سرکتی جائے ہے رُخ سے نقاب آہستہ آہستہ

جس طرح لاٹری میں کسی کمزور دل والے شخص کا بڑا انعام لگ جائے تو اُسے انعامی رقم مرحلہ وار بتائی جاتی ہے تاکہ دل پر کوئی جھٹکا نہ لگے بالکل اُسی طرح ایبٹ آباد آپریشن کی تفصیلات بھی مرحہ وار سامنے لائی جارہی ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ بہت کچھ ایک ساتھ بتانے کی صورت میں امریکی عوام ”حُسن انکشاف“ کی تاب نہ لاسکیں گے۔ ہمارے خیال میں یہ بھی امریکی قیادت کی مہربانی ہے کیونکہ ایبٹ آباد آپریشن کی تفصیلات تھوک کے حساب سے جاری کئے جانے کی صورت میں بہت سے امریکی زیادہ ہنسنے سے موت کے منہ میں بھی جاسکتے ہیں!

جس طرح پیاز کے چھلکے اُترتے جاتے ہیں، اُسی طرح ایبٹ آباد آپریشن کے بارے میں بھی طرح طرح کی کہانیاں سامنے آتی جا رہی ہیں۔ اگر فکشن رائٹرز، اور بالخصوص ڈائجسٹوں میں لکھنے والے، اخبارات غور سے پڑھیں اور ٹی وی دیکھتے رہیں تو بہت سی لازوال کہانیاں قلم بند کرکے سنسنی خیز ادب میں گراں قدر اضافہ کرسکتے ہیں!

ابتدائی رپورٹس میں بتایا گیا کہ امریکی کمانڈوز سے بچنے کے لئے اُسامہ بن لادن نے خواتین کی آڑ لیتے ہوئے فائرنگ کی۔ برطانوی میڈیا نے جب ڈھول کا پول کھولا تو امریکی حکام نے یہ کہنا شروع کیا کہ اُسامہ نہتے تھے۔ جب اُسامہ کے نہتا ہونے کو تسلیم کیا گیا تو یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ گرفتاری کو ترجیح دینے کے بجائے اُنہیں موت کے گھاٹ کیوں اُتارا گیا؟ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے جھوٹ بولتے جانا سو برائیوں کی ایک برائی ہے۔ امریکی اپنی ہی غلط بیانی کے دام میں ایسے اُلجھے ہیں کہ اب نکلنا محال دکھائی دیتا ہے۔ طاقت کی بنیاد پر جھوٹ کو سچ کے طور پر تسلیم کروا تو جاسکتا ہے مگر اِس سے جھوٹ کی ماہیت تبدیل نہیں ہو جاتی، وہ جھوٹ ہی رہتا ہے! جھوٹ چل بھی نہیں پاتا کیونکہ اُس کے پاؤں نہیں ہوتے! امریکی عوام اب تک فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ ایبٹ آباد آپریشن کی تفصیلات کے نام پر اُنہیں جو کچھ بتایا جا رہا ہے اُسے ہضم کرلیں یا محض چباکر تھوک دیں! کبھی کہا جاتا ہے کہ اُسامہ کے سر میں گولی لگی، پھر کہا جاتا ہے کہ گولی نہیں، گولیاں لگیں۔ اِس کے بعد گولیوں نے لوکیشن بدل لی اور سر کے ساتھ ساتھ سینے میں بھی گھس گئیں! امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے ایک تصویر میں دیکھا کہ گولی اُسامہ کی کنپٹی سے داخل ہوکر آنکھ سے باہر آئی اور آنکھ کے سُوراخ سے بھیجے کا ٹکڑا بھی باہر لٹک رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے ایبٹ آباد آپریشن کی جو تفصیلات سامنے آ رہی ہیں اُن کی آنکھ سے جھوٹ باہر کو لٹک رہا ہے!

امریکی قیادت جتنی تیزی سے جھوٹ بولتی ہے تقریباً اُتنی ہی تیزی سے امریکی رائے عامہ بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایبٹ آباد آپریشن وہ گنگا ہے جس میں، عارضی طور پر ہی سہی، صدر اوبامہ کے تمام داغ اور گناہ دھلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکی صدر نے معاملات میں اِس قدر ابہام پیدا کیا ہے کہ کبھی کبھی تو اُنہیں ”اِبہامہ“ کہنے کو جی چاہتا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ اِبہامہ کی کارکردگی کو درست قرار دینے والے امریکیوں کا تناسب 60 فیصد ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی خارجہ پالیسی کو بھی کامیاب قرار دیا جا رہا ہے۔ جو کل تک سُوکھا میدان تھا وہ ہرے بھرے جنگل میں تبدیل ہوگیا۔۔ کیا بات سپر پاورز کی!

صدر ”اِبہامہ“ سوچیں کہ اگر ایبٹ آباد آپریشن کی اصلیت سامنے آگئی تو ریٹنگ میں اضافہ دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ آن کی آن میں ملنے والی مقبولیت چشم زدن میں چلی بھی جاتی ہے۔

امریکی قیادت بھی اچھی خاصی بھلکڑ ہے۔ اُسے یاد ہی نہیں رہا کہ ہالی وڈ باصلاحیت لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ اسکرپٹ رائٹرز کی خدمات حاصل کی جاتیں تو وہ اچھی طرح سمجھا دیتے کہ ایبٹ آباد آپریشن کی تفصیلات کس طور دنیا کے سامنے لانی ہیں۔ ان سے مشورہ اور مدد نہ لینے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اینڈ تو لوگوں کو پہلے بتا دیا گیا ہے اور اب کہانی کو ترتیب سے سنانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ ابتداء سمجھ میں آسکے! اگر ہالی وڈ کے اسکرپٹ رائٹرز کی خدمات حاصل کی جاتیں تو وہ کم از کم اِتنا تو بتا ہی دیتے کہ میڈیا والوں کو کب، کیا اور کس قدر بتانا ہے! امریکی محکمہ دفاع اور ایوان صدر کے درمیان سرد جنگ بھی چل رہی ہے جس کے نتیجے میں کہانی میں خاصے مضحکہ خیز ٹوئسٹ بھی پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ مثلاً امریکی میڈیا کے ذریعے اب یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ایبٹ آباد آپریشن میں حصہ لینے والے کمانڈوز کی زندگی خطرے میں ہے! یہ خفیہ کاروائی تھی اور اِس میں حصہ لینے والوں کے بارے میں کوئی بھی نہیں جانتا تو پھر کمانڈوز کی زندگی کو خطرہ کہاں سے لاحق ہوگیا! کیا القاعدہ ارکان نے کیل میں چپل لگا کر فال نکالی اور کمانڈوز کے نام معلوم کرلیے؟ اگر امریکی حکومت اور خفیہ ادارے ایبٹ آباد آپریشن میں حصہ لینے والے کمانڈوز کے نام بھی صیغہ راز میں نہیں رکھ سکتے تو پھر اور کیا کرسکتے ہیں؟

اُسامہ بن لادن اور القاعدہ کے بارے میں مزید ابہام پیدا کرنے کی کوشش صدر ”اِبہامہ“ کے سیاسی کیریئر کی موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ بے وقوف بنتے رہنے کی کوئی حد تو خیر سپر پاور کے لئے بھی نہیں ہوتی مگر لوگوں کوبے وقوف بنانے کی ایک حد ضرور ہوتی ہے! ”اِبہامہ“ انتظامیہ کو اچھی طرح اندازہ ہونا چاہیے کہ القاعدہ کے معاملے میں اُس کے لیے یہ حد اب آچکی ہے! جس طرح زیادہ کھانے سے بدہضمی ہو جاتی ہے بالکل اُسی طرح ضرورت سے زیادہ جھوٹ بولنے سے سچ بھی دھندلا جاتا ہے۔ القاعدہ کے بارے میں مزید جھوٹ بول کر ”اِبہامہ“ انتظامیہ اپنے رہے سہے سچ کے خلاف بھی آپریشن کر بیٹھے گی، لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے! اگر ”انکشافات“ کا سلسلہ روکا نہ گیا تو لوگ ہر معاملے میں کوئی نہ کوئی کہانی مانگا کریں گے اور کسی بھی معاملے کو صاف صاف بیان کیے جانے پر مزید اُلجھ جایا کریں گے! افغانستان سے باعزت اور محفوظ انخلاءیقینی بنانا یقیناً اوبامہ انتظامیہ کی ترجیحات میں سر فہرست ہے مگر اِس ایک مقصد کے حصول کی غیر منطقی کوشش کہیں سبھی کچھ داؤ پر نہ لگا دے!

امریکہ حکام تھکن محسوس کئے بغیر کہہ رہے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے بارے میں پاکستانی حکومت کو کچھ علم نہیں تھا۔ کسی بھی پریس کانفرنس اور منتخب ایوان کی بریفنگ میں پاکستان کو بری الذمہ قرار دینے کا کوئی موقع ابہامہ انتظامیہ ضائع نہیں کرتی۔ مگر ساتھ ہی ساتھ یہ ”پَخ“ بھی لگا دی جاتی ہے کہ پاکستانی حکومت میں کسی نہ کسی اعلیٰ عہدیدار کو تو اسامہ بن لادن کے بارے میں معلوم تھا! یعنی بکری دودھ تو دے رہی ہے مگر ساتھ ہی مینگنیاں بھی ڈال رہی ہے! سمجھ میں نہیں آتا
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ!

امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کا کہنا ہے کہ اب تک اس امر کے شواہد نہیں ملے کہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی کے بارے میں پاکستانی حکومت کو باضابطہ کچھ علم تھا تاہم پاکستان میں کسی نہ کسی کو اس کا علم ضرور تھا۔ گویا
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486494 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More