئے ۔جائیدادوں پر قبضہ جمالیاگیا ،جو قافلے پاکستان کے لئے روانہ ہوئے ان کو جگہ جگہ لوٹاگیا اور گاڑیوں کو آگ لگادی گئی۔لاتعداد لوگ زندہ جل گئے۔عفت مآب خواتین کی حرمت کو پامال کیا گیا ۔مسلمانوں کا اجتماعی قتل عام ہوا ۔جو مسلمان بھارت میں رہ گئے انہیں مشکوک، غداراور پاکستان کے ایجنٹ مسلمان کہا گیا ۔ بھارت میں انتہا پسندوں کا آج بھی یہ نعرہ ہے ’’ہندو کا ہندوستان، مسلمان کا قبرستان‘‘۔ برصغیر کے مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر تقسیم ہوئی اور ہندو متحد ہو گئے۔ جنوبی ایشیا میں تقسیم کے منفی اور مثبت اثرات مرتب ہوئے۔آج بھارت میں مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کے الزامات لگا کر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بی جے پی حکومت نے حد کر دی ہے۔نریندر مودی کا دوسرا دور اقتدار زحمت بن کر شروع ہوا ہے۔نئے شہریت قوانین متعارف کئے گئے ہیں۔ مسلمان اب دوسرے درجے کے شہری ہیں۔
آج پاکستان اور بھارت ایک بار پھر اپنی آزادی کی سالگرہ منارہے ہیں ۔دشمنان اسلام کی برھتی ہوئی سازشوں سے پاکستان کو متعدد چیلنجز کا سامناہے۔وزیراعظم عمران خان کی صدر ٹرمپ سے ملاقات اور اس میں امریکہ کی مسلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کے بعد مودی حکومت نے کشمیر کی رہی سہی خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے۔فوج سمیت بھارتی شہری کشمیرکی زمین وجائیداد پر قابض ہو رہے ہیں۔آج پاکستان میں سبزہلالی پرچم لہرارہے ہیں ۔کشمیریوں کے خون سے چراغاں بھارت میں جشن ہے ۔کشمیریوں پر اس ماہ بھارتی فورسز مظالم کے پہاڑ توڑ دیتے ہیں۔فوجی بھارتی ترنگا جھنڈیاں تقسیم کرتے ہیں ۔ انہیں گھروں ،گاڑیوں اور دکانوں پر لہرانے کے احکامات ملتے ہیں ۔ اگست کی آمد پرپوری وادی کشمیر میں غیراعلانیہ کرفیو نافذ کردیاجاتا ہے ۔15 اگست کو سب سے بڑی تقریب سرینگر کے بخشی سٹیڈیم میں ہوتی ہے۔ اس سٹیڈیم کے گردونواح میں مہاراج گنج،ستھراشاہی ،بٹہ مالو،رام باغ ،گوگجی باغ ،لال منڈی ،راج باغ اور دیگر بستیوں سے لوگ بھارتی فورسز کے مظالم کے باعث ہجرت کرجاتے ہیں۔ رہائشی گھروں پر بھارتی فوجی چوکیاں قائم کی جاتی ہیں ۔یہاں تک کہ اقبال پارک اور بچوں کے لعل دیدہسپتال میں بھارتی فورسز داخل ہو جاتی ہیں۔بچوں کے اس ہسپتال پر بھی بھارتی فوجی بنکر بنا کرمریضوں کو ہراساں کرتے ہیں ۔پوری وادی کی سڑکوں پر جگہ جگہ کریک ڈاؤن ہوتے ہیں۔لوگوں کی تلاشیاں لی جاتی ہیں ۔بستیوں کے تلاشی آپریشن کئے جاتے ہیں۔چھاپے ڈالے جاتے ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔جیلوں سے رہاہونے والوں کو نئے عتاب کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔انہیں فورسز کیمپوں اور تھانوں میں حاضر کیا جاتا ہے۔اور یہی حال پوری مقبوضہ وادی میں ہوتاہے ۔بھارت اپنا یوم آزادی بڑے دھوم دھام سے کشمیر یوں کو گھروں میں بندکر کے اور ان کی تمام آزادیاں چھین کرمناتا ہے ۔آزادی منانے کے لئے بھارت ہزاروں کشمیر یوں کو فوجی کیمپوں پر حاضر ہونے ،نظربند کرنے اور غلامی کاتصوریاد دلاتا ہے ۔اس دن شمالی بھارت میں آزادی پسندماؤ لوگ یوم سیاہ مناتے ہیں ،کشمیر میں بھی یوم سیاہ کے دوران عام ہڑتال ہوتی ہے اور سیاہ پرچم لہرائے جاتے ہیں ۔عملی طور پر وادی میں سول کرفیونافذرہتا ہے ۔البتہ 14 اگست کو لوگ عقیدت واحترام میں جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہراتے ہیں ۔ پاکستانی پرچم کو سلامی دیتے ہیں ۔بازاروں میں اور رہائشی علاقوں میں بھارتی فورسز کی موجودگی اور جارحیت کے باوجودلوگ چراغاں کرتے ہیں اور دعا کی جاتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ پاکستان کو سلامت رکھے اور کشمیریوں کو بھی آزادی کی نعمت سے مالا مال کرے ۔پاکستان کے لئے بزرگوں نے جن قربانیوں کو پیش کیا ان کی وجہ سے اور اﷲ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان بنا۔تاریخ میں ایک بڑی ہجرت ہوئی ۔لوگ بے گھر ہوئے ۔لیکن انہیں آزادوطن میں رہنے کی خوشی تھی ۔البتہ وہ تاریخ کا ایک سیاہ دور بھی تھا ۔جو مسلمانوں پر 1947 ء کو اگست کے مہینے میں گزرا ۔تاریخ میں اسے سیاہ باب کے نام سے درج کیا گیا ہے۔

جن لوگوں نے 1947 ء کا قتل عام اور مسلمانوں کے مصائب نہیں دیکھے وہ بھارتی ریاست گجرات اور اس کے بعد آسام ، اب دہلی میں مسلمانوں کے قتل عام، خواتین کے ساتھ زیادتیوں، لوٹ ماراور اغواکی داستانیں پڑ ھ ،دیکھ اور سن چکے ہوں گے ۔قیام پاکستان پر جو نفرت انتہا پسند ہندوؤں میں تھی ،اسکی گجرات ، سورت اور آسام، دہلی کے واقعات ایک جھلک ہیں ۔برصغیر سے برطانیہ چلاگیا لیکن اس نے اپنے ایجنٹ یہاں موجود رکھے۔ ان جاگیرداروں اور وڈیروں نے ایسٹ ایڈیا کمپنی جیسا کردار اداکیا،وہ لوگ جن کے پاس کچھ نہ تھا وہ باغات اور فیکٹریوں کے مالک بن گئے ۔جن لوگوں نے انگریزوں کی مخبریاں اور جاسوسیاں کیں، وہ مربعوں اور باغات سے نوازے گئے۔ ان میں اکثریت یہی لوگ آج وڈیرے ،جاگیردار ،زمیندار ہیں جو انگریز کے ایجنٹ تھے۔جن کو آزادی راس نہ آئی ۔انھوں نے اپنے ہم وطنوں کی آزادی چھین کراُسے پہلے انگریز اور اب امریکہ کے پاس گروی رکھ چھوڑا ۔یہی لوگ مسلمان کو مسلمان کے خلاف اکسارہے ہیں ۔ پاکستانی اپنے اسلاف کی قربانیاں کیسے فراموش کر سکتے ہیں۔اگر عوام خبردار ہوجائیں ۔اپنے آس پاس کڑی نظررکھیں ۔ذمہ دار شہری کا ثبوت دیں ۔تو کسی کی مجال نہیں کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر ایک گولی بھی چلاسکے یا ایک دھماکہ کرسکے ۔ انگریزوں نے مسلمانوں سے انتقام لیا ۔صدیوں تک مسلمانوں نے مشرق اور مغرب پر حکومت کی ۔عدل وانصاف کا بول بالاکیا ۔آج حکمرانوں کے طرز حکومت سے ایسا محسوس ہونا چاہیئے کہ یہ ملک بڑی قربانیوں سے حاصل کیا گیا ہے۔

1947 ء کو دہلی ،یوپی ،بنگال ،پنجاب،بمبئی،بہار ،کپورتھلہ،فرید کوٹ ،جید،نابھ،میں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہہ گئیں ۔کیا آج حکمرانوں کو اس کا احساس ہے؟جن سنگھیوں، آرا یس ایس ،شیوسینا ،بجرنگ دل والوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔پاکستان کی مدد کو جنگی بیڑہ روانہ کرنے کا دھوکہ دینے والا امریکا بظاہر انسانوں کے حقوق کی بات کرتا ہے لیکن عملی طور پر وہ مسلمانوں کا قتل عام کرانے میں نہ صرف بھارت بلکہ اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے اور دونوں ممالک کو جدید ترین ہتھیار دینے میں مصروف ہے۔وہ بھارت کو پاکستانی حکمرانوں کی کن پٹی پر بندوق رکھ کر افغانستان اور وسط ایشیا تک رسائی دلانے میں دلچسپی رکھتا ہے ۔

پاکستان کی ابھی تک تکمیل نہیں ہوئی ۔ کشمیر کی غلامی میں پاکستان کی آزادی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پالیسی ساز ہاتھی کو سوئیاں چبھونے کے بجائے فیصلہ کن کردار کا فیصلہ کریں۔کشمیریوں کو اٹھنے کی’’تم بھی اٹھو اہل وادی‘‘ جیسی صدائیں لگانے والے خود خواب غفلت سے بیدار ہوں۔کشمیریوں کی آزادی پسندی کے جذبے کی قدر کی جائے۔ کشمیر کی آزادی کے لئے پر عزم اور استقلال کے ساتھ میدان میں کودنے کی ضرورت ہے۔آج شایدیوم استقلال کا تقاضا بھی یہی ہے۔ آج بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو دہلی کے براہ راست کنٹرول میں لے کر کشمیریوں کا قتل عام تیز کر دیا ہے۔ حریت پسند قیادت قید ہے۔۔ ان پر جعلی مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ جائیدادوں کو ضبط کیا جا رہا ہے۔ نوجوانوں کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تجارت کوتباہ کر دیا گیا ہے۔ میڈیا کو سنسر شپ کا سامنا ہے۔ ریاستی دہشگردی کو بے نقاب کرنے پر ریاستی میڈیا کا شکنجہ کس لیا گیا ہے۔ غلامی کیا ہوتی ہے، یہ کشمیریوں پر واضح کیا گیا ہے۔ ایسے میں پاکستان کا یوم آزادی آ گیا۔ کوئی غلام قوموں سے آزادی کی قدر و قیمت معلوم کرے۔پاک عوام بھی آزادی کی قدر کریں اور اس کا تحفظ بھی۔ دفاعی اور معاشی طور پر طاقت ور اور مضبوط و مستحکم پاکستان ہی کشمیریوں ہی نہیں بلکہ اس خطے کی غلام قوموں کی آزادی کا ضامن بن سکتا ہے۔

 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555106 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More