دولے شاہ کے چوہے اور مکروہ دھندا

 چند روز قبل میں جامعہ سے نکل کر گھر جانے لگا کہ اچانک ایک آدمی کو دیکھا جو انتہائ گندے کپڑوں میں ملبوث ہاتھ میں لڑکی کا کشکول اٹھائے اور دوسرے ہاتھ میں دولے شاہ کی ایک چوہی لیے گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر آوازیں کس رہاہے۔جب کو ئ دروازہ کھولتاہےتو دولے شاہ کی چوہی بھاگ کر اس سے لپٹ جاتی اور جب تک کچھ بھیک وصول نہیں ہوجاتی اسے چھوڑ نہیں رہی تھی۔یہ منظر میں کافی دیر تک دیکھتا رہا۔کہ چھوٹے سر والی مخلوق کو کس طرح اپنے دھندے کےلیےاستعمال کیا جاتا ہے۔

دراصل شاہ دولہ کے چوہے کی اصطلاح ان مخصوص بچوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو شاہ دولہ کے مزار پر پائے جاتے ہیں، یہ مزار گجرات، پاکستان میں واقع ہے۔ سولہویں صدی عیسوی کے آخر میں بعد اورنگزیب عالمگیر دولے شاہ نام کے ایک نیک اور برگزیدہ بزرگ گجرات کے نزدیک قیام پزیر ہوئے، دولے شاہ سہروردی سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں پرندے اور جانور بہت پسند تھے۔ ایک حکایت کے مطابق کئی بار وہ اپنے پسندیدہ جانوروں کے سر پر ایک مٹی کی ٹوپی رکھ دیتے تھے اور ان کے سروں کو مکمل ڈھانپ کر رکھتے تھے۔ ان کا آستانہ عام لوگوں کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ بانجھ عورتیں ان سے دعا کروانے کے لیے دور دراز کے علاقوں سے حاضر ہوتیں تھیں۔ روایت ہے کہ دولے شاہ کی دعا سے وہ اکثر صاحبِ اولاد ہو جاتیں تھیں۔ بیشتر والدین پہلے بچے کو اس آستانے کے لیے وقف کر دیتے تھے۔ حکایت کی رو سے اگر والدین اس بچے کو دولے شاہ کے مزار پر وقف نہیں کرتے تھے تو ان کی ہونے والی ساری اولاد ہمیشہ چھوٹے سروالی ہی پیدا ہوتی تھی۔ روایت یہاں تک موجود ہے کہ اگر بچے کو اس آستانہ پر نہیں لایا جاتا تھا تو وہ بڑا ہو کر خود بخود یہاں پہنچ جاتا تھا۔ یہ بچے مختلف علاقوں میں بھیک مانگ کر اپنا گزارہ کرتے تھے۔

ان تمام پہلوؤں پر سنجیدہ تحقیق صرف برطانوی ڈاکٹروں اور سائنس دانوں نے کی ہے۔ اس کے علاوہ چند برطانوی افسران جو گجرات میں تعینات رہے، نے بھی ان بچوں کا بغور مشاہدہ کیا اور مختلف رپورٹس مرتب کیں۔ انڈین اور پاکستانی دانشور اس جانب بہت کم متوجہ ہوئے اور ان کا بطور محقق اس معاملے میں تجزیہ تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہے۔

کرنل کلاڈ مارٹن (Col Clade Marten) ‏1839ء میں اس دربار پر پہنچا۔ اس نے چند خواتین کو اپنے بچوں کو دربار کے لیے وقف کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ اُس کے مطابق یہ رسم بہت پہلے سے چلی آ رہی تھی۔ تاہم بچوں کی جسمانی حالت کے متعلق اس نے لکھنے سے گریز کیا ہے۔ 1866ء میں ڈاکٹر جانسٹن دولے شاہ کے دربار پر آیا، اُس کو وہاں نو بچے ملے۔ ان بچوں کی عمریں دس اور انیس برس کے درمیان تھیں۔ ان تمام بچوں کے سر بہت چھوٹے تھے اور وہ دولے شاہ کے چوہے کہلاتے تھے۔ ڈاکٹر جانسٹن وہ پہلا سائنس دان تھا جس نے بتایا کہ ان تمام بچوں کے سروں کو فولادی خود یا کسی اور میکینکل طریقے سے چھوٹا کیا گیا ہے۔ 1879ء میں ہیری ریوٹ کارنک (Harry Rivett Cornic) نے اس دربار پر تحقیق کی۔ اس نے لکھا کہ ہر سال تقریباََ دو سے تین بچوں کو دربار کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے۔ اس نے معصوم بچوں کو چوہا بنانے کے متعلق لکھا کہ ان بچوں کے سروں کو میکنیکل طریقے سے چھوٹا کیا جاتا ہے اور اُس میں مختلف حربے اختیار کیے جاتے ہیں۔ مٹی کی ہنڈیا اور دھات سے بنے ہوئے خود بھی ان بچوں کو چوہوں میں تبدیل کر دیتے ہیں۔

فلورا اینی اسٹیل (Flora Annie Steel) نے 1886ء میں ان بدقسمت بچوں کے متعلق لکھا کہ دربار پر یہ بچے بالکل تندرست اور صحت مند ہوتے تھے اور ان میں کسی کا سر چھوٹا نہیں تھا۔ مگر مقامی لوگوں کے چند گروہ ان تندرست بچوں کو پورے ہندوستان میں فروخت کر دیتے تھے اور ان کی جگہ چھوٹے سر والے بچے لے آتے تھے۔ اکثر والدین اپنے معذور بچوں کو ان گروہوں کے حوالے کر دیتے تھے کیونکہ یہ بچے ان کے لیے مکمل بوجھ تھے۔

کیپٹن ایونز نے 1902ء میں اس دربار پر بھر پور تحقیق کی۔ اس وقت تک یہ بچے 600 سو کے قریب ہو چکے تھے۔ اس نے بچوں کے سروں کو زبردستی چھوٹا کرنے کی تھیوری کو تسلیم کرنے سے بالکل انکار کر دیا۔ اُس کے بقول یہ ایک بیماری تھی اور اس طرح کے بچے شاہ دولہ کے مزار کے علاوہ پورے ہندوستان میں پائے جاتے تھے۔ اس نے لکھا کہ، اس طرح کے بچے Microcephalic کہلاتے ہیں اور یہ بچے اس نے برطانیہ میں بھی دیکھے ہیں۔ اس کے نزدیک دولے شاہ کا مزار اس مہلک بیماری میں مبتلا بچوں کے لیے ایک سماجی پناہ گاہ ہے۔ مگر اس نے ان بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کے متعلق بہت سخت الفاظ استعمال کیے۔ اس نے بیان کیا کہ جو فقیر ان بچوں کو لے کر بھیک مانگنے کے لیے مختلف مقامات پر لے جاتے ہیں۔ ان کا رویہ ان بچوں کے ساتھ انتہائی نازیبا اور غیر انسانی ہے۔

1902ء میں کئی بچوں کو تو سالانہ سترہ سے بیس 17-20 روپے کے عوض کرایے پر بھی دے دیا جاتا تھا۔ 1969ء میں محکمہ اوقاف نے اس دربار کو اپنی تحویل میں لے لیا اور چوہے بنانے کے کام کو قانونی طور پر بند کر دیا۔ اس کے باوجود یہ عمل آج بھی جاری ہے[1] اور آج بھی دس ہزار سے زائد بچے اس مزار میں رہتے ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق گجرات سے ہے۔آج ان بچوں سے بھیک منگوانا ایک کاروبار بن چکا ہے اور یہ طبقہ جو ان معصوم بچوں پر ظلم کرتا ہے ایک مافیہ بن چکا ہے۔جس میں گدی نشینوں سے لے کر سیاستدانوں تک سب ملوث ہیں۔ملکی سلامتی کے اداروں کو اس طرف بھی نظر کرنی چاہیے اور ہمارے میڈیا کو اگر سیاستدانوں کی گاڑیوں کے ہیچھے بھاگنے سےفرصت ہوتو وہ بھی اس پر آواز اٹھائیں۔تاکہ یہ ظلم عظیم اور گھناؤنا کھیل ختم ہو۔

Adeel Moavia
About the Author: Adeel Moavia Read More Articles by Adeel Moavia: 18 Articles with 23099 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.