کلیم اﷲ
چودہ اگست کا دن پاکستان کے یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کی
مناسبت سے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان مسلمانوں کی طویل جدو جہد کا ثمر
ہے۔مملکت خداد کے لئے بر صغیر کے مسلمانوں نے عظیم قربانیاں دی تھیں۔ ان
قربانیوں کو زندہ کرنے، یاد رکھنے، بار بار د ھرانے اور بوقت ضرورت اِسی
طرح کی قربانیاں دینے کے عزم و ارادے باندھنے کی ضرورت ہے۔اس لئے کہ ہم
قربانیوں کے ا ِن واقعات کو جس قدر دھرائیں گے قیام پاکستان کے مقاصد کو
اتنا ہی زیادہ سمجھیں گے جب ہم قیام پاکستان کے مقاصد کو سمجھ گئے تو کشمیر
سمیت ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے، ہمارا ملک ناقابل تسخیر بن جائے گا
اورہمارا دشمن ناکام و نامراد ٹھہرے گا۔قیام پاکستان کے واقعات۔۔۔قصے یا
کہانیاں نہیں بلکہ حقائق ہیں۔اِن کو بھولنا یا خود سے جداکرنااپنے قومی
تشخص کو بھولنے اوراپنی ذات کی نفی کے مترادف ہے۔
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ انگریز اور ہندو پاکستان کے سخت مخالف اور دشمن
تھے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہندستان تقسیم ہو اور مسلمانوں کا الگ وطن قائم
ہو لیکن ان کی سازشوں اورریشہ دوانیوں کے باوجود جب پاکستان کا قیام یقینی
ہو گیاتوانگریزوں کی سرپرستی ورہنمائی میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کے قتل
عام کا فیصلہ کرلیاگیا۔قتل عام کی تیاریوں کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے
کہ سکھ اور ہندو ریاستوں کی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں تقسیم ہند سے چھ ماہ
پہلے دھڑا دھڑ اسلحہ بننا شروع ہو گیا تھا۔ انگریز حکومت کی بیشتر سر کاری
مشینری ،بھارت کی وزارت داخلہ، بھارت کی فوج اور پولیس ۔۔۔۔ہندوسکھ ریاستوں
کے راجے مہا راجے اور ان کی فوج وپولیس،راشڑیہ سیوک سنگھ، ہندو مہا
سبھا،اکالی دل جیسی درجنوں جنونی ہندو تنظیموں کے ہزاروں رضاکاراور لاکھوں
کی تعداد میں عام ہندؤوں اورسکھوں نے مسلمانوں کا اعلانیہ قتل عام کیا۔حملہ
آور ہرطرح کے چھوٹے بڑے دیسی اور جدید اسلحہ سے مسلح ،گھوڑوں پر سواریا
پیدل قافلوں کی صورت میں مسلمانوں پر حملہ آور ہوتے۔دوسری طرف برطانوی
حکومت کے اہلکار اور چانکیہ کے پیروکارامن وشانتی کے بہانے اکثر مقامات پر
مسلمانوں کو پہلے ہی غیر مسلح کر چکے تھے۔مسلمانوں کاقتل عام اس پیمانے پر
کیا گیا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کلکتہ اور ممبئی سے
واہگہ تک تمام ہندوستان مسلمانوں کی لاشوں اور کٹے پھٹے اعضا سے بھر
گیا۔دریا ،ندیاں،نالے خونِ مسلم سے سرخ ہو گئے اور کنویں عفت ماٰب ماؤں
بہنوں بیٹیوں کی لاشوں سے بھر گئے۔دریاؤں کے کناروں پرمیلوں تک مسلمانوں کی
لاشوں کے انبار لگ گئے ،کماد اور دھان کے کھیتوں میں کھڑے برساتی پانی میں
ہزاروں معصوم بچوں کی لاشیں تیر رہی تھیں۔ہزاروں ایسے واقعات بھی ہیں کہ
ماؤں کواپنے شیر خوار بچوں کاخون پینے پر مجبور کردیا گیا ۔بہار سے آنے
والی ٹرین میں ایک ایسی عورت بھی سوار تھی جسے سات بچوں کا خون پلایا گیا
تھا وہ ماں صدمے،دکھ اور غم کی وجہ سے پا گل ہوچکی تھی۔ کیا کوئی صاحب ِ
اولاد اندازہ کرسکتا ہے کہ ا س ماں کے دل پرکیا گزری ہوگی اور اس نے باقی
زندگی کس دکھ اور کرب کے ساتھ بسر کی ہوگی۔۔۔۔۔؟اس طرح کے ایک نہیں ہزاروں
المناک المناک واقعات ہیں جنہیں زبان بیان کرنے اور قلم لکھنے سے قاصر
ہے۔یہ تھی پاکستان کی قیمت جو برصغیر کے مسلمانوں نے چکائی تھی۔
انگریز اور کانگر یس کے تعصب وعداوت نے مسلمانوں کو بیدار وہوشیار کردیاتھا،
انہوں نے جان لیا تھا کہ اگر وہ متحد نہ ہوئے توان کا مستقبل تاریک ہوجائے
گا،ان کا دین،عزت،آبرو خطرے میں پڑ جائیں گے،غلامی کی رات طویل تر
اورانگریزوں کے بعد وہ ہندؤوں کے شکنجہِ غلامی میں جکڑے جائیں گے۔ چنانچہ
مسلمان ۔۔۔۔مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونے لگے۔ علامہ محمد اقبال کے
دسمبر 1930 ء کے خطبہ الہ آبادنے مسلمانوں کو ایک نئی سوچ وفکر عطا کی اور
23مارچ 1940 ء کو لاہور میں ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس نے مملکت
اسلامیہ پاکستان کی صورت میں ان کے لئے راہ عمل اورمنزل متعین کردی ۔ یہ
ایسا وقت تھا جب مسلمان ہندوستان بھر میں بکھرے پڑے اورکمزور ومنتشر
تھے۔مگرجس چیز نے مسلمانوں کوبہت کم وقت میں متحد ومتفق کردیا،ان کو ناقابل
تسخیر قوت وطاقت بنا دیا،انگریزوں اور ہندؤوں کو شکست فاش سے دوچار کردیاوہ
تھا۔۔۔۔۔۔ نظریہ پاکستان۔۔۔۔ یعنی کلمہ طیبہ ۔
آخر27رمضان المبارک 14اگست کا دن آپہنچا اور مملکت خداداپاکستان کے نام سے
اپنے وقت کا سب سے بڑا اسلامی ملک قائم ہو گیا۔ جب پاکستان قائم ہوگیاتو ہم
نے سمجھ لیا کہ بس اب ہمارا مقصد حاصل ہوگیااور منزل پر پہنچ گئے ہیں۔
حالانکہ قیام ِ پاکستان۔۔۔ ہماری منزل کا ایک مرحلہ اورپڑاؤ تھا۔اس کے بعد
اگلامرحلہ۔۔۔۔۔۔ تکمیل ِ پاکستان کا تھاجو ہنوز حل طلب ہے۔سو۔۔۔پاکستان کی
تکمیل ،تشکیل اورتعمیر کا مرحلہ اس وقت مکمل ہوگا جب مقبوضہ جموں کشمیر
بھارتی تسلط سے آزاد ہوگا اس لئے کہ مسئلہ کشمیر ۔۔۔۔۔تقسیم ہند کا نامکمل
ایجنڈا ہے اور اس کاتعلق براہ راست پاکستان سے ہے۔
تقسیم ہند کے وقت برطانوی حکومت نے ریاستوں کے الحاق کا جو فارمولہ وضع کیا
اس کی روسے ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہونا چاہئے تھا۔بات صرف
ریاستوں کے الحاق کے وضع کردہ برطانوی فارمولے کی نہ تھی بلکہ کشمیری
مسلمانوں کی اپنی خواہش ومرضی بھی یہی تھی اس لئے کہ ان کا پاکستان کے ساتھ
دین،ایمان،سرحد،جغرافیہ اور عقائدو نظریات کا تعلق ورشتہ تھا۔تقسیم ہندسے
پہلے کشمیری مسلمان موجودہ بھارت اور پاکستان کے تقریباََ ہر علاقے میں
موجود تھے انہوں نے ہر جگہ قیام پاکستان کی تحریک میں بھر پورحصہ لیاجہاں
تک ریاست جموں کشمیر کا تعلق ہے وہاں کے مسلمانوں کے جذبات آسمان کو چھو
رہے تھے۔۔23مارچ1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے منعقدہ اجلاس میں عام
کشمیری مسلمانوں کے علاوہ درجن بھر نمائندہ کشمیری قائدین شریک ہوئے تھے یہ
سب اجلاس میں ہونے والی تقریروں اور قراردادوں سے پوری طرح متفق تھے۔کشمیری
مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی قیادت قیام
پاکستان کے مطالبے اورمقاصد سے پوری طرح متفق ویکسو تھی اور قیام پاکستان
سے ایک ماہ قبل الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کرچکی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ
کشمیری مسلمانوں کی پاکستان کے ساتھ محبت صرف قراردادیں پاس کرنے تک ہی
محدود نہ تھی بلکہ پاکستان کے لئے جانی ومالی قربانیاں پیش کرنے میں وہ کسی
طرح بھی برصغیر کے باقی مسلمانوں سے پیچھے نہ تھے۔صرف جموں شہر کے اڑھائی
لاکھ مسلمانوں کا خون تزئین ِ وطن اور قیام ِپاکستان کی آبیاری میں شامل
ہے۔جب قیام ِپاکستان کا اعلان ہو گیا تو ریاست جموں کشمیر کے کوہ ومیدان
’’پاکستان زندہ باد۔۔کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے گونج
اٹھے تھے۔ قاضی گنڈ سے بانہال اور کوہالہ تک ریاست کے ہر شہر،ہر گاؤں اور
ہربستی میں سبز ہلالی پرچم لہرارہے تھے اور ترنگے کا کہیں نام ونشان بھی نہ
تھا۔
سچی بات یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد قیام پاکستان کے لئے تھی
جبکہ کشمیری مسلمانوں کی جدوجہدقیام پاکستان کے علاوہ تکمیل پاکستان کے لئے
تھی جو آج بھی جاری ہے۔اہل کشمیر اس سفر میں تھکے ہیں نہ ہارے ہیں بلکہ
70سال کا طویل عرصہ گزرنے اور بیش بہا قربانیاں دینے کے باوجود آج بھی تازہ
دم ہیں۔برہان مظفروانی کی شہادت اور جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کئے
جانے کے بعد ۔۔۔۔کشمیر آتش فشاں بن چکا اور ایک نیا منظر پیش
کررہاہے۔کشمیری قوم مسلسل محاصرے میں ہے۔ روزانہ کشمیریوں کا خون بہایا
جارہا ہے مگر وہ آج بھی پاکستانی پرچم لہرا کر سینوں پر گولیاں کھا رہے اور
وطن عزیزپاکستان کا یوم آزادی منا رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ حکومت پاکستان جو
کشمیریوں کی سب سے بڑی وکیل ہے ان کی مددوحمایت کیلئے بھرپور کردار ادا
کرے۔حال ہی میں کشمیر کا نیا نقشہ جاری کرنا خوش آئند اقدام ہے جس میں
سیاچن اور سرکریک کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ آج اس موقع پر جماعۃالدعوۃ کے
سربراہ پروفیسر حافظ محمد سعید بہت یاد آرہے ہیں جنہوں نے کشمیر کی جدوجہد
آزادی کے حوالہ سے لازوال قربانیاں پیش کیں تو جونا گڑھ،مناوادر اور حیدر
آبادجیسی ریاستوں کے پاکستان کا حصہ ہونے سے متعلق بھی ہمیشہ آوازا ٹھائی
ہے۔اگرچہ آج ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر ان کی جماعت پر پابندیاں اور حافظ
محمد سعید ودیگر رہنما جیلوں میں ہیں لیکن مظلوم کشمیریوں کی آزادی کیلئے
ان کے کردار کی دنیا معترف ہے۔ یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ حافظ محمد
سعیدکو بلاوجہ قید رکھا گیا ہے اور یہ بھی زندہ حقیقت ہے کہ انہیں پاکستان
میں کشمیریوں کی سب سے مضبوط آواز سمجھا جاتا ہے۔کشمیری قوم کا اعتماد بحال
کرنے کیلئے حافظ محمد سعیدجیسے لیڈروں کو رہاکرنا بہت ضروری ہے۔بہرحال
بھارت نے پانچ اگست کا متنازعہ اقدام اٹھا کر مقبوضہ کشمیر کے حل کی راہ
خودہی ہموار کر دی ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان کو چاہیے کہ وہ جارحانہ
سفارت کاری کا رویہ اختیار کرے اور مسلم دنیا کو ساتھ ملا کر اقوام متحدہ
پرزور دیا جائے کہ مسئلہ کشمیر پر بند کمرے کا اجلاس اچھی بات ہے لیکن یہ
اس کا فرض ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ بڑھا کریو این کی پاس کردہ قراردادوں پر
عمل درآمد کروائے۔
|