الٹا نگر کے بادشاہ سلامت جب اینڈتے اکڑتے دربار میں داخل ہوئے تو نقیب نے کڑک کر کہا. با ادب، با ملاحظہ ہوشیار۔ شہنشاہ معظم۔ اعلیٰ حضرت فرماں روائے الٹا نگر تشریف لاتے . اور پکارنے والا ابھی پوری بات بھی نہ کہنے پایا تھا کہ بادشاہ سلامت دھڑام سے وزیر اعظم کے قدموں میں گر پڑے۔ وزیر اعظم نے چار پانچ سپاہیوں کی مدد سے حضور کو بڑی دقت سے اٹھایا۔ آپ ہانپتے ہوئے اٹھے اور ڈانٹ کر بولے۔ یہ کون بدتمیز ہمارے سامنے گر پڑا؟وزیر اعظم سرکھجا کر بولے۔ میرے خیال میں تو حضور خود ہی گر پڑے تھے۔ ار۔ معاف۔ کون ہم؟ یعنی مابدولت؟ چیخ کر بولے۔ ٹھہر جا! تجھے اس گستاخی کا ہم ابھی مزا چکھاتے ہیں۔ کوئی ہے ؟ دو سپاہیوں نے آ کر سلیوٹ لگائی۔ لے جاوٴ اسے۔ بادشاہ سلامت نے سپاہیوں کو حکم دیا۔ اور اس کی ناک میں بھس بھر دو۔ سپاہیوں نے کچھ دیر کی تو آپ نے اچھل کر فرمایا۔ میں کہتا ہوں۔ لے جاوٴ۔ اور پھر دھڑام سے نیچے گر پڑے۔ اصل میں بات یہ تھی کہ الٹا نگر کے بادشاہ سلامت اتنے موٹے تھے کہ بس بہت ہی موٹے تھے۔ ایک تو بے تحاشا موٹاپا، اور دوسرے آپ کی دہنی ٹانگ بائیں ٹانگ سے کچھ چھوٹے تھی اس لیے بادشاہ سلامت کو ذرا سی بھی ٹھوکر لگتی تو آپ بھی ا سے نیچے گر پڑتے اور فٹ بال کی طرح زمین پر لڑھکتے پھرتے۔
اس وقت آپ کے سامنے کسی کا آ جانا غضب ہی ہو جاتا۔ گرنے کا سارا غصہ اس پر اتارتے اور جب تک اس کی ناک میں بھس نہ بھروا دیتے ، تب تک چین نہ لیتے ، چنانچہ کوئی درباری ایسا نہ تھا جس کی ناک میں بھس نہ بھرا گیا ہو۔ جسم موٹا ہونے کے ساتھ ساتھ بادشاہ سلامت کی عقل بھی بہت موٹی تھی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ بادشاہ سلامت کسی کرسی پر بیٹھے اور وہ آپ کے بوجھ سے چرچرا کر ٹوٹ جاتی تو بادشاہ سلامت نہ صرف کرسی بنانے والے کی بلکہ اس کے پورے خاندان کی ناک میں بھس بھروا دیتے۔ اس لیے ملکہ نے محل کی ساری کرسیاں اور مسہریاں لوہے کی بنوا دی تھیں۔ لیکن اس پر بھی کبھی نہ کبھی ایک آدھ کرسی یا مسہری بادشاہ سلامت کے بوجھ سے ٹوٹ ہی جاتی۔ یہ دیکھ کر بعض آدمی تو سوچنے لگتے کہ حضور بادشاہ سلامت موٹے یا زیادہ ہیں یا بھاری۔ بادشاہ سلامت کے بے تحاشا موٹاپے اور اوندھی عقل سے ویسے تو ساری رعایا ہی پریشان تھی۔ مگر وزیر اعظم اور ملکہ کی تو جان آفت میں تھی۔ اور جب سے بادشاہ سلامت نے وزیر اعظم صاحب کی ناک میں بھس بھروایا تھا، تب سے تو وہ اور بھی ڈرنے لگے تھے اور ہر وقت ایسی تجویزیں سوچتے رہتے کہ کسی طرح بادشاہ سلامت کا موٹاپا ختم ہو۔ تاکہ اس کی اور رعایا کی جان اس مصیبت سے چھوٹے۔ ایک دن ملکی عالیہ بادشاہ سلامت کے لیے چائے بنا رہی تھیں کہ وزیر اعظم گھبرائے ہوئے تشریف لائے اور کراہتے ہوئے بولے۔ ارے ملکہ عالیہ! آپ نے کچھ اور بھی سنا؟ کیا؟ ملکہ ہڑ بڑا کر اس زور سے انہیں کہ چائے کی پتیلی چولہے پر سے گرتے گرتے بچی۔ کیا بتاوٴں حضور!. وزیر اعظم پیٹھ کھجا کر بولے۔ حضور بادشاہ سلامت نے تو لوگوں کی زندگیاں حرام کر دی ہیں۔ کچھ کہو گے بھی کہ. ملکہ خفا ہونے لگیں۔ کہوں کیا حضور؟ وزیر اعظم نے منہ بسور کر کہا۔ کسی کم بخت نے حضور سے یہ کہہ دیا کہ شہر کے تمام بچے آپ کو موٹو شاہ کہتے ہیں۔ بس آپ نے فوج کو حکم دے دیا کہ وہ سارے شہر کے بچوں کو پکڑ کر ان کی ناک میں بھس بھر دے۔ یہ تو بڑی بری بات ہوئی۔ ملکہ نے ڈرتے ہوئے کہا۔ اس سے تو رعایا میں بے چینی پھیل جائے گی۔ جی ہاں ! اور کچھ عجب نہیں کہ لوگ حکومت کے خلاف بغاوت کر دیں۔ وزیر اعظم صاحب بولے۔ بغاوت.؟ ملکہ سہم گئیں۔ جی ہاں ! بغاوت. وزیر اعظم نے جوش میں آ کر میز پر مکا لگایا اور جب چوٹ لگی تو ہاتھ سہلانے لگے۔ تو پھر کیا کیا جائے ؟ ملکہ نے پوچھا۔ وزیر اعظم سوچ کر بولے۔ میرے خیال میں تو بادشاہ سلامت کے دبلا ہونے کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ آپ حضور کو روٹی ذرا کم دیا کریں۔ ملکہ تن فن کر بولیں۔ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ بادشاہ سلامت میری بھی ناک میں بھس بھروا دیں ؟ ارے نہیں ملکہ عالیہ! وزیر اعظم سٹپٹا کر بولے۔ دراصل، پھر ہمیں کوئی اور ہی تدبیر سوچنی پڑے گی۔ اتنے میں ایک نوکر بھاگا ہوا آیا اور بولا۔ حضور بادشاہ سلامت فرما رہے ہیں کہ چائے ابھی تک نہیں آئی۔ ملکہ جلدی سے بولیں۔ کہنا شکر ختم ہو گئی تھی۔ بازار سے منگائی ہے۔ ابھی آتی ہے۔ نو کر چلا گیا تو ملکہ وزیر اعظم سے بولیں۔ الو کی طرح میرا منہ کیا تک رہے ہو۔ کچھ بولو نا؟ وزیر اعظم نے پہلے کچھ دیر سوچا اور پھر ایک دم خوشی کا نعرہ مار کر بولے۔ آہا! ملکہ عالیہ! ایک بڑی اچھی ترکیب دماغ میں آئی ہے۔ شہر سے کچھ دور جو پہاڑ ہے ، اس میں ایک بڑا زبردست جادوگر رہتا ہے۔ اگر اس سے مدد طلب کی جائے تو شاید وہ کوئی ایسی دوا یا منتر بتا دے ، جس سے بادشاہ سلامت کا موٹاپا کم ہوسکے۔ ملکی خوشی سے ہاتھ ملتے ہوئے بولیں۔ بس بس بالکل ٹھیک ہے۔ تم آج ہی اور ابھی اس کے پاس جاوٴ۔ وزیر صاحب نے جھک کر سلام کیا اور چلے آئے۔
اب یہ بھی کچھ اتفاق تھا کہ بادشاہ سلامت جتنے موٹے تھے۔ وزیر اعظم صاحب اتنے ہی دبلے پتلے اور دھان پان تھے۔ انہوں نے سوچا کہ اگر میرا بھی دبلا پن دور ہو جائے تو میں ذرا سا موٹا ہو جاوٴں تو کیا ہی بات ہو۔ یہ سوچ کر خوشی سے اچھل پڑے اور جادوگر کو سارا حال کہہ سنایا۔ اچھی بات ہے۔ جادوگر اپنی خوف ناک آنکھیں گھما کر بولا۔ یہ لو موٹا ہونے کی دوا۔ اگر چھپکلی بھی کھائے تو پھول کر ہاتھی ہو جائے اور یہ لو دبلا ہونے کی دوا۔ اگر اسے ہاتھی بھی کھائے تو پسو بن جائے۔ وزیر اعظم خوش خوش دونوں دوائیں لے کر چلے آئے ، مگر آ کر یہ بھول گئے کہ موٹا ہونے کی دوا کون سی ہے اور دبلا ہونے کی کون سی۔ بھولے سے بادشاہ سلامت والی دو تو خود چڑھا گئے اور اپنے والی دوا بادشاہ سلامت کو دودھ میں ملا کر پلا دی اور نتیجہ کا انتظار کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے دیکھا کہ بادشاہ سلامت کا پیٹ پھول رہا ہے ، گھبرا کر بولے۔ ارے حضور! آپ کا پیٹ! بادشاہ سلامت جھلا کر بولے۔ کم بخت میرا پیٹ دیکھ رہا ہے ، تو اپنے آپ کو تو دیکھ۔ وزیر اعظم صاحب نے گھبرا کر اپنے اوپر نظر ڈالی۔ تو یہ دیکھ کر ان کی روح فنا ہو گئی کہ وہ اور دبلے پتلے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اب انہیں اپنی غلطی معلوم ہوئی، مگر اب کیا ہوسکتا تھا، کچھ دیر بعد بادشاہ سلامت تو پھول کر غبارہ ہو گئے اور وزیر اعظم سوکھ کر ہڈیوں کا پنجر۔
جب سارا گوشت گھل گیا اور صرف ہڈیاں ہی باقی رہ گئیں تو اب وزیر اعظم نیچے کو گھٹنا شروع ہوئے اور گھنٹا بھر کے بعد آپ کا قد دو فٹ رہ گیا اور بادشاہ سلامت کی توند چھت سے جا لگی۔ اور پھر اتنے زور کا دھماکا ہوا کہ سارا شہر ہل گیا۔ تمام فوج، اور لوگ بھاگ دور پڑے۔ آ کر کیا دیکھتے ہیں کہ بادشاہ سلامت تو پھٹے پڑے ہیں اور ان کے پاس ایک چیونٹی رینگ رہی ہے۔ یہ وزیر اعظم تھے جو گھٹتے گھٹتے چیونٹی کے برابر رہ گئے تھے۔
|