|
|
پاکستان کے اندر اقوام متحدہ کے ایک سروے کے مطابق ایک بڑی تعداد میں
لڑکیاں اور لڑکے شادی کے انتظار میں اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ گزار دیتے ہیں-
لڑکیوں کی شادی اگر جہیز کی تیاری میں ڈھل جاتی ہے تو لڑکے اپنی عمر کا ایک
بڑا حصہ صرف اور صرف بری اور ولیمے کی تیاری کے لیے پیسے جمع کرتے گزر جاتی
ہے ۔ اپنے دل میں ان رسومات و رواجوں کو برا سمجھنے کے باوجود ہم سب ان کی
پیروی صرف اس لیے کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر ہم ایسا نہ کریں گے تو لوگ کیا
کہیں گے- |
|
ایسے حالات میں اگر کوئی ان روایات سے بغاوت کرتے نظر آتا ہے تو وہ انسان
حقیقت میں بہت بہادر ہوتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا اور پیروی کرنا
ہم سب پر واجب ہو جاتا ہے- ایسا ہی ایک نوجوان عزیر مرتضیٰ بھی ہے جو کہ
یوم آزادی والے دن شادی کے بندھن میں بندھا اور اس کے بارے میں اس نے اپنے
ٹوئٹر اکاونٹ سے بتایا- |
|
"میں نے صرف 17400 میں شادی کی ۔میری اور دلہن کی فیملی ایک ریسٹورنٹ گئی وہاں
کھانا کھایا اور واپسی پر میری بیگم رخصت ہو کر میرے ساتھ آگئيں“- |
|
|
|
نا تو کوئی مہنگے کپڑے ، نا ہی مہنگے ششکے ،نہ جہیز اور نہ ہی کوئی رسمیں ۔میں
نے اپنے سسر اور بیگم سے کہا کہ مسجد میں نکاح کرنا ہے اور پھر رخصتی ۔انہوں
نے میری بات مانی اور اس کے لیے میں ہمیشہ ان کا احسان مند رہوں گا "- |
|
عزیر مرتضیٰ کی یہ کوشش درحقیقت ان تمام لوگوں کے لیے ایک مثال ہے جو کہ
جہیز کی تیاری اور شادی کے انتظامات کے لیے اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنے
کا ارادہ رکھتے ہیں- اس کے لیے بھاری قرضے لیتے ہیں اور بچوں کی شادی کی
عمر کو گزار دیتے ہیں- |
|
|
|
عزیر مرتضیٰ کی اس کوشش کو سوشل میڈیا پر بہت پزیرائی مل رہی ہے اور لوگ اس
کی بہت تعریف کر رہے ہیں- مگر لوگوں کا ایک ایسا گروہ بھی ہے جو کہ اس کوشش
کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہم ایسا
کریں گے تو محلے کی آنٹیاں کہیں گی کہ یقیناً کوئی اور چکر تھا جس کی وجہ
سے اس طرح خاموشی سے نکاح کر دیا- |
|
لوگوں کی ان باتوں سے قطع نظر یہ ایک مثبت کوشش ہے اور ہم سب کو بھی اس کی
پیروی کرنی چاہیے اور یہی ہمارے مذہب کا بھی حکم ہے کہ نکاح کو آسان کیا
جائے تاکہ نوجوان نسل دیگر برائیوں اور گناہوں سے محفوظ رہ سکے- |