گذشتہ سال بغض ِ عمران خان میں آزادی مارچ کا
انعقاد ہوا تھا اس کا جو بھی منطقی انجام ہواہمیں اسی سے کوئی غرض نہیں
لیکن ایک بات طے ہے کہ مولانا فضل الرحمن دنیا کی توجہ کشمیرکازسے ہٹانے
میں کامیاب ہوگئے باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ ان کے نظریہ کی بہت
بڑی کامیابی ہے یقینا اس اقدام سے ان کے والد ِ مرحوم مفتی محمودکی روح بہت
خوش ہوگی جنہوں نے اسمبلی فلورپربانگ ِ دہل کہاتھا’’ خدکا شکرہے ہم پاکستان
بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہوئے‘‘خاص طورپرجس تاریخ کو بھارت کا سرینگرپر
قبضہ ہوا اسی روز آزادی مارچ شروع کرنے کا مطلب ہے یہ دال میں ضرور
کالاکالا تھا یہ بھی تو ہوسکتاہے ساری دال ہی کالی ہو مولانا فضل الرحمن کے
مارچ کا آغاز سے قبل ہی ’’ آدھا تیتر آدھا بٹیر ‘‘جیسا حال ہو گیا جب پوری
قوم بھارت کے خلاف یوم سیاہ منا رہی تھی ایسے میں مذہبی کارڈ استعمال کرنے
والے لیڈر اپنے سیاسی تابوت کو آخری ہچکیاں لیتی سیاست کو اپنے کندھوں پر
اٹھا کر سڑکوں پر آگئے ہیں اس کا صاف صاف مطلب یہ بھی ہوسکتاہے مولانا فضل
الرحمن کرپشن کے ٹرائیکا کا کردار اداکررہے ہیں لیکن لگتاہے ان کابلا جواز
مارچ بد ترین شکست بن کر ان کے گلے کا طوق بن گیاقانون نافذ کرنے والے
اداروں نے عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے پیشگی تیاریاں کر لیں لیکن کسی
کو کچھ نہیں کہا آزادی مارچ والوں کو فری ہینڈ دے دیا گیا البتہ ق لیگ کے
سربراہ چوہدری شجاعت کا کہناہے کہ کچھ لوگ آزادی پر دھاوا بولنا چاہتے تھے
مگرہم نے اتفاق نہیں کیا کیونکہ ملکی ترقی اور خوشحالی کے دشمن چند شرپسند
اور موقع پرست ٹولہ اپنی سیاسی دکانداری چمکاناچاہتے تھے کچھ محب وطن حلقوں
نے گذشتہ سال آزادی مارچ کے موقعہ پر انپے تحفظات کااظہارکرتے ہوئے کہا تھا
جس وقت بھارتی فوج انسانیت کی دشمن اور امن کے ''قاتل لائن آف کنٹرول پر
بلا اشتعال فائرنگ کررہے تھی عین اسی وقت عمران خان کے خلاف آزادی مارچ کے
نام پر چلائی جانے والی تحریک مسئلہ ٔ کشمیر سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے جو
ملک و قوم اور کشمیری مسلمانوں کے لئے انتہائی خوفناک ثابت ہوسکتی ہے
کیونکہ ا کشمیریوں پر مظالم بھارت کی سب سے بڑی دہشت گردی ہے انکے جنگی
جنون سے علاقائی امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہیں اس لئے اگر جنگ ہوگی
تو یہ بر صغیر کی آخری جنگ ہی ہوگی ان نازک حالات میں مولانا فضل الرحمن
اور ان کے اتحادیوں کو طالع آزماؤں کاکردار ادا نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ
بند وق اور گولی کی طاقت کشمیریوں کے جذبہ کو ختم نہیں کر سکی آج بھارت
لاکھوں فوجیوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں کر فیو ختم کر نے سے ڈر رہا ہے۔
کشمیر پاکستان اور پاکستان کشمیر ہے۔ دونوں لازم وملزوم ہیں ہم خون کے آخری
قطرے تک ایک دوسرے کیساتھ ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی ادارے مسئلہ کشمیر
پر خاموشی ختم کر کے کشمیر یوں کو بھارت کے مظالم سے نجات دلائیں وقت آ
گیاہے کہ عالمی طاقتیں کشمیر یوں کو آزادی دلانے کیلئے اپنی ذمہ داری پوری
کر یں اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کر یں۔
نریندر مودی نے اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کیلئے بھارت میں ہمیشہ پاکستان
کے خلاف نفر ت کوفر وغ دیا۔ عمران خان نے پوری دنیا کے سامنے بھارتی جارحیت
کو بے نقاب کردیا وہ بھارت پر واضح کر چکے ہیں کہ وہ دھمکیوں سے ہمیں
خوفزدہ نہیں کر سکتا۔ بھارت کا شہر آبادیوں کو دانستہ نشانہ بنانا انتہائی
شرمناک اور انسانی عظمت و وقار، عالمی انسانی حقوق اور بین الاقوامی انسانی
قوانین کی صریحا ًمنافی ہے۔ بھارتی عزائم کو شکست دینے کیلئے پاکستان میں
کشمیری مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی انتہائی ضروری ہے ا س کے لئے موجودہ حکومت
کا ساتھ دینا حالات کا تقاضاہے اس تناطرمیں مولانا فضل الرحمان کا آزادی
مارچ افسوس ناک تھا حالانکہ کروڑوں پاکستانی کشمیریوں کے لئے خون کے آخری
قطرے تک بھارتی عزائم کے خلاف پاک فوج کے شانہ بشانہ جنگ کے لئے تیارہیں۔
کچھ مبصرین کا خیال ہے یہ بھی تاریخ ہے کانگرسی اور احراریوں نے کبھی
پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیاجبکہ پاکستان اولیاء کا فیضان ہے ان کے
ماننے والے استحکام ِ پاکستان کے لئے سب کچھ قربان کرسکتے ہیں کیونکہ انہی
لوگوں نے پاکستان بنایا تھا اور اس کو بچانے کیلئے بھی ہر قیمت ادا کرنے کے
لئے حاضرہیں ملک اس وقت کسی افراتفری کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ جنوبی ایشیاء
کے مسلمانوں نے تو انگریزوں سے آزادی حاصل کرکے پاکستان بنایا تھا اس وقت
مولانا فضل الرحمن کے والد اور مسلکی اکابرین ہندو جماعت کانگرس کے ساتھ
تھے قائد ِ اعظمؒنے ان لوگوں کو شکست دی تھی کروڑوں پاکستانیوں کا اس سوال
کاجواب درکارہے مولانا فضل الرحمن آزادی کے بعد کس سے آزادی کی سیاست کررہے
ہیں؟ انہوں نے برس ہا برس کشمیر کمیٹی کے نام پر جو مراعات حاصل کرتے رہے
کشمیر اور کشمیریوں کے لئے انہوں نے آج تک کیا کیاہے؟ |