نور صاحب کے کمرے کے عقب میں ایک کھڑکی کھلتی تھی۔ کھڑکی کے پار حد نگاہ ایک وسیع و عریض سرسبز و شاداب کشادہ قبرستان تھا جسکا نام " جنت الفردوس " تھا۔یہاں ہر طرف ر نگ رنگے پھول اپنی بہار دکھاتے تھے۔ موتیا، مونگرہ ، چنبیلی ، مروہ ، رات کی رانی ، دن کے راجہ کی بھینی بھینی خوشبو قبروں پر پڑے تازہ گلاب، تازہ قبروں سے امڈتی کافوری خوشبو ، لوبان کی اگربتیوں کی مہک اور گیلی مٹی کی سوندھی خوشبو کے ساتھ مدغم ہوکر فضا میں ایک پراسرار و لطیف سا سحر طاری کردیتی تھی۔سکوت میں اجل دکھائی دیتا۔
ان خوشبووں سے نور صاحب کا کمرہ ہر وقت معطر رہتا ۔زمین پر گویا جنت کا سا گماں ہوتا۔ نور صاحب روزانہ فجر کے بعد یہ کھڑکی کھولتے اور پھر زکر وازکار اور چاشت کی نماز کے بعد سورج کی تمازت محسوس ہوتے ہی کھڑکی بند اور پردہ گرا دیتے ۔پھر یہ کھڑکی سر شام ہی کھلتی۔ نور صاحب کی اوائل عمری ہی سے ایک تمنا تھی کہ انکا ایک چھوٹا سا خوبصورت سا گھر ہو ۔ گھر کے وسط میں ایک علحیدہ کمرہ ہو۔
کمرے کے عقب کی کھڑکی خوبصورت باغ میں کھلتی ہو۔ مگر زندگی کاروباری جھمیلوں میں گزرتی چلی گئی۔فرصت ملی نہ ہی استطاعت ۔جوانی میں جو کمایا وہ خرچ کردیا ۔پھر اسی دوران چار بچیوں کی اللہ تعالی نے خوش اسلوبی سے شادیاں کروادیں۔ بچے پڑھ لکھ کر برسر روزگار یوگئے۔
شباب اپنا جوبن بتا کر رخصت ہوچکا تو پیرانہ سالی دروازہ کھٹکھٹانے لگی مگر کھڑکی والے گھر کی آرزو دل ہی دل میں جوان ہورہی تھی بلکہ مچلنے لگی تھی ۔ جو کچھ پس انداز کیا تھا اتنا نہ تھا کہ اپنے خوابوں کا مسکن تعمیر کر سکیں جو اپنے دامن میں وسیع باغ بھی رکھتا ہو۔ ایک شب دونوں میاں بیوی اسی شش و پنج اور جوڑ توڑ میں مصروف تھے کہ انکا بڑ ا بیٹا ڈاکٹر فخر جوکہ شہر کا مشہور کارڈیولوجسٹ تھا کمرہ میں داخل ہوا۔ فخر اپنے بابا کا فخر تھا انکی امیدوں کا مرکز اور تمناوں کا محور۔ فخر بہت ہی سعادت مند اور فرمان بردار بیٹا تھا ۔اپنے ماں باپ کی خوشی ہی میں اپنی خوشی ڈھونڈتا ۔ اسکو اپنے بابا کے سپنے پورا کرنے کی فکر دامن گیر رہتی تھی۔ فخر نے کچھ دیر اپنے بابا کی ہلکے ہلکے ٹانگیں دبائیں اور پھر بتایا کہ میرا دوست اپنا گھر بیچ کر انگلینڈ شفٹ یورہا ہے۔ ٹاون ہاوس ہے۔ نیچے ڈرائنگ ڈائننگ وسیع لاؤنج اور ایک الگ تھلک کمرہ جسکی کھڑکی وسیع و عریض سرسبز و شاداب باغ میں کھلتی یے۔ قیمت بہت ہی مناسب ہیے اللہ نے چاہا تو باآسانی انتظام ہوجائے گا۔ ادائیگی کیلئے مہلت بھی مل جائے گا۔دوست کو کوئی جلدی نہیں ہے۔ مکان بالکل ایسا لگتا ہے جیسے بابا کے تخیل کو حقیقت کا روپ دے دیا گیا ہو بس زرا سا مسئلہ ہے وہ آپ چل کر خود دیکھ لیں۔ فخر کچھ کہتے کہتے رک سا ہو گیا ۔ نور صاحب کی تو جیسے دل کی مراد پوری ہوتی نظر آئی۔بیتے کا ماتھا چوما اور اسے گلے لگا لیا۔ اگلے دن پوری فیملی گھر دیکھنے گئی گھر کیا تھا بالکل نور صاحب کا سپنا حقیقت کا روپ دھارے کھڑا تھا۔سب چیزیں بالکل پرفیکٹ تھیں ۔ علحیدہ کمرہ ۔ ۔کمرہ میں عقبی کھڑکی ۔ کھڑکی میں سے جھانکتا سرسبز و شاداب جنت نظیر باغ ۔مگر جو بات بالکل غیر متوقع تھی وہ تھا باغ سے جڑا قبرستان ۔ بس یہ ملحقہ قبرستان قطعی اضافی تھا جو سپنوں میں بھی کبھی شامل نہ رہا تھا یہی وہ بات تھی جو فخر نے گول کردی تھی۔ یہ منظر دیکھکر نور صاحب کو ایکدم جھٹکا تو لگا مگر لب بام فقط دو ہاتھ کے فاصلے پر چھوڑنا بھی گوارا نہ تھا۔ بیگم نے دبے لفظوں میں خوف کا احساس دلایا مگر نور صاحب فیصلہ کر چکے تھے ۔ یوں سمجھیں کہ ایک نئی دنیا نور صاحب کی منتظر تھی۔
بابا قلندر کہتے ہیں کہ "جس چیز کو ہم موت کہتے ہیں اُس میں بھی ایک وسیع دنیا آباد ہے۔ اُس دنیا میں بھی زندگی اپنے تمام رنگوں کے ساتھ حرکت میں ہے…. ہم نے چونکہ اسکو خوف کی علامت بنا دیا ہے، اس لئے اندھیرے میں روشن یہ دنیا ہم پر منکشف نہیں ہوتی…. لیکن ایسے واقعات اکثرو بیشتر پیش آتے رہتے ہیں جب کشورِ ظلمات کے مظاہر کے ادراک کا احساس ہونے لگتا ہے…."
نور صاحب کے اندر بھی یہ احساس جنم لینے والا تھا۔
چند ہی دنوں میں ضروری مرمت رنگ و روغن کرواکر وہ سب نئے مکان میں منتقل ہوگئے۔ نئے مکان میں منتقلی کے بعد اگلے دن انہوں نے قرآن خوانی کا اہتمام رکھا۔ فخر نے قریبی مسجد سے طلبہ کو قرآن خوانی کیلئے مدعو کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ یہاں صرف مسجد ہے مدرسہ نہیں ۔پچیس تیس سال پہلے ایک قاری صاحب نے مدرسہ بنایا ہوا تھا مگرلینڈ مافیا نے اسے ملیا میٹ کردیا تھا۔قاری صاحب اور انکے کئی شاگرد بلڈوزر کی زد میں آکر شہید ہوگئے تھےحیرت انگیز طور پر انکی قبریں بھی اچانک ہی معدوم ہوگئیں تھیں۔ خیر گھر والوں نے طے کیا کہ فیملی اور دوست احباب ہی مل جل کر قرآن خوانی کرلیں گے۔ عصر تا عشا کا وقت طے ہوگیا۔ عصر کے وقت سے کچھ دیر پہلے نور صاحب اپنے کمرہ میں اپنی تیاریوں میں مصروف تھے۔سفید لباس زیب تن کیا اسے عطر عود و عنبر ،جو انکی ہمشیرہ خاص طور پر انکے لیئے بازارجنت البقیع سے لائی تھیں کی، خوشبو سے بسایا ہی تھا کہ اچانک انکا گول مٹول سا لاڈلا پوتا تیمور کمرہ میں آگیا ۔ اسنے کمرہ کی عقبی کھڑکی چھٹ سے کھول دی اور کرسی پر بیتھ گیا۔ کھڑکی کھلتے پی پورا کمرہ گلاب اور موتیے کی خوشبو سے مہکنے لگا۔ نور صاحب نے لاڈلے پوتے کو پیار بھری نظروں سے دیکھا مگر وہ تو کسی اور ہی دنیا میں مگن تھا۔ اسکی گول مٹول آنکھیں پورے کمرہ کا طواف کررہی تھیں۔اچانک کہنے لگا کہ "دادا جان وہ دیکھیں موٹا سا بچہ مجھے دیکھ کر کتنا خوش ہورہا ہے ۔ اسکو اندر بلالیں ۔ ۔میرا دوست بنے گا۔ میں اسکے ساتھ کھیلوں گا۔ دادا یہ دیکھیں اس بچی کو یہ میرے Toys سے کھیل رہی ہے۔" نور صاحب نے حیرت سے کھڑکی کے پار دیکھا کمرے میں نظریں دوڑائیں مگر کچھ نطر نہ آیا۔ ابھی وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھے کہ تیمور نے ایک اور دھماکہ کر دیا۔۔ "دادا جان وہ دیکھیں بوڑھے قاری صاحب اور بہت سے ننھے ننھے طالب علم سفید ٹوپی اور سفید کپڑے پہنے سپارے ہاتھوں میں لیئے ہمارے گھر آرہے ہیں ۔" نور صاحب کچھ نہ دیکھتے یوئے بھی بہت کچھ سمجھ گئے۔
وہ سمجھ گئے کہ پچے معصوم ہوتے ہیں انکے اور پاکیزہ روحوں کے درمیان حجاب کے پردے حائل نہیں یوتے۔ تیمور کو تو پیار سے بہلا پھسلا کر زبردستی اندر دادی کے پاس بھیج دیا۔مگر خود کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔ اسی دوران عصر کا وقت ہوچکا تھا ۔نماز کی ادائیگی کے فوری بعد کسی انجانے خیال سے فخر کو بلایا اور چند ضروری ہدایات دیں جو اس نے پوری توجہ اور ادب سے سنیں ۔ فخر نے دو دیگیں قورمہ و بریانی کی مزید آڈر کردیں۔ساتھ میں مٹھائیاں گلاب جامن رس گلے چم چم قلاقند اضافی آرڈر کردیں۔ لوبان کی اگربتیاں منگوا کر گھر میں سلگا دیں ۔کچھ ہی دیر میں گھر میں لوبان کے ساتھ ساتھ کافوراور تازہ گلاب کی پٹیوں کی انجانی مدھر خوشبو بھی خود بخود مہکنے لگی۔ گھر بھر میں ایک انہونی سی چہل پہل محسوس ہورہی تھی جبکہ مہمانوں کی آمد تو ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تھی۔ اگست کے عالم حبس میں بھی عجب ٹھنڈک سی نور صاحب کے وجود میں اترتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔ قرآن خوانی جاری تھی کہ یکدم بجلی چلی گئی۔ سنا ٹا طاری ہوگیا۔ سناٹے میں ہلکی سی آہٹ ہوئی ۔ دھیرے سے مرکزی دروازہ کھلا ۔ سفید براق لباس اور سرخ امامہ میں ملبوس ایک انتہائی نورانی شکل و صورت کے بزرگ اندر داخل ہوئے۔ ایک نور کا ہالہ سا انکے گرد طواف کررہا تھا۔ بجلی گئی ہوئی تھی تھی مگر اچانک فانوس پوری آب و تاب سے روشن ہوگیا جیسے اچانک 440 والٹ کا ہائی وولٹیج آگیا ہو۔ یہ دیکھ دیکھکر نور صاحب کو حیرت کے جھٹکے لگ رہے تھے مگر انہوں نے خود پر قابو رکھا۔ بزرگ نےعربی لحن میں تلاوت قرآن شروع کردی۔لہجہ ایسا شیریں تھا کہ ماحول پر ایک پر کیف وجد طاری ہوگیا۔ وقت جیسے تھم سا گیا ۔
حضرت نے گل و گیر لہجہ میں دعا فرمائی جب شہدا کی مغفرت کی خصوصی دعا ہوئی تو یلکی ہلکی سسکیوں سے کمرہ گونجنے لگا اسی دوران میں مغرب کی اذان کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ بزرگ یکدم اٹھ کر جانے لگے انکے اٹھتے ہی ایسا محسوس ہوا جیسے فضا میں ارتعاش سا پیدا ہوگیا ہو۔ نور صاحب نے بے اختیار مصافحے کیلئے اپنا ہاتھ آگے بڑھادیا حضرت نے مسکرا کر مصافحہ کرلیا ۔انکی نظروں کی گہرائی اور ہاتھوں کی یخ ٹھنڈک نور صاحب کو اپنی ریڑھ کی ہڈی سے ہوتی ہوئی روح تک اترتی محسوس ہوئی۔ نور صاحب کی نگاہیں عین اسی لمحہ وہاں موجود جمعہ خان کی نظروں سے چار ہوئیں ان میں عجیب الجھن سی دیکھائی دی جسے نظرانداز کرنا ممکن ہی نہیں تھا ۔ نماز فجر کے بعد جب نور صاحب چہل قدمی کیلئے قبرستان کی طرف کو نکلے تو جمعہ خان دبے دبے قدموں انکے پیچھے آگیا۔ جمعہ خان بوڑھا بلوچ گھورکن تھا جو چند ہی دنوں میں نور صاحب کا پکا دوست بن گیا ۔ جمعہ خان نے دھیرے سے بتایا کہ جو بزرگ کل شام آپکے گھر تشریف لائے تھے وہ وہی قاری صاحب تھے جو بیس پچیس سال پہلے مدرسہ چلاتے تھے اور شہید ہوگئے تھے۔ نور صاحب کی ریڑھ کی ہڈی تک میں سنسناہٹ محسوس ہونے لگی۔ قرآن پاک میں سورہ آل عمران کی آیت زہن کے نہاں خانوں میں جگمانے لگی ! '"جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے، ان کو مردہ ہرگز گمان نہ کرو،بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور انھیں روزی مل رہی ہے۔'' وہ سمجھ چکے تھے کہ باغیچہ کی کھڑکی کا سپنا انہیں کسی اور پی دنیا سے جوڑ چکا ہے۔ اس جوڑ میں نور صاحب خود ،تیمور اور جمعہ خان انکے ساتھی تھے۔ پھرتو یہ روز کا معمول بن گیا ۔ چھوٹے موٹے واقعات انکی زندگی کا حصہ بنتے جلے گئے ۔ ہر جمعرات کو گھر میں روح پرور محفل کا انعقاد ہونے لگا جسکی خاص بات یہ تھی کہ جب پورے علاقے کی بجلی بند ہوتی نور صاحب کا گھر بقعہ نور بنا ہوتا ۔ نئے گھر میں منتقل ہوئے پانچ ہی ماہ گزرے تھے کہ اچانک ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے نور صاحب کی زندگی کو یکسر بدل ڈالا ۔ دسمبر کی سرد اور اندھیری رات تھی ایسی سرد راتیں کراچی والوں کے نصیب میں کم کم ہی آتی ہیں ۔نور صاحب لحاف اوڑھے سو رہے تھے ۔سونے سے پہلے انکا معمول تھا کہ آیت الکرسی پڑھتے اور کھڑکی کی چتخنی لگانا نہ بھولتے۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
رات کے آخری پہر نور صاحب کو کمرے میں تپش سی محسوس یوئی جیسے کہیں آگ جل رہی ہو ۔وہ گرمی سے پسینہ میں شرابور ہوگئے۔لحاف اتار دیا اٹھ کر پنکھا چلانے کی ہمت ہوئی نہ ہی جسم میں سکت تھی۔ لیٹے لیتے استغفار کا ورد کرتے رہے۔ کھڑکی روشن تھی جیسے قریب پی الاو جل رہے ہوں۔ آہ و فغاں کی ہولناک آوازیں آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں ۔پلنگ ہلتا محسوس ہورہا تھا خوف سے دم نکلا جارہا تھا کہ اسی خوف کے عالم میں کہیں دور سے اذان کی صدا بلند ہوئی۔ یکدم گرمی جیسے فنا ہوگئی موسم ویسے ہی یخ بستہ یوگیا جیسے اسکو ہونا چاہیے تھا۔ نور صاحب فورا کلمہ استغفار پڑھکر اٹھ بیٹھے۔بے ساختہ انکی نظر کھڑکی پر پڑی جو چوپٹ کھلی تھی۔ سرد موسم میں بھی ماتھے پر پسینے آگئے۔وضو کرکے قبرستان میں بنی کچی سی مسجد میں نماز کیلیے جا پہنچے ۔نماز کے بعد زکر و ازکار سے فارغ ہوئے تو جمعہ خان سلام کیلئے آگے بڑھا اسکے سپاٹ جھریوں زدہ چہرے پر وحشت و خوف کے سائے لرزاں تھے ۔ چہل قدمی کے دوران وہ نور صاحب کے کمرے کی کھڑکی کی طرف ایک تازہ قبر پر پہنچ کر ٹھہر گیا ۔ تازہ قبر پر دراڑیں ایسے پڑی تھیں جیسے حال ہی میں زلزلہ کا بھونچال آیا ہو۔ "حاجی صاحب یہ میت کل پرائویٹ ہاسٹل والے لائے تھے یہ کسی متعدی بیماری کا مریض تھا گھر والوں نے تجہیز و تکفین میں شریک ہونے سے صاف انکار کردیا ۔ہاسپٹل کا عملہ بھی اپنی جان چھڑا کر بھاگ گیا ۔جنازہ بھی نہیں ہوا۔جاتے جاتے عملہ کا ڈرائیور بات کرہا تھا کہ یہ راجہ شاہد کی میت یے۔" راجہ شاہد کا نام سن کر نور صاحب چونکے ماضی کی کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے ۔ ماضی حال اور مستقبل الگ الگ نہیں ہیں بلکہ مختلف کیفیات کا نام ہے جو وقتا فوقتا انسان پر طاری ہوجاتی ہیں ۔ راجہ شاہد ایک پراپرٹی ٹائیکون تھا وہ نور صاحب کے بچپن کا دوست رہا تھا مگر کینہ پرور ، مکار اور احسان فراموش شخص ثابت ہوا۔اس نے نور صاحب کی وضع داری نرم گفتاری اور اندھے اعتبار کا ناجائز فائدہ اٹھایا اور ایک موقع پر تو نور صاحب کی تمام جائداد اور کاروبار پر بھی قابض ہوگیا ۔جسکہ باعث نور صاحب طویل عرصہ سخت مالی مصائب سےدوچار رہے تھے۔ بیواؤں یتیموں کی جائداد پر قبضہ کرنا راجہ کا محبوب مشغلہ تھا ۔ آہیں بددعائیں سسکیاں سب اسکے لیئے بے معنی تھیں ۔ راجہ کا ایک ہی تکیہ کلام تھا جو وہ لوگوں پر اپنی خدا خوفی کا بھرم قائم کرنے کیلئے بولتا۔ "مجھے اپنی قبر میں بھی جانا ہے "۔
کہتا تو وہ سچ تھا مگر حق کو دل سے مانتا نہ تھا۔ جسکا انجام نور صاحب نے رات اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا۔ انکی آنکھوں میں نمی تیر گئی ۔جمعہ خان کے ساتھ مل کر فاتحہ خوانی کی اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیئے۔اور ایک سرسبز ٹہنی قبر میں پیوست کردی۔ جاتے جاتے ہلکے سے قبر کے سرہانے جا کر بولے کہ" میں نے تمہیں معاف کردیا اللہ۔بھی تمہیں معاف کرے۔" انہوں نے سوچا شاید اسطرح کچھ اسکے عذاب میں تخفیف ہوجائے۔ نور صاحب کے دماغ میں آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان جگمگا رہا تھا کہ
" قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ۔ “
نور صاحب کے کمرے کی عقبی کھڑکی اب شب بھر کھلی رہتی ہے ۔کیونکہ مستقبل میں اس دنیا اور ایسی بے شمار دوسری دنیاؤں کے اسرار و رموز اسی کھڑکی کے رستے نور صاحب پر آشکار ہونے تھے
|