سپر پاورز کے ٹائرز اور افغان کیل

اگر ہزاروں نہیں تو کئی صدیوں سے سپر پاور کی طاقت کے پہیّوں کی ہوا نکالنے کے لئے افغانستان کو کیل کی حیثیت سے استعمال کیا جارہا ہے! جب بھی کسی عالمگیر قوت کو کنٹرول کرنا نسبتاً کم طاقتور ممالک کے بس میں نہیں رہتا تو اُسے کسی نہ کسی طرح گھیر گھار کر افغانستان کے تَھڑے پر لایا جاتا ہے۔ افغانستان نے کیل کی طرح گھس کر امریکی طاقت کے پہیّوں سے ہوا نکال دی ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ٹیوب کے ساتھ ساتھ ٹائرز کو بھی خاصا نقصان پہنچایا ہے! بڑی طاقتیں سرمستی کی حالت میں آگے بڑھتی ہیں اور ٹائر پنکچر ہونے پر اُنہیں رکنا پڑتا ہے۔ کیل وہی کرتی ہے جو اُسے کرنا ہے۔ رہے ہم تو ہمیں پنکچر لگانے کے سوا کرنا ہی کیا ہے!

افغانی بھی سوچتے تو ہوں گے کہ دنیا اُنہیں کیا کیا سمجھتی اور قرار دیتی ہے! کبھی افغانستان کو سپر پاورز کا قبرستان قرار دیا جاتا ہے اور کبھی دو بڑے خطوں کے درمیان حدِ فاصل! سپر پاورز کے قبرستان والا معاملہ درست ہے۔ طاقتور ممالک افغانستان میں پھنس کر دفن ہوتی رہتی ہیں اور ہم قبریں کھودنے اور تدفین کے عمل کی نگرانی پر مامور رہتے ہیں! عالمگیر مُردوں کے بچے کھچے مال سے جیبیں بھرنا اب ہمارا مقدر اور مقدور ہے!

عظیم طاقتوں کا ذکر ہو اور افغانستان کا تذکرہ نہ ہو، یہ تو ممکن ہی نہیں۔ بقول غالب
بنتی ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

افغانوں نے ڈیڑھ صدی قبل انگریزوں کا ناک میں دم کیا اور ایسا تگنی کا ناچ نچایا کہ وہ آخر ہار مان کر الگ ہوگئے۔ اس سے سوویت حکمرانوں نے کوئی سبق نہ سیکھا اور بیسویں صدی کے اواخر میں افغانستان پر لشکر کشی کردی۔ اُنہیں گرم پانیوں کی تلاش تھی مگر افغان مجاہدین نے اُن کے ارمانوں پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا اور مار مار کر سُرخ ریچھ کا ایسا بُھرکس نکالا کہ بے چارا سرکس میں کرتب دکھانے کے قابل بھی نہ رہا! جو لوگ مجاہدین کی فنڈنگ کا رونا روتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں جنگ میں بنیادی چیز فنڈز نہیں، ہمت اور سکت ہوتی ہے۔ کسی کو کرکٹ کی کیسی ہی تربیت دے لیجیے، جب بندہ بَلّا تھام کر وکٹ پر باؤلر کا سامنا کر رہا ہوتا ہے تب ساری کوچنگ دھری کی دھری رہ جاتی ہے!

امریکہ، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا، کینیڈا اور فرانس کو اب شدت سے اِس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ افغانستان ملک نہیں، قفس ہے۔ اور اِس قفس سے نکلنے کے لئے سبھی بے تاب ہیں۔ ایک عشرے تک مار کھانے کے بعد اِتنی عقل تو آنی ہی چاہیے تھی! ایبٹ آباد آپریشن کے نام پر اسامہ بن لادن کو ختم کرنے کا ناٹک امریکہ کی جانب سے دراصل افغانستان سے گلو خلاصی کی سنجیدہ کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ ایک تیر میں کئی نشانے لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں اسامہ بن لادن کی تلاش اور طالبان کے خاتمے کے نام پر جنگ کا میلہ سجایا تھا۔ اب امریکہ ہی دعویٰ کر رہا ہے کہ اسامہ بن لادن کو مار دیا گیا ہے تو افغانستان میں رہنے کا جواز باقی نہیں رہتا۔ گویا ”آبرو مندانہ“ انخلاء کی راہ ہموار کی جارہی ہے! سپر پاورز اپنی مشکلات اِسی طرح دور کیا کرتی ہیں۔

انقلاب کا راگ پاکستان میں الاپا جارہا تھا اور انقلاب نے ڈیرا مغربی میڈیا کے میدان میں ڈال لیا ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی شکست کے 19 سال مکمل ہونے پر مغربی میڈیا نے طالبان کی خوبیاں گنوانا شروع کردیا ہے۔ ع
تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا!

برطانوی اخبار گارجین نے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ طالبان کو اِس بات کی داد دینا پڑے گی کہ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد لوٹ مار نہیں کی، خواتین کا احترام یقینی بنایا اور چار دیوار کا تقدس بحال کیا۔ گارجین اور دیگر مغربی اخبارات کو اب طالبان کی خوبیاں کیونکر یاد آئی ہیں؟ شاید اِس لیے کہ سُرخ ریچھ کے بعد اب سفید بھیڑیے کی پٹائی ہو رہی ہے! گوروں نے سوچا بھی نہ تھا کہ افغانستان میں ایسی گت بنے گی! چپت پر چپت پڑ رہی ہے، ٹھکائی ہو رہی ہے اور خون بہہ رہا ہے تو طالبان بھی اچھے لگ رہے ہیں! بات مفاد کی آجائے تو اُصولوں پر صرف خاک ڈالی جاسکتی ہے، اور ڈالی جارہی ہے۔ بہت سے لوگ عیدالاضحیٰ پر گائے یا بکرے کو لِٹاکر خوشی خوشی ذبح کرلیتے ہیں مگر اپنے جسم پر معمولی خراش سے نکلتا ہوا خون دیکھ کر بے ہوش ہو جاتے ہیں! بالکل اِسی طرح گورے بھی اپنا بہتا ہوا خون دیکھ کر بہت گھبراتے ہیں۔ افغانستان میں ہلاکتوں کا بڑھتا ہوا دائرہ مغربی اقوام میں بدحواسی کو جنم دے رہا ہے۔

چھوٹی اقوام طاقت نہیں رکھتیں اِس لیے گھی ٹیڑھی انگلی سے نکالنے کی کوشش کرتی ہیں۔ افغانستان سے نکلنے کے لئے گورے اب یہی طریقہ اختیار کر رہے ہیں۔ طاقت سے بات نہیں بن رہی تو مذاکرات کے نام پر چاپلوسی ہی کرلی جائے۔ اگر دنیا پر حکومت کرنے والوں کی طاقت یہ ہے کہ تو ایسی طاقت کو دور سے سلام۔ جب دیکھا کہ افغانستان میں بات نہیں بن رہی تو اب پاکستان کو میدان جنگ بنانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ چلیے، یہ تجربہ بھی کرکے دیکھ لیجیے۔ اسامہ بن لادن کے نام پر افغانستان میں قتل و غارت کرنے والے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں مارنے کا دعویٰ کرچکے ہیں تو اب میدان جنگ کے لئے کیا جواز لائیں گے؟

امریکہ میں 2012 انتخابات کا سال ہے۔ ہمیں ڈیموکریٹس کی مجبوریاں سمجھنی چاہئیں۔ اگر طالبان کا اسکور نہ روکا گیا تو ڈیموکریٹس کی پوری اننگز داؤ پر لگ جائے گی اور صدر اوبامہ کے سیاسی کیریئر کی ”فوتیدگی“ بھی ہوسکتی ہے! مذاکرات کے ذریعے طالبان سے ”سیف پیسیج“ کی ضمانت لینے میں کیا ہرج ہے؟ کون سی عزت گھٹ جائے گی؟ اور عزت ہے کب؟ اب تو صرف طاقت رہ گئی ہے۔ اور وہ بھی کون جانے کب تک ہے! ثابت ہوا کہ جب سپر پاورز گرتی ہیں تو گِرنے کی کوئی حد مقرر نہیں ہوتی۔ طاقت کا حق ادا نہ کیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔

ہم تو بس اِس انتظار میں ہیں کہ افغانستان کے قبرستان میں چند اور طاقتیں دفنائی جائیں اور ہم اُن کے کفن لے اڑیں، مال غنیمت پر ہاتھ صاف کریں! اِس بار ایک قدم آگے جانے کی ضرورت ہے، یعنی مُردے بھی فروخت کرنے میں کوئی ہرج نہیں! اس میں زیادہ مال ہے! جس طرح امریکی جنگی مشینری کا ملبہ چین اور دیگر امریکہ مخالف ممالک کے ہاتھ فروخت کرنا خاصا منفعت بخش ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486369 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More