ہمارے ایک دور پار کے کزن ہوتے تھے پچھلے کئی سالوں سے
سعودی عرب میں ملازمت کر رہے تھے ۔ ایک مرتبہ چھٹی پر گھر آئے تو ان کا
ہماری ایک فرسٹ کزن سے رشتہ طے ہؤا اور جھٹ پٹ شادی بھی ہو گئی ، مہینہ بھر
گذار کر واپس چلے گئے ، نو ماہ بعد ان کا بیٹا پیدا ہؤا ۔ جب دوبارہ آئے تو
بچہ سال سے اوپر کا ہو چکا تھا ، چھٹی گذار کر چلے گئے تو پھر آٹھ نو ماہ
بعد بیٹی پیدا ہوئی ۔ اب کے سے آئے تو بچی سال بھر کی ہو چکی تھی اور بچہ
تین سال کا ۔ یہ اسمارٹ فون اور وڈیو کال کی آمد سے پہلے کے زمانے کی بات
ہے لہٰذا بچہ اپنے باپ کو نہ جانتا تھا نہ پہچانتا تھا ۔ انہوں نے اسے گود
میں لینا چاہا تو وہ گھبرا کر رونے لگا ، تھوڑی کوشش کی اسے اٹھانے کی تو
اس نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیا ۔ بچی اس صورتحال سے سہم کر الگ ماں
کی گود میں دبکی ہوئی تھی ، اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ بھی چیخنے چلانے
لگی ۔ بیچارے بےحد شرمندہ و آزردہ ہوئے ، بمشکل تمام بچوں کو اپنے سے مانوس
کرایا جب بچے اپنے باپ کو جاننے پہچاننے لگے تو پھر واپسی کا وقت آ گیا ۔
لیکن اس بار انہوں نے سوچ لیا تھا کہ ایک آخری چکر لگا کر ملازمت کے سب
معاملات نمٹا کر اور اپنے واجبات وصول کر کے ہمیشہ کے لیے واپس آ جائیں گے
۔ کیا فائدہ پردیس کی ایسی کمائی کا کہ جس میں بچے اپنے باپ کی شکل بھی نہ
پہچانیں ۔ ان کے دل پر واقعی بڑی سخت چوٹ پڑی تھی پھر ان کی پوسٹ اور
تنخواہ بھی ایسی نہیں تھی کہ اس میں بیوی بچوں کو پاس بلا سکیں اور ساتھ ہی
اپنے پورے گھرانے کی کفالت بھی جاری رکھیں چنانچہ آخری بار جا کر اور ایک
سال لگا کر پھر ہمیشہ کے لیے واپس آ گئے اور خوش قسمتی سے انہیں وطن میں ہی
ایک بہت معقول ملازمت بھی مل گئی ۔ اگرچہ ان کے گھر والوں نے ان کے اس
فیصلے کی خاصی مخالفت کی تھی اور انہیں اپنے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی
تھی مگر انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی اور وہی کیا جو انہیں بہتر معلوم ہؤا
اور وقت نے ان کے اس فیصلے کو درست بھی ثابت کر دیا ۔
مگر پھر وہی بات ہے کہ ہر ایک کے اپنے اپنے حالات ہوتے ہیں ہر کوئی ان کے
حساب سے چلتا ہے ہر کسی کی اس طرح سے نہیں چلتی جس طرح سے ہمارے ان کزن کی
چل گئی اور نا ہی ہر لڑکی کی قسمت ہماری کزن کی قسمت جیسی ہوتی ہے ، جسے
صرف پانچ برس کی قربانی کے بعد پردیسی شریک حیات کی دائمی رفاقت نصیب ہو
گئی ۔ ورنہ آپ دیکھیں کہ ہمارے ہاں تو ایسے جوڑوں کی پوری جوانی ندی کے دو
کناروں کی طرح گذر جاتی ہے ۔ روزی روزگار اور پردیس کی کمائی کے چکر میں
صرف ایکبار ملنے والی زندگی کے تمام قیمتی اور سنہرے سال جدائیوں اور
تنہائیوں کی نذر ہو جاتے ہیں ۔ پاکستان کے اکثر ٹرکوں کے پیچھے لکھا ہؤا
ایک شعر آپ میں سے بہت سوں نے دیکھا ہو گا
کبھی مشکلوں کا تھا سامنا ، کبھی راحتوں میں گذر گئے
وہ جو دن تھے میرے شباب کے وہ سعودیہ میں گذر گئے
بظاہر اس مزاحیہ سے شعر کے اندر کتنا درد اور گہرا کرب چھپا ہے اسے ہر وہ
غریب الوطن محسوس کر سکتا ہے جس نے اپنی عمر کا بہترین دور اپنوں سے دور رہ
کر پرائے دیس میں معاش کی جد و جہد میں گذارا ہو ۔ ہر مجبور اور بےبس
پردیسی کا سب سے بڑا المیہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بڑا ہوتا ہؤا
نہیں دیکھ سکتا اور نا ہی بیوی کو وقت سے پہلے بوڑھی ہوتے ہوئے ۔
(رعنا تبسم پاشا)
|