رعنا لیاقت علی خان کو تحریک پاکستان کی ایک خاموش کارکن ہونے کے علاوہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم کی اہلیہ ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔آپ ہمالیہ کی ترائی میں پیدا ہوئیں۔یہ علاقہ شمالی ہند میں واقع ہے اور ”الموڑہ“ کہلاتا ہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم نینی تال کے ولزلی ہائی سکول میں حاصل کی پھر لکھنوٴ آ کر ازابیلا تھا برن سکول سے میٹرک اور ازابیلا تھا برن کالج سے بی اے کیا۔ سکول اور کالج میں آپ نمایاں حیثیت کی حامل تھی۔ آپ کی طبعی حاضر جوابی، بذلہ سنجی اور شگفتگی مخاطب کو گرویدہ کر لیتی تھی۔ طالبات کی سرگرمیوں میں آپ پیش پیش رہتی تھیں۔ آپ نے لکھنوٴ یونیورسٹی سے معاشیات اور عمرانیات میں ایم اے کے امتحان میں یونیورسٹی میں ٹاپ کیا۔ایم اے میں آپ کے مقالے کی بہت تعریف کی گی۔
ایم اے کرنے کے بعد آپ نے ایجوکیشن کی ایک ڈگری حاصل کی اور درس وتدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ پہلے گوکھلے میموریل سکول میں لڑکیوں کو پڑھایا اور پھر دہلی کے پرستھ کالج میں اکنامکس کی پروفیسر کی حیثیت سے شمولیت اختیار کر لی۔ اس کالج میں آپ ڈیڑھ سال تک اکنامکس پڑھاتی رہیں۔اپریل 1937 ء میں لیاقت علی خان کی غیر رسمی رست راست رعنا لیاقت تھیں۔ لیاقت علی خان کی ساری خط وکتابت اور ٹائپ کا کام بیگم لیاقت علی خان انجام دیتی تھی۔سیاسی کاموں میں بھی بیگم لیاقت ان کی مدد کرتیں۔ رعنا لیاقت ہر ممکن حد تک اپنے شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لئے علاوہ اپنی گھریوذمہ داریاں بھی پوری کرتیں۔ بیگم لیاقت کے بطن سے دو فرزنداشرف لیاقت 13 اکتوبر 1937 ء کو اور اکبر لیاقت 10 اپریل 1941 کو پیدا ہوئے۔ بیگم لیاقت نے ان کی پرورش نہایت ذمہ داری سے کی۔ قائد ملت اپنی مصروفیات کی بناء پر بچوں پر توجہ نہ دے سکتے تھے اس لئے یہ ذمہ داری مکمل طور پر بیگم لیاقت کے کاندھوں پر آن پڑی اور انہوں نے یہ ذمہ داری نہایت کامیابی کے ساتھ نبھا
شوہر اور بچوں کے علاوہ ان کی دو اور مصروفیات یا مشاغل تھے۔ موسیقی اور کتابیں۔ 14اگست1947 کو پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو قائد ملت لیاقت علی خان کو پاکستان کا پہلا وزیرا عظم مقرر کیا گیا۔ اب لیاقت علی خان اور بیگم لیاقت علی خان پر نئی ذمہ داریاں آن پڑیں ۔ مشرقی پنجاب اور دیگر خطوں سے مہاجرین کا جو سیلاب امڈ پڑا تھا اس کی بناء پر لیاقت علی خان کا ہاتھ بٹانے کے لیے باقاعدہ حدمت اور بنی نوح انسان کی امداد کی تنظیم کا آغاز کیا۔ یہ تنظیم انہوں نے تحریک کی شکل میں شکل میں شروع کی۔ آپ نے خواتین کی ایک جماعت قائم کر کے اسے ”جمعیت رضا کار خواتین پاکستان“ کا نام دیا۔ اس وقت عورتوں کو سماجی خدمت اور حاجت مندوں کی امداد کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ گھریلو خواتین یہ بات جانتی ہی نہ تھیں کہ وہ گھر سے باہر بھی کوئی خدمت انجام دے سکتی ہیں۔ان حالات میں نا تجربہ کار خواتین کی تنظیم بنانا اور ان سے مصیبت زدگان ،نادار محتاج افراد کی خدمت کا کام یقینا مشکل ترین کام تھا لیکن بیگم لیاقت نے اس کام کابیڑا اٹھایا۔ اس عظیم کام میں انہیں جو کامیابی حاصل ہوئی، وہ یقینا حیرت ناک ہے۔ ان کی قیادت میں ناتجربہ کار پاکستانی خواتین خدمت خلق کے لئے جس طرح متحد ہوئیں اور کام کیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ وہ عورتیں جنہوں نے کبھی گھر سے قدم باہر نہ نکالا تھا جوق در جوق مہاجرین کی خدمت کے لئے کیمپوں کے چکر لگانے لگیں۔ سڑکوں کے کنارے بیمار پڑے مریضوں کی خدمت کرنے لگیں انہوں نے بیواوٴں اور یتیموں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔
بیگم لیاقت علی کی تحریک پا تلاشِ روزگار کا محکمہ کھولا گیا ۔ ایک محکمہ تلاش گمشدگان کے لئے قائم کیا گیا۔ شادی کے قابل لڑکیوں کے لئے ایک علیحدہ سے محکمہ بنایا گیا، بیواوٴں کے لئے گھر فراہم کئے گئے۔
1947 ء کے فسادات اور ہنگاموں میں ساٹھ ہزار مسلمان خواتین اغوا ہوئیں، ان کی بازیافت کے لئے مراکز کھولے گئے۔ بیگم رعنا لیاقت رضا کار خواتین کے ہمراہ بیماروں کی عیادت کرتیں، مہاجر کیمپوں کا معائنہ اور دورہ کرتیں، خوراک اور رسد کی تقسیم کی خود نگرانی کرتیں۔
ایسے معذور اور درماندہ جہاجرین او مسافروں کو کمبل ،غذا ،کپڑے اور دوائیں تقسیم کرتیں جن میں اتنی سکت نہ رہی تھی کہ وہ امداد کے مرکز یا مہاجر کیمپ تک پہنچ سکیں۔ آپ نے ملک کے وزیراعظم کی زوجہ ہونے کے باوجود عیش وآرام کی زندگی پر کام اور خدمت کو ترجیح دی۔
جب پاکستان خواتین میں رضا کار انہ خدمت کی تحریک جڑ پکڑ گئی تو بیگم رعنا لیاقت نے اس کو مستقل شکل دینے کی کوشش کی۔
پاکستان کے ہسپتالوں میں نرسوں کی ضرورت تھی اور اس وقت کے مسلمانو ں کی اکثریت ابھی اتک اس شعبے میں اپنی بچیوں کی بھیجنا پسند نہ کرتی تھی۔اسی لیے بیگم رعنا لیاقت علی نے نرسوں کی سماجی حیثیت کو بلند کرنے کی کوشش کی اوراس کے لئے ضروری اقدامات کئے۔ نرسنگ کی تحریک کو مقبول بنانے کے لیے آپ نے ڈاکٹروں سے مشورے کئے، کمیٹیوں میں شرکت کی نرسوں کی سماجی حیثیت کو تبدیل یا بلند کرنے کے لئے کوششیں کیں۔
انہوں نے بڑی ہمت سے پرانے تعصبات کا مقابلہ کیا۔ ان کوششوں کی بدولت پاکستان میں لوگوں کے ذہن تبدیل ہوئے اور انہوں نے اپنی بچیوں کو نرسنگ کے شعبہ میں بھیجنا شروع کر دیا اور پھر کچھ عرصہ بعد وہ وقت بھی آیا کہ جب پاکستان کے ہسپتالوں میں نرسوں کی ضرورت نہ رہی۔
نرسنگ کی تحریک کی کامیابی کے بعد انہوں نے خواتین کی جسمانی صحت وحفاظت پر توجہ دی اور اس سلسلے میں بھی کئی اقدامات کئے۔
انہوں نے خواتین کے محافظ دستے تشکیل دئیے اور اس تنظیم کی قیادت خود سنبھال لی۔ پاکستان کے اکثر شہروں میں لڑکیوں کونیم عسکری تربیت دی گئی۔ جن لڑکیوں نے رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو اس عظیم مقصد کے لئے پیش کیا ان کو پریڈ، فوجی قواعد، ابتدائی نرسنگ ،حادثات میں ابتدائی طبی امداد ، شہری بچاوٴ اور سماجی خدمت کی تربیت دی جانے لگی ۔ متوسط طبقے کی اڑھائی ہزار لڑکیاں خواتین نیشنل گارڈ میں شمال ہوئیں۔
بیگم رعنا لیاقت علی خان عمرانیات اور اکنامکس میں ایم اے کر چکی تھی۔اس لئے وہ اپنی اس تعلیم کے ذریعے خواتین کی بھی خدمت کرنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے ایک ایسی تنظیم قائم کی جس کا مقصد یہ تھا کہ منافع خور عوام کو لوٹنے نہ پائیں۔اس مقصد کے لئے انہوں نے مصوناعاتِ دیہہ کی ایک انجمن مارچ1948 میں قائم کی۔اس کا مقصد یہ تھا کہ گھریلو مصنوعات کی سر پرستی کی جائے ، کاریگری اور ہنر مندی کے معدوم ہوتے ہوئے سلسلے کو بحال کیا جائے۔
کاریگروں کی معاشی تنظیم کی جائے۔ اس مقصد کے لیے بہت سی خواتین نے چندے کی فراہمی میں بیگم رعنا کا باقاعدہ ہاتھ بٹایا۔
جون 1949 ء میں گھریلو مصنوعات کاایک مرکز کراچی میں قائم کیا گیا۔ چند خواتین بلامعاوضہ رضا کارانہ طور پر اس مرکز میں کام کرتی رہیں۔ اس مرکز کو بہت جلد منافع ہونے لگا۔اس منافع کو دیگر کارآمد کاموں میں خرچ کیا گیا۔
زنانہ اور ٹی بی ہسپتالوں کو امداد دی گئی مہاجر بچوں کے سکولوں کو امداد دی گئی کاریگروں کے لئے علیحدہ محلہ بنایا گیا جس میں ایک ہسپتال بھی تھا۔ عورتوں کے لئے گل رعنا نصرت مرکز قائم کیا گیا۔
بیگم لیاقت علی خان کا سب سے بڑا کارمانہ ”اپوا“ یعنی آل پاکستان انجمن خواتین کی تشکیل اور تنظیم ہے۔اس کی وجہ سے ان کا نام پاکستانی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ 22 فروری 1949 ء کو پاکستان بھر سے انہوں نے ایسی خواتین کو مدعو کیا جو زندگی کے مختلف شعبوں میں مفید اور کار آمد کام انجام دے رہی تھیں۔یہ پاکستان کی تمام خواتین کی انجمن ہے او اس میں شرکت کے لئے کسی رتبے درجے مذہب یا فرقے کی قید نہیں ہے۔ یہ سیاست سے کوئی سروکار نہیں رکھتی۔ اس انجمن کا مقصد پاکستانی عورتوں کی سماجی، تعلیمی اور ثقافتی اصلاح ہے اس کی شاخیں پاکستان کے چاروں صوبوں او ر کافی ضلعوں میں ہیں۔ اپوا کی زیر نگرانی کئی سکول اور کالج کھولے گئے ہیں ہسپتال قائم کئے گئے ہیں امورِ خانہ داری کا خاص انتظام کیا گیا ہے۔ اس تنظیم کا مقصد عورتوں کی صحیح طور پر تربیت کرنا ہے۔
لیاقت علی خان کی شہادت کو انہوں نے نہایت حوصلے کے ساتھ برداشت کیا اور اس کے بعد بھی اپوا کی سرگرمیاں جاری رکھیں۔حکومت پاکستان کی جانب سے ان کو کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا گیا۔ آپ نہایت حوصلہ مند اور جری خاتون تھیں۔آپ نے تمام زندگی انسانیت بالخصوص خواتین کی خدمت میں گزاری۔
|