لگ بھگ تین ماہ کی ’’کورونوی قید‘‘ کاٹنے کے بعدہم نے
باہر کی دنیا دیکھنے کا قصدکیا۔ امریکہ جانے کے لیے تین بار ایئر ٹکٹ بُک
کروائی لیکن تینوں بار نہ صرف کورونا لَٹھ لے کر پیچھے دوڑ پڑا بلکہ امریکہ
میں بیٹھی ڈاکٹربیٹی نے بھی کہہ دیا کہ خبردار اِن حالات میں اِدھر آنے کی
کوشش کی۔ چاروناچار ہم نے کراچی کا قصد کیا جہاں ہماری دوسری ڈاکٹر بیٹی
رہائش پذیرہے۔ اب اِن دنوں ہم کراچی میں ہیں۔ وہ کراچی جو عروس البلاد تھا،
روشنیوں کا شہر تھا۔ وہ کراچی جو سندھی، بلوچی، پختون اور پنجابی کی تفریق
کیے بغیر ہر کسی کو اپنے دامن میں سمیٹے بیٹھا تھا۔ وہ کراچی جو اقوامِ
عالم میں پاکستان کی پہچان تھا اور وہ کراچی جو میرے قائد کا شہر ہے۔ آج وہ
کراچی کہیں نظر نہیں آتا۔ آج اگر کچھ ہے تو صرف غلاظتوں کے ڈھیریا پھر
نفرتوں اور منافرتوں کی تہ دَرتہ پھیلی ہوئی فضاء۔ آج روشنیوں کے شہر کوایک
آمر کی نظر کھاگئی، وہ آمر جس نے جماعت اسلامی کو سبق سکھانے کے لیے ایک
لسانی گروہ کی پُشت تھپتھپائی اور پھر کراچی خونم خون ہوگیا۔ بھتہ خوری،
پرچی مافیااور ٹارگٹ کلنگ نے یوں رواج پکڑا کہ تلاشِ رزق میں نکلے پرندے سرِ
نوکِ سناں سجنے لگے، گھر گھر صفِ ماتم بچھی اور دَردَر نوحہ خوانی۔ تب سے
اب تک کراچی سنبھل نہیں سکا۔ میرے روشنیوں کے شہرکو ایم کیو ایم کے
اندھیروں نے نگل لیا۔ اب کراچی پر تحریکِ انصاف کا قبضہ ہے لیکن حکومت
پیپلزپارٹی کی۔ عالم یہ کہ کراچی پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف کے درمیان ’’سینڈوِچ‘‘
بنا کراہ رہاہے۔ ہم تو عروس البلاد کی تلاش میں آئے لیکن یہاں آکے بہت
اُداس ہوئے،پتہ نہیں وہ کراچی کہاں کھوگیا۔
مزارِ قائد کے سامنے کھڑے ہوکر جب ہم نے دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تو جانے
کیوں ناصرکاظمی یاد آئے۔
یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اُٹھانے والے کیا ہوئے
زمیں کا بوجھ اُٹھانے والے تو اپنا فرض ادا کرکے پاکستان نامی زمیں کا یہ
ٹکڑا ہمارے سپرد کرکے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ باقی کچھ بچا تو صرف ’’کچرا
‘‘یا پھر قائد کی جیب کے کھوٹے سِکّے، کرپشن کے مگرمچھ یا نفرتوں کے
سوداگرجن میں اتحاد ہے، ایمان نہ تنظیم۔ اگر کچھ ہے تو صرف اپنی ذات کے گرد
گھومتی فرعونی طاقت کی خواہش، کرسی کے حصول کی تگ ودَو اور شیروانی پہ
ٹپکتی رالیں۔ آج سیاست تجارت میں ڈَھل چکی۔ کسی کو یاد نہیں کہ بابائے قوم
نے ہر لالچ کو جوتے کی نوک پہ رکھا۔ اُنہیں جج بنانے کی پیش کَش ہوئی،
اٹارنی جنرل بنانے کی تگ ودَو کی گئی، گورنری تھال میں سجاکر پیش کی گئی
حتیٰ کہ گاندھی نے متحدہ ہندوستان کا وزیرِاعظم بنانے پر اصرار کیا لیکن
قائد کا ایک ہی جواب ’’ہمیں زمین کا ایک ٹکڑا چاہیے جسے ہم اسلام کی تجربہ
گاہ کے طور پر استعمال کر سکیں‘‘۔ حیرت ہے کہ دَورِجدید کے کئی لبرل اور
سیکولر دانشور قائدِاعظمؒ کو لبرل ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا
رہے ہیں۔ اُن کی تان قائد کی 11 اگست کی اُس تقریر پر ٹوٹتی ہے جس میں
اُنہوں نے مذہبی رواداری کا درس دیاجو کہ عین اسلام ہے۔ حیرت ہے کہ اِن
سیکولرز کی نظر قائد کے اُن خطبات پر کیوں نہیں پڑتی جن میں اُن کا
محورومرکز صرف اسلام ہے۔ حقیقت یہی کہ زمین کا یہ ٹکڑا اسلام کے نام پر
حاصل کیا گیا، یہی اقبالؒ کا خواب تھا اور یہی قائد کی شبانہ روز محنتوں کا
ثمر۔
سات عشروں سے یہ قوم اُس اسلامی نظام کی تلاش میں ہے جس کا ذکر
قراردادِمقاصد میں موجود، جو ہمارے آئین کا جزوِ لاینفک لیکن اُس پر عمل
دَرآمد مفقود کہ ہم ہنوز قائد کی تلاش میں اور حالت یہ کہ
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اِک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی رَہبر کو میں
’’مردِمومن‘‘ ضیاء الحق اسلامی نظام کا نعرہ لگا کر ایک عشرے سے زائد حکومت
کرگیا۔ لیکن اسلام آیا نہ اسلامی نظام البتہ اُس کی نظامِ اسلام کی رَٹ نے
لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال ضرور پیداکیا کہ فی زمانہ اسلامی نظام قابلِ
عمل نہیں۔ وہ آمرِ مطلق تھا اور اگر اُس کی نیت میں فتور نہ ہوتا تو اُس کے
لیے مکمل اسلامی نظام کا قیام کچھ مشکل نہ تھا اِسی لیے سیکولرز نے کہا کہ
اگر فی زمانہ اسلامی نظام قابلِ عمل ہوتا تو ضیاء الحق نہ کرجاتا۔ اُس کے
دَورمیں ہمیں کچھ ملا تو کلاشنکوف کلچر یا پھر آرٹیکل 62/63 اور 58-2B۔
کلاشنکوف کلچر نے ملک میں دہشت گردی کو فروغ دیا۔ 58-2B کی تلوار ضیاء الحق
سمیت ہر صدر نے ہر وزیرِاعظم پر استعمال کی اور 62/63 کا آج بھی غلط
استعمال ہو رہاہے۔
نوازلیگ کی حکمرانی کے تینوں ادوار میں نظامِ اسلام کے لیے سِرے سے کوئی
کوشش ہی نہیں کی گئی حالانکہ شریف گھرانہ خالصتاََ مذہبی گھرانہ تصور کیا
جاتاہے اور نوازلیگ دائیں بازو کی جماعت۔ پیپلزپارٹی نے کبھی اسلامی نظام
کے قیام کا دعویٰ کیا نہ کوشش حالانکہ جس 1973ء کے آئین کی تشکیل پر اُسے
فخرہے اُس کے مطابق پاکستان میں سوائے اسلامی نظام کے اور کوئی نظام ہوہی
نہیں سکتا۔ پھر باری آئی ’’صاف چلی، شفاف چلی‘‘ کی۔ خانِ اعظم کا نعرہ
’’ریاستِ مدینہ‘‘ کی تشکیل ہے۔ وہ ’’نئے پاکستان‘‘ کو ریاستِ مدینہ کی طرز
پر ڈھالنا چاہتے ہیں لیکن شاید اُن کی نیت میں بھی فتورہے۔ وجہ یہ کہ 2013ء
کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کو مرکزمیں حکومت تشکیل دینے کا موقع نہ ملا
لیکن کے پی کے میں وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ اگر خاں صاحب چاہتے تو
کے پی کے میں بطورنمونہ ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کا ماڈل پیش کرکے قوم کو یہ بتا
سکتے تھے کہ مرکز میں حکمرانی کی صورت میں وہ پورے پاکستان میں یہی نظام لے
کر آئیں گے لیکن اُنہیں تو دھرنوں سے ہی فرصت نہ ملی۔ چلیں! اِسے چھوڑ کر
آگے بڑھتے ہیں۔ اگر 2013ء سے 2018ء تک خاں صاحب سے غلطی ہو گئی اور وہ کے
پی کے میں ریاستِ مدینہ کا قیام بھول گئے تو اب؟۔ اب تو وہ ہمہ مقتدرہیں
اور طاقت کے اصل مرکز سمیت تمام ادارے نہ صرف ایک صفحے بلکہ اُن کی پُشت
پر، اب کیا امر مانع ہے؟۔ شاید کل کلاں وہ ریاستِ مدینہ کی تشکیل میں
ناکامی کا الزام بھی نوازلیگ اور پیپلزپارٹی پر دَھردیں یا پھر یہ کہہ دیں
کہ اُن کے ہاتھ اتحادیوں نے باندھ رکھے تھے۔ سوال مگر یہ کہ جو سب کے
سامنے، اُس پر عمل درآمد کیوں نہیں؟۔ خاں کے احتساب کی تلوار صرف اپوزیشن
کا گلا کاٹنے کے لیے ہی کیوں؟۔ خاں صاحب کو یہ تو یقیناََ یاد ہوگا کہ جب
حضورِاکرمﷺ نے طاقتور قبیلے کی فاطمہ نامی عورت کا چوری میں ہاتھ کاٹنے کا
حکم دیا تو صحابہ اکرام رضوان علیہم نے عرض کیا کہ طاقتور قبیلے کی عورت
ہے، فساد کا خطرہ ہے، اِس لیے معاف کر دیاجائے۔ آقاﷺ نے فرمایا ’’رَبّ ِ
کعبہ کی قسم اگر اِس عورت کی جگہ میری بیٹی فاطمہ ؓ بھی ہوتیں تو میں اُس
کا ہاتھ کاٹنے کا بھی حکم دیتا‘‘ (مفہوم) ۔ ریاستِ مدینہ کے امیرالمومنین
حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’اگر عدل کا پلڑا کسی کی وجاہت کے خوف سے اُس کی طرف
جھُک جائے تو قیصروکسریٰ کی حکومتوں اور اسلامی حکومت میں کیا فرق ہوا‘‘؟۔
ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے داعی خانِ اعظم کے دائیں بائیں کرپشن کے مگرمچھ،
جن سے خود خاں صاحب بھی واقف لیکن اُن سے صرفِ نظر پھر بھی دعویٰ ریاستِ
مدینہ کی تشکیل کا۔
شراب کی بوتل کو شہد قراردینے والا ایک شخص نہ صرف وزیرِباتدبیر بن جائے
بلکہ کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی بھی اُس کے سپرد کردی جائے اور نعرہ ریاستِ
مدینہ کا لگایاجائے تو کون اعتبار کرے گا؟۔ خاں صاحب کو یاد دلاتے چلیں کہ
دسمبر 2018ء میں اُنہی کی جماعت کے ہندو رکنِ اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار نے
شراب پر پابندی کا بِل پیش کرتے ہوئے لکھا کہ اسلام اور مسیحیت سمیت تمام
بڑے مذاہب میں شراب کو حرام قرار دیا گیاہے اِس لیے آئین کے آرٹیکل 37 میں
ترمیم کرکے شراب کو غیرمسلموں کے لیے بھی حرام قرار دیاجائے لیکن ریاستِ
مدینہ کے لیے قانون سازی کا دعویٰ کرنے والوں نے یہ بِل مسترد کردیا۔ پنجاب
کے وزیرِاعلیٰ عثمان بزدارکو نیب نے 12 اگست کو طلب کیا۔ اُن پر الزام یہ
کہ اُنہوں نے ذاتی اثرورسوخ استعمال کرکے اپنے ایک عزیز کو ایک ہوٹل میں
شراب کا ٹھیکہ دلوایا۔ کیا خانِ اعظم نے ذاتی طورپر اِس کی تصدیق کی؟۔ یہ
سب کچھ تو رکھئیے ایک طرف آج تو پاکستان میں لڑکی سے لڑکی کی شادی ہوئی،
تاریخی مسجد کو پروڈکشن ہاؤس کے لیے گانا پکچرائز کرنے کے لیے کھولاگیا۔
ہمارے میڈیاہاؤسز ریٹنگ اور پیسہ کمانے کے چکرمیں ایسے ڈرامے پیش کر رہے
ہیں جن میں سرِعام رشتوں کے تقدس کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں لیکن حکمران
خاموش۔ اِسی لیے کہنا پڑتاہے کہ یہ دھرتی کسی قائد کی تلاش میں ہے جو کہے
’’مجھے زمین کا ایک ٹکڑا چاہیے جسے اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال
کیا جا سکے‘‘۔
|