تحریر سمیہ بنت عبدالرحمٰن
پاکستان,14 اگست 1947کو جناب بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح،ڈاکٹر
علامہ محمد اقبال،جناب لیاقت علی خان،سر سید احمد خان، دیگر حریت
راہنماں،محب وطن،اور محب اسلام لوگوں کی انتھک کوششوں اور محنتوں کے بعد
معرضِ وجود میں آیا۔27 رمضان المبارک کا دن تھا۔ ہمارے آبااجداد نے روزہ کی
حالت میں اپنے وطن میں ہجرت کی جس کا احساس آج کی ن نسلوں کو نہیں ہے۔
انہوں نے اپنے پیاروں سے جدا ہو کر اپنے سفر کا آغاز کیا۔اپنی آنکھوں کے
سامنے اپنے پیاروں کو قربان ہوتے دیکھا۔بچوں کو بھوک،پیاس سے بلک بلک کر
جانوں کا نذرانہ پیش کرتے دیکھا۔دوران سفر جس کو جہاں جگہ ملی ریل گاڑی میں
سوار ہو گیا۔ جن کو ریل گاڑی میں بیٹھنے کی جگہ نہ ملی انہوں نے کھڑے ہو کر
سفر کیا۔ جن کو کھڑے ہونے کی جگہ نا ملی انہوں نے ریل گاڑی سے لٹک کر سفر
کیا۔کچھ افراد ریل گاڑی کے اوپر سوار ہو گئے۔راستے میں اپنے پیاروں کی
لاشوں کو دیکھتے ان لاشوں میں کس کا سر نہیں تھا تو کسی کی بازو نہیں
تھی۔کسی کی ٹانگ نہیں تھی۔ کسی کا بدن تو موجود تھا مگر سر نہیں تھا۔ایک
طرف خوشی تھی تو دوسری طرف غم۔۔۔۔خوشی اس بات کی کہ نئے وطن میں جا بسیں گے
نا کوئی تنگی ہوگی نا کوئی تکلیف ہوگی خوشی سے آذاد وطن میں رہیں گے جس کی
بنیاد لاالہ الااﷲ پر رکھی گ اور غم بھی تھا کہ اپنے پیاروں کو چھوڑ کر جا
رہے ہیں۔ اپنا وہ وطن چھوڑ رہے ہیں جہاں زندگیاں گزاری تھیں۔ قیام پاکستان
کے تیسرے روز عید الفطر تھی آہ آہ.......ذرا سوچئے وہ عید کیسی عید ہوگی۔
اپنے پیاروں کے بغیر اپنے پردیس کے بغیر...دو خوشیاں ایک ساتھ مل گیں ایک
آزاد وطن دوسری خوشی عید الفطر۔ مگر اپنے شہدا کے بغیر،اپنے وطن کے بغیر
عید انہوں نے کیسے کی ہوگی۔افسوس! آج کے نوجوان تو کیا آج کے مسلمان بھی
اپنے بڑوں کی قربانیوں کو بھولے بیٹھے ہیں۔آج کے ان بھولے ہوئے نوجوان اور
مسلمانوں کو کیا خبر کہ کیسے قائم ہوا یہ تاجدارِ وطن...ہمارا وطن پاکستان
جس کی بنیاد اسلام ہے، کلمہ طیبہ ہے،دو قومی نظریہ ہے۔دو قومی نظریے کی
بنیاد جناب سر سید احمد خان نے رکھی تھی۔ آپ نے فرمایا:مسلمان اور ہندو دو
الگ قومیں ہیں ان کے رسم و رواج الگ ہیں،ان کے رہن سہن کے طور طریقے الگ
ہیں۔لہٰذاصدیوں اکٹھے رہنے کے باوجود یہ آپس میں گھل مل نہیں سکتے۔آج ہمارے
ملک میں شادی بیاہ کی رسوم کو ہندوانہ طریقے سے منایاجاتا ہے۔حالانکہ ہمارے
وطن کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے۔ ہمارا رہن سہن،لباس،اور طور طریقہ ان سا ہو گیا
ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے بڑوں کی قربانیاں رائیگاں چلی گئیں
ہیں۔پاکستان 14اگست کو ہمارے آباؤ اجداد کی قربانیوں سے حاصل ہوا تھا۔ مگر
ہماری نوجوان نسل اس دن کو بڑے جوش و خروش سے مناتی ہے۔ 14اگست کی تیاری اس
طرح سے کی جاتی ہے جیسے شادی بیاہ یا عید کی تیاری کی جاتی ہے،لباس بنوائے
جاتے ہیں، لباس کے ساتھ جیولری میچ کی جاتی ہے، اور چہروں پر مسکراہٹ ہوتی
ہے۔ ہر فرد سبز کپڑوں میں ملبوس نظر آتا ہے۔ مگر 14اگست 1947 کو تو ہر فرد
خون میں سرخ تھا۔ ان کے چہرے اپنے پیاروں کی جدا میں اداس تھے۔ ہمیں اس دن
کو منانا چاہیے مگر کیسے اپنے آبااجداد کے لیے دعائیں کریں۔ہماری قوم ایسی
قوم بن چکی ہے جو سارا سال تو انڈین فلمز دیکتھی ہے اور انڈین گانیسنتی ہے۔
سال کے اس ایک دن یعنی 14 اگست کے دن سب نے ایسے پاکستانی نغمے لگائے ہوتے
ہیں جیسے ان سے بڑھ کر پاکستان سے محبت کرنے والا کوئی ہے ہی نہیں ہے۔یہ
ملک قربانیوں سے آزاد ہوا تھا مگر آج تو کو ایک فرد اپنے وطن کے لیے قربانی
دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا سوائے پاک فوج کے ان جوانوں کے جو اپنی زندگیاں
داؤ پر لگا کر اپنے وطن کی حفاظت کے لیے سر گرداں رہتے ہیں۔اے آج کے نوجوان
ذرا سوچ تھوڑا نہیں ذرا زیادہ سوچ ہمیں اپنے اجداد کی قربانیوں سے سبز بننے
کا موقع نہیں ملتا۔ بلکہ سبق ملتا ہے کہ وطن پر نا گہانی آفت آنے پر پیش
پیش ہوں۔اے آج کے نوجوان تو کہاں کھو چکا ہے بیدار ہو اوراپنے ملک پر میلی
نظر ڈالنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر ۔اے مسلمان جاگ اب وقت آگیا ہے بیدار
ہونے کا کشمیر کے معاملے میں اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کا...کیونکہ قائداعظم
نے بھی فرمایا تھا کہ:کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم کشمیریوں
کے شانہ بشانہ ہوں صرف و صرف انسانت کی خاطر، اور کشمیر کو پاکستان کی شہ
رگ بنانے کی خاطر۔۔
|