گزشتہ دنوں 14 اگست کو پاکستان کی عوام نے 73 واں یوم
آزادی جوش و خروش سے منایا. عوام نے سڑکوں پر نکل کر باجوں کی آواز سے جشن
آزادی کا برملا اظہار کیا اور گھروں میں پرچم کشائی بھی کی گئی. عوام نے
سڑکوں پر قائد اعظم، علامہ اقبال کے مزارات اور دیگر تاریخی مقامات کے ماڈل
بنا کر جشن آزادی کا اظہار کیا. خیر یہ سب لوگوں کے جشن کے نت نئے طریقے
تھے.
اس جشن کو بعض لوگوں کی طرف سے سراہا گیا اور بعض کی طرف سے تنقید کا نشانہ
بنایا گیا. اس موقع پر مجھ خاکسار کو بھی جشن آزادی پرتپاک انداز سے منانے
پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا. کیونکہ میں بھی باقی محب وطن پاکستانیوں کی
طرح لاہور کی خوش گوار اور خوبصورت فضا میں مال روڈ کی دل کش لائٹنگ کا لطف
اٹھا رہا تھا اور ساتھ ساتھ نعرے بازی میں مصروف تھا. نیز ہجوم سے گزرتے
ہوئے ولولہ بڑھتا ہی جا رہا تھا. گویا کہ لوگوں کا جم غفیر باجوں اور نعروں
کی گونج سے محظوظ ہورہا تھا
اب میں گھر واپسی کے راستے پر روانہ تھا کہ ایک جگہ کچھ دیر کے لئے بریک
لگی. میں ایک بیکری کے سامنے رک گیا تھا. میرے پیچھے سوار نوجوان کزن نے
دوبارہ باجا بجایا اور یوں لگتا تھا کہ وہ اب بھی باجوں اور نغموں کے حصار
سے باہر نہیں نکلا تھا. ایسے میں بیکری کے گیٹ پر حفاظت پر معمور ایک
سیکورٹی اہلکار یہ منظر دیکھ رہا تھا. اچانک وہ اہلکار میرے پاس آیا اور
مجھ سے بے ساختہ سوال کیا. اس کا سوال بہت سادہ بھی تھا اور پیچیدہ بھی تھا.
اس نے بے تکلفانہ لہجے میں کہا کہ صاحب اگر آج قائد زندہ ہوتے تو کیا وہ
بھی ایسے ہی باجے بجا کر جشن آزادی مناتے؟ اس کا یہ سوال در اصل ہمیں
شرمندہ کرنے کے لئے تھا. لیکن ہم بھی ڈھیٹ ہڈی تھے دوبارہ باجا بجایا اور
کہا کہ نہیں، اس کا جواب سادہ تھا کہ یہ تو عوام کا خود ساختہ جشن کا طریقہ
کار ہے. اس کا قائد اعظم کے ساتھ کیا واسطہ ممکن ہوسکتا ہے. کیونکہ پاکستان
کے وجود سے پہلے ہمارے آباو اجداد ہندوؤں اور دوسرے مذاہب کے ساتھ رہتے تھے.
ان کے تہوار اور جشن کے طریقے ہمارے بزرگوں نے نئے وطن پاکستان میں بھی
رائج کروائے. نیز یہی روایات وراثت نے ہمیں فراہم کیں . جس میں جہیز کی
لعنت بھی شامل ہے. لہٰذا جس کی وجہ سے ہمارے اندر بھی ہندوؤں کے رسم و رواج
جنم لینے لگے اور پھر جشن کا طریقہ کار بھی ہندوانہ ہوتا گیا. یعنی کہ
ہمارے آباو اجداد نے دو قومی نظریہ مکمل طور پر عمل درآمد نہیں کروایا.
کیونکہ دو قومی نظریہ تو یہ ثابت کرتا ہے کہ ہم ہر حوالے سے جداگانہ تشخص
رکھتے ہیں. کیونکہ جب ہمارا مذہب ہی جدا ہے تو ہمارا تشخص جدا کیوں کر نہ
ہو. لیکن ابھی بھی وطن عزیز میں زائد تہواروں میں ہندوانہ رنگ جھلکتا ہے.
جو کہ دو قومی نظریے کی وقعت کو کم کرتا ہے. خیر یہ تو ہوگیا سوال کا آسان
جواب.....
اگر ہم اس سوال کو تنہائی میں جاکر سوچیں تو معلوم ہوگا کہ حقیقتاً یہ سوال
اتنا سادہ نہیں جنتا یہ بظاہر لگتا ہے. بلکہ یہ سوال اتنا پیچیدہ ہے کہ یہ
مزید کئی سوالات کو جنم دیتا ہے. کیونکہ باجے تو درکنار قائد تو خوش بھی نہ
ہوتے. اس پر سوال یہ کہ کیا قائد بھی اتنے ہی شاد ہوتے آج کا پاکستان دیکھ
کر جتنا کہ عام عوام ہوتی ہے؟ حقیقتاً اس سوال کا جواب مزید ایک اور سوال
کو جنم دیتا ہے کہ کیا واقعی یہ ہے قائد کا پاکستان؟ یعنی کیا پاکستان قائد
کے اصولوں کے مطابق چل بھی رہا ہے؟ بدقسمتی سے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ
پاکستان قائد اعظم کا پاکستان نہیں ہے ! اس لئے کہ پاکستانی تو قائد کے
اصولوں کے منافی عمل پیرا ہیں . کیونکہ دفاتر میں قائد اعظم کی تصویر تو
لگاتے ہیں لیکن کام عین مخالف کرتے ہیں. جس نوٹ نے پاکستان کو ترقی کی راہ
پر گامزن کرنا تھا. وہ نوٹ کرپشن کی ایندھن میں اضافے کا سبب بن گیا. اب
یہی نوٹ امیر کی آسانی اور غریب کی ہزیمت کا باعث بن گیا. گویا کہ ہر طریقے
سے ہم نے قائد کو نظرانداز کردیا. اس کا نقصان یہ ہوا کہ ترقی اور خوشحالی
نے پاکستان کو نظرانداز کرنا شروع کردیا. نیز ملک عدم استحکام کا شکار ہوتا
گیا.
سوال ابھی جاری ہے کہ کیا یہ ہے قائد کا پاکستان ؟ کیونکہ وہ قائد جس نے
اپنی بیماری کو اپنے عظیم الشان مقصد کے حصول میں آڑے نہ آنے دیا. وہاں اس
قائد کے پاکستان میں سابق وزیراعظم بیماری کا بہانہ بنا کر ملک سے باہر چلا
جاتا ہے اور اپنے نعرے کو بھول کر لندن کی پر فضا اور خوش گوار موسم میں
کافی پیتے پایا جاتا ہے. وہ قائد جس نے کبھی عوام کی پائی سے اپنی جان پر
ایک روپے تک استعمال نہ کیا. وہاں اس قائد کے ملک میں سابق وزرائے اعظم
عوامی پیسوں سے پورے کنبے کو لندن اور امریکہ کی سیر کروانے سے دریغ نہیں
کرتے.
وہ قائد جو کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی فیصلہ کرو تو اس پر قائم رہو. لیکن
وہاں اس قائد کے پاکستان میں یوٹرن یعنی (فیصلہ سے پیچھے ہٹ جانا) کو عقل
مندی کے استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے . وہ قائد جو اپنی تقاریر
میں اکثر کہا کرتے تھے کہ" دفاع پر معمور اعلیٰ افسران کو ملک کی فیصلہ
سازی میں کوئی کردار حاصل نہیں. نیز وہ جمہوریت کے زیر اہتمام اپنی خدمات
انجام دیں. وہاں اس قائد کے پاکستان میں دفاع کے ضامن اعلیٰ افسران جمہوریت
کو گھر کی کھیتی سمجھتے ہوئے نظر انداز کرتے ہیں اور مارشل لاء لگا کر
جمہوریت کا اور قائد اعظم کے اصولوں کا جنازہ نکالا جاتا ہے . نیز
اسٹیبلشمنٹ کو تشکیل دیا جاتا ہے اور سیاسی لیڈران کی پرورش کی جاتی ہے .
لیکن پھر بھی ان سب باتوں کے قطع نظر دفاع پر معمور اہلکاروں کی قربانی نے
پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دیا. جو کہ پاکستان کی عوام فراموش نہیں
کرسکتی. لیکن پھر بھی بحیثیت پاکستانی ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کس روش کو
اپنائے ہوئے ہیں اور کب تک ہم اس پر گامزن رہیں گے؟ یہ بحث طویل ہوتی جائے
گی اور ثابت ہوتا جائے گا کہ واقعتاً آج کا پاکستان قائد کا پاکستان نہیں
ہے. اس لئے اس طویل بحث کو یہاں ہی سمیٹ دیتے ہیں.
کیونکہ ان سب باتوں سے ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ یقیناً ہم ایسا پاکستان
نہیں بنا سکے جو کہ قائد کا ویژن تھا اور علامہ اقبال کا خواب تھا. ہم نے
قائد کی وفات کے بعد آمریت کو اپنا ویژن بنا لیا اور اس ہی کی نرسری کے
تیار کردہ لیڈران کو اپنا حقیقی لیڈر مانا. جو کہ پاکستانی مفاد کے عین
مخالف تھا. اس لئے قائد باجے تو دور آج کا پاکستان دیکھ کر شاد بھی نہ
ہوتے. خیر اب بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے، 73 سال کا یہ عرصہ ہم نے قائد
کے اصولوں کے خلاف گزار لیا. لیکن ابھی بھی وقت ہے. ہمیں چاہیے کہ قائد کے
افکار اعلیٰ کو اپناتے ہوئے ملک کو قائد اعظم کے طے شدہ اصولوں کے مطابق
چلایا جائے. یقیناً جب ملک قائد کے اصولوں پر چلے گا تو قائد بھی خوش ہوں
گے اور جشن کا انداز بھی تبدیل ہوگا. مزید یہ کہ دو قومی نظریے کا اصل چہرہ
بھی نظر آئے گا. جس کو آج کا مسلمان بھلا چکا ہے.
|