کورونا اورعہد حاضر کے شاعر و کالم نگار
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
کورونا اورعہد حاضر کے شاعر و کالم نگار ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی میرا موضوع کورونا کے دوران عہد حاضر کے شعرا کا کورونا اور اس سے جڑے مختلف موضوعات جیسے تنہائی، وبا، الرجی، مسائل و مشکلات ، حکومتوں کے اقدامات ، وائرس کے خاتمے کے لیے دوا یا ویکسین کی ایجاد جیسے موضوعات کو شاعری میں موضوع بنانا تھا ۔ شاعروں نے اس وبا کو کس کس انداز سے پیش کیا، اپنی تنہائی کا ذکر کس طرح کیا، وبا کو کیسے مخاطب کیا، یہ شاعری کہیں نہ کہیں منظر عام پر آچکی تھی تاہم بعض دوستوں نے میری درخواست پر کورونا پر نظم کہی، قطعہ یا شعر کہا ۔ تمام شعرا اور ان کے کلام کا احاطہ کرنا ممکن نہیں تھا خاص طور پر ایک مضمون میں ، اس موضوع پر کتاب مرتب کی جاسکتی ہے جس میں زیادہ سے زیادہ شعرا اور ان کی مکمل غزلیں یا نظموں کو شامل کیا جاسکتا ہے ۔ ایک مضمون ’’عہد حاضر کے سخن گو اور کوروناوائرس‘‘مرتب کیا ۔ اس مضمون کی اشاعت کے بعد احساس ہوا کہ بہت سے سخن وروں کا کلام شامل ہونے سے رہ گیا ہے ،چنانچہ اس موضوع پر پیش نظر مضمون مرتب کیا گیا ۔ درج ذیل شعراء کا کلام میرے پہلے مضمون میں شامل ہے ۔ ان شعرا میں انور شعور،امجد اسلام امجد،محمود شام،ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر،ذیب اذکار حسین،چودھری بشیر شاد (ایتھنز، یونان)،خالد عزیز (کنیڈا)، عشرت معین سیما(برلن، جرمنی)،اصغر خان،انجم عثمان،ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ،ڈاکٹر شفیق آصف ۔ میانوالی، صدر شعبہ اردو ، سرگودھا یونیورسٹی ، میانوالی کیمپسشگفتہ شفیق،انور ظہیر رہبر ۔ جرمنی،حجاب عباسی،کرامت غوری(کنیڈا)،شکیلہ رفیق،صبا ممتاز بانو ۔ لاہور،رفعت بلخی،مہر جمالی،ڈاکٹر عابد خورشیدنسرین پراچہ،افضل رضوی (آسٹریلیا)،ظفر اقبال،ارشد قریشی،حبیبہ طلعت(اسلام آباد)،یگانہ نجمی(حیدر آباد سندھ) ، فہیم اختر (لندن) ، وفا صمدانی،ادریس صدیقی ۔ ملتان،شمسہ نجم ۔ لاس اینجلس،شاہد عزیز،ڈاکٹر محمد اشرف کمال ۔ بھکر،ابراہیم اشک ۔ ممبئی،کامران عادل ۔ مظفر نگر، یوپی،ثنا اللہ چنا دوگھڑوی،اعتبار ساجد،سعد اللہ شاہ،ڈاکٹر رئیس صمدانی،حافظہ مریم خان،فرخ رفیق ۔ فیصل آباد،ڈاکٹر دلدار احمد علوی،ناز عارف اور سارہ محبوب شامل ہیں ۔ نثر نگاروں اور کالم نگاروں نے بھی کورونا کو اپنا موضوع بنایا ۔ یہی کالم نگار کی خوبی شمار کی جاتی ہے ۔ کوئی شاعر ادیب ، کالم نگار ایسا نہیں جس نے کورونا کو اپنا موضوع نہ بنایا ہو ۔ اس لیے کہ شاعر اور کالم نگار کی نگاہ دنیا میں ہونے والے تمام سیاسی ، سماجی ، علمی، ادبی واقعات پر ہوتی ہے ۔ زاہدہ حنا نے اپنے کالموں میں کورونا کو مختلف انداز سے اپنا موضوع بنایا اس کے کئی پہلووَں سے کالم لکھے اور اس موضوع پر لکھنے کا عمل جاری ہے ۔ کورونا کے حوالے سے زاہدہ حنا کے کالم بہت معلوماتی ہیں ۔ انہوں نے اپنے کالموں میں شاعری نہیں کی بلکہ اس وبا ء پر بیش بہا معلومات ، حقیقت پر مبنی علم فراہم کیا ہے ۔ زاہدہ حنا کا کالم 14جون 2020کو بعنوان’ہیٹی کے صدر ، ٹرمپ سے زیادہ دانش مند‘ کے عنوان سے لکھا ۔ اپنے اس کالم کا آغاز کورونا وائرس اور پاکستان کی صورت حال سے کیا ۔ انہوں نے لکھا کہ ’’ ان دنوں پاکستان مکمل طور پر کورونا وائرس کے چنگل میں پھنس چکا ہے ۔ بہت سے لوگوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ اس بات کا فیصلہ ہم نہیں کریں گے کہ کورونا کو اپنے ملک سے کب ختم کرنا ہے بلکہ یہ فیصلہ کورونا وائرس خود کرے گا کہ اسے یہاں سے کب جانا ہے اور جاتے جاتے ہوئے ہماری کوتاہیوں کا کتنا جانی اور مالی تاوان وصول کرنا ہے ۔ یہ مایوسی پھلانے والی بات نہیں جب تک ہم حقیقت تسلیم نہیں کریں گے اس وقت تک قابل عمل لاءحہ عمل بھی اختیار نہیں کرسکیں گے‘‘ ۔ کورونا کے حوالے سے ہی ان کا ایک کالم بعنوان ’’پولنگ بوتھ بہ مقابلہ کورونا وائرس‘‘ 3مئی2020کو شاءع ہوا جس میں تاریخ میں غیر معمولی ترقی کرنے والی قوم جنوبی کوریا نے کورونا پر جس تیزی اور ترتیب و ترکیب اور دانشمندی سے قابو پایا اس کی تفصیل اور انتخابات کا ذکر کیا گیا ہے ۔ کورونا کے حوالے سے ایک کالم ’’عالمی وبا کے مثبت و منتی اثرات‘‘ کے حوالے سے ایک کالم شاءع ہوا جس میں انگریزی اخبار گارجین میں لکھے گئے پٹیر بیکر کے کالم کو بنیاد بنا یا گیا ہے ۔ بیکر نے کورونا کے بارے میں جو باتیں کیں اس کالم میں انہیں آگے بڑھایا گیا ہے ۔ اپنے موضوع پر معلوماتی کالم ہے ۔ اسی موضوع پر ایک اور کالم بعنوان ’’چین کا مشورہ مان لیا جائے‘‘ لکھا جس میں چین میں کورونا کے مرض کے آغاز کی تفصیل اور تدارک پر بات کی گئی ہے ۔ زاہدہ حنا کے کالموں میں موضوع کے بارے میں معلومات بھی درج ہوتی ہیں ۔ شخصیات کے حوالے سے زاہدہ حنا کا ایک کالم ’’وہ پیش گوئی جو سچ ثابت ہوئی ‘‘ کے عنوان سے ایک نامور سائنسدا ڈاکٹر ٹیڈروز کے بارے میں لکھا ۔ ڈاکٹر ٹیدروز کا بھائی خسرہ کی وبا میں بچپن مین انتقال کر گیا تھا ، ٹیدروز جب بڑا ہوا تو اس نے متعدی اور وبائی امراض سے بچاو کے علم میں ماسٹرز کی ڈگری لی اور اسی فیلڈ میں ترقی کرتا چلا گیا ، ایڈز کی بیماری ، گردن توڑ بخار اور خسرہ کے ٹیکے لگانے کی مہم میں اہم کردار ادا کیا، یہاں تک کہ وہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کا ڈائریکٹر جنرل بھی بنا ۔ اس کالم کا بنیادی مقصد حکومتوں کو اپنے اپنے ملکوں می صحت کے نظام کی جانب خصوصی توجہ مبذول کرانا تھا ۔ اسی موضوع پر زاہدہ حنا کا ایک اہم کالم ’’جون المیڈا: سب سے پہلے جس نے کورونا وائرس دیکھا‘‘ موضوع پر اہم اور دلچسپ معلومات فراہم کرتا ہے ۔ المیڈا کا تعلق اسکالینڈ سے تھا، کالم نگار نے لکھا المیڈا کا انتقال 2007ء میں ہوگیا تھا ۔ اپنی زندگی میں اس نے الیکٹرانک خورد بین کے ذریعے سر مئی رنگ کے کانٹے دار ول اور انتہائی باریک وائرس کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والی پہلی انسان تھی ۔ اس کی تحقیق کے مطابق اس کی شکل سورج کے گرد نظر آنے والی روشنی کے ہائے جیسے تھی اس لیے اسے کورونا کا نام دیا گیا ۔ المیڈا کے حوالے سے کالم نگار کا لکھنا ہے کہ ’’کورونا وائرس کا پورا ایک خاندان دنیا میں موجود ہے جس میں 50کے قریب وائرس شامل ہیں لیکن ان میں سے محض 4یا5ہی انسانوں کو ہلاک کرنے کی خطر ناک صلاحیت رکھتے ہیں ۔ کوروناخاندان کا جدید وائرس کووڈ19کہلاتا ہے‘‘ ۔ جاپان اور جرمنی سے سبق سیکھا جائے بھی ایک معلوماتی کالم ہے ۔ اس میں بھی کورونا کے حوالے سے قیمتی مشورہ شامل ہیں ۔ اب اردو کے معروف شعراء اور شاعرات کا وہ کلام جو کورونا اور اس سے متعلق کسی بھی موضوع پر ہے شامل کیا جاتا ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹر نزہت عباسی پروفیسر ڈاکٹر نزہت عباسی تدریس ، تحقیق ، تنقید ، شاعری اور افسانہ نگاری کے میدان میں معتبر مقام رکھتی ہیں ۔ کراچی کے ایک مقامی کالج میں اردو ادبیات کی استاد ہیں ۔ آپ نے اردو کے افسانوی ادب میں نسائی لب و لہجہ کے عنواسے تحقیقی اور تنقیدی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی، یہ مقالہ انجمن ترقی اردو نے ۳۱۰۲ء میں کتابی صورت میں شاءع کیا، ڈاکٹر نزہت کے مقالات متعدد علمی و ادبی جرائد میں شاءع ہوتے ہیں ۔ دو شعری مجموعے ’سکوت‘ اور ’وقت کی دستک ‘ شاءع ہوچکے ہیں ، تنقیدی مقالات کا مجموعہ ’نسخہ ہائے فکر‘۹۱۰۲ء میں شاءع ہوا ۔ ادبی تنظیم دبستانِ غزل کی صدر ہیں ۔ کورونا کے حوالے سے ڈاکٹر نزہت کی نظم ’کورونا‘ اور چند اشعار ۔ نظم ۔ ۔ کورونا دور تک تنہائیاں ویرانیاں بچھنے لگیں اب درودیوار پر خاموشیاں سجنے لگیں زندگی اور موت کے اب فاصلے کم ہوگئے وہ ہوا چلنے لگی کہ قربتیں مرنے لگیں ہر طرف ہے خوف کا عالم خدایا خیر ہو آپ اپنے آپ سے پرچھائیاں ڈرنے لگیں اس طرح مایوسیاں پھیلی ہوئی ہیں جابجا روشنی کے شہر میں بھی مشعلیں بجھنے لگیں دب گیا شہنائیوں کا شور جس سے دفعتاََ گردش و آلام و غم کی نوبتیں بجنے لگیں اس وبائے عام سے محفوظ تُو سب کو ہی رکھ اے خدا ساری فضائیں اب دعا کرنے لگیں اے کرونا تیرے باعث باغِ ہستی میں مرے حبس ٹوٹا تو ہوائیں درد کی چلنے لگیں اب مسیحا تیرے ہاتھوں زخم بھی بھرنے کو ہیں موسمِ گل میں اُمیدیں چار سو کھلنے لگیں عکس کو تصویر کو پرچھائیوں کو خوف ہے دشتِ تنہائی میں اب تنہائیوں کو خوف ہے جانے کیسا خو ف ہے یہ جس سے آب و گِل تو کیا وادی ء گُل پوش میں رعنائیوں خوف ہے وقت کے بدلے ہوئے تیو ر بتاتے ہیں یہی قربتوں کے شہر میں یک جائیوں کو خوف ہے فیروز ناطق خسرو فیروز ناطق ، خسرو تخلص کرتے ہیں ، بدایوں میں جنم لیا، اردو ، اسلامک ہسٹری میں ماسٹرز ، بی ایس سی (وار اسٹیڈیز) ، پاکستان ائر فورس میں اسکواڈرن لیڈر رہے ۔ گھر کا ماحول ادبی تھا،چنانچہ بچپن سے شاعری کا شوق ہوگیا، والد بھی شاعر تھے، کہتے ہیں کہ ساتویں جماعت میں پہلا شعر کہا، باقاعدہ شاعری میڑتک کلاس سے کی، کہانیاں بھی لکھیں ۔ فیروز ناطق خسرو کی شاءع شدہ مجموعوں و تصانیف میں کلامِ ناطق بدایونی (انتخاب)، ہزار آئینہ (حمد، نعت، منقبت ، سلام)، آئینہ چہرہ ڈھونڈتا ہے (غزلیں )، آنکھ کی پتلی میں زندہ عکس (نظ میں )، ستارے توڑلاتے ہیں (نظ میں ) ، کندقلم کی جیبھ (مضامین ، افسانے)، فرصتِ یک نفس (قطعات)شامل ہیں ۔ فیروز ناطق خسرو صاحب سے پہلی ملاقات عارف با حلیم کے دفتر میں ہفتہ14دسمبر 2019ء میں ہوئی، یہ وہ شب تھی جب عارف باحلیم نے تخلیق کاروں کی ایک نشست اپنے دفتر میں رکھی تھی جس میں سہ ماہی ادبی جریدہ’ کولاژ‘ کے مدیر اقبال ظفر،شاعر و ادیب فیروز ناطق خسرو،ناول نگار، صحافی، کالم نگار اور’ تکون کی چوتھی جہت‘ کے تخلیق کار اقبال خورشید ، مَیں اور میزبان فیصل جوش اور عارف با حلیم شامل تھے ۔ عارف با حلیم کئی خصوصیات کے حامل ہیں ، بنیادی طور پر وائس آرٹسٹ ہیں ، مختلف شخصیات جیسے امیتابھ بچن، ضیاء محی الدین اور طلعت حسین جیسے اداکاروں کی آواز میں ان کے ڈائیلاگ سنانا ۔ عارف باحلیم اداکاربھی ہیں انہوں نے فلم ’’ساون ‘‘ میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے ۔ عارف باحلیم پس پردہ آواز کا جادو جگاتے ہیں ، عارف باحلیم کا اہم ترین کارنامہ اردو زبان کے معروف مصنفین کی وہ کتابیں ہیں جو ڈیجیٹل اشاعتی ادارے ’’ایمیزون ‘‘ نے آڈیو کتب کے طور پر تیار کیں اور وہ کتب ایمیزون کی ویب ساءٹ پر موجود ہیں ۔ پاکستان میں آڈیو بک کی روایت تاحال عام نہیں ہوسکی، یعنی کتاب پڑھنے کے بجائے کتاب سنی جائے اور کتاب سنانے کی مہارت رکھتے ہیں عارف باحلیم ۔ اس نشست کے اختتام پر عارف باحلیم نے ہمارے مضامین کے مجموعے میں سے ایک مضمون پڑھ کر سنایا، کچھ ہم سے باتیں بھی کیں ۔ گویا ہمارا تعارف ایف ایم 105پر ہوا ۔ فیروز ناطق خسرو اس وقت موضوع تھے ساتھ ہی عارف با حلیم بھی اس میں شامل ہوگئے ۔ یعنی خسرو صاحب سے میرا تعارف عارف باحلیم بنے ۔ اب اصل موضوع کی جانب آتا ہوں ۔ اپنے اس مضمون کے لیے خسرو صاحب سے کورونا کے حوالے سے کلام عنایت کرنے کی استدعا کی ، آپ کی محبت ، انہوں نے جو کلام عنایت کی وہ پیش خدمت ہے ۔ بزرگوں سے سنے قصے ہ میں اب یاد آتے ہیں وبا میں تھر اجڑتے ہیں ہزاروں کھیت جاتے ہیں درود و فاتحہ میں کوئی آتا ہے نہ جاتا ہے نہ دسویں ، بیسوئیں ، چالیسوئیں میں اب بلاتے ہیں پتہ کرتے ہیں خیریت و عافیت کچھ فاصلہ رکھ کر گلے ملتے ہیں اپنوں سے نہ ہاتھوں کو ملاتے ہیں سمجھتے تھے صدا دے کر برا، گھر سے بلانے کو نہ کنڈی کھٹکھاتے ہیں نہ اب گھنٹی بجاتے ہیں کسے معلوم کب کس نام کی پرچی نکل آئے ابھی بھی وقت ہے خسرو اسی سے لولگاتے ہیں
دل کھول کے ملتے نہ تھے ویسے بھی کبھی وہ ’کورونا ‘ کے ہاتھوں گیا اب ہاتھ ملانا مربھی جاؤں جو اگر میں کبھی کورونا سے مجھ کو بے کورو کفن یوں نہ جلایا جائے میری تجہیز و تکفین کو آئین احباب چار کاندھوں پہ جنازے کو اٹھایا جائے ادنیٰ سی جھلک قہر الٰہی کی ہے خسرو مت سوچ کہ ہے صرف خطا کار کرونا پوری دنیا پر ہے قبضہ جانے کس آسیب کا ملکوں ملکوں رقص نمرگ ناگہاں ہونے لگا یہ وبا چاٹے کی کتنے اور اس گلشن کے پھول اپنے ہونے سے بھی دل اب بدگماں ہونے لگا ڈاکٹر محمد محسن علی آرزو ۔ آسٹریلیا ڈاکٹر محمد محسن علی آرزو پیشے کے اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر ہیں ۔ شاعر مشرق علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کے شہر سیالکوٹ میں جنم لیا ۔ انہیں ایک ایسے شہر سے نسبت ہے جس نے نامور ادیبوں اور شاعر وں کو جنم دیا ۔ ان کی تعلیم و تربیت کراچی میں ہوئی ۔ ڈاوَ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا ۔ ادب سے لگاوَ اسکول کے زمانے سے ہی تھا، کہتے ہیں کہ شاعری تو اسکول کے زمانے سے کرنے لگاتھا لیکن اس میں باقاعدگی ایم بی بی ایس کی تعلیم کے دوران آئی ۔ 2007ء میں پاکستان سے آسٹریلیا چلے گئے اور اب وہ پاکستانی آسٹریلین ہیں ۔ آسٹریلیا میں قائم پاکستان آسٹریلیا لٹرری فورم میں فورم کے صدر جناب افضل رضوی صاحب کے ساتھ ادبی سرگرمیوں میں فعال ہیں ۔ ’ ’جان پرسوز‘‘ ڈاکٹر آرزو کا پہلا شعر ی مجموعہ ہے جو عنقریب منطر عام پر آنے والا ہے ۔ ڈاکٹر محسن نے میری استدعا پر کورونا کے حوالے سے اپنا کچھ کلام ارسال کیا جو یہاں شامل کیا جارہا ہے ۔ بیمار فضائیں ہیں بے خوف ہواؤں میں مسکان میں ہیں آنسو اور دھوپ ہے چھاؤں میں پر ہیز کرو یارو مانا کہ یہ زحمت ہے ! انسان سے دوری میں انسان کی صحت ہے مقصد ہے کرونا کا انسان کو سمجھانا ! دنیا ہے تیری گھر میں ، اب لوٹ کے گھر جانا ہے بیمار ہیں جو سارے ان سب کو شفاعت دے ڈاکٹر محسن کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں کرونا کے پھیلاپ میں کبھی ایران سے آ نے والے زائرین کو مورد الزام ٹھرایا گیا اور کبھی رائے ونڈ کے اجتماع کو ۔ کرونا کے پس منظر میں ملک میں موجود مذہبی اور سیاسی انتشار کے المناک رویہ پر کہی گئی ایک نظم ۔ سنبھل بھی جاوَ جہاں میں آئی ہوئی مصیبت پکار تی ہے سنبھل بھی جاوَ اگر بدلنی ہے اپنی حالت تو میرے لوگوبدل بھی جاوَ کوئی ہے سنی کوئی شیعہ ہے جہاں میں ایسے کوئی جیا ہے یہ فرقہ بندی یہ درجہ بندی ان آفتوں سے نکل بھی جاوَ ز میں پہ انسان مر رہے ہیں جو جی رہے ہیں وہ ڈر رہے ہیں یہ ہم کہ آپس میں لڑ رہے ہیں ذرا تو سوچو بدل بھی جاوَ یہ نفرتوں کو فروغ دینا منافقوں کی نشانیاں ہیں عذابِ ربی پکار تا ہے برے عمل سے تو ٹل بھی جاوَ خدا کی رسی کو مل کے تھامو فریب ہستی کو زیر کر لو محبتوں کو فروغ دے کر عداوتوں کو نگل بھی جاوَ یہ قلب مومن پکارتا ہے خدا کی رحمت یہیں کہیں ہے کٹے گی مشکل کی یہ کھڑی بھی یقین رکھو سنبھل بھی جاوَ ڈاکٹر عابد علی خان (کراچی) ڈاکٹر عابد علی خان پیشہ کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں ، شاعری کا ذوق رکھتے ہیں ان کا شعری مجموعہ ’گردش ِ ایام ‘ شاءع ہوچکا ہے ۔ انہوں نے نظ میں بھی کہیں اور غزلیں بھی ۔ ڈاکٹر عابد کے مجموعہ اور ذیل میں کورونا کے حوالے سے درج کلام مجھے میرے ادبی دوست مرتضیٰ شریف نے دیا ۔ مجموعہ دیکھ کا یہ بات آشکارہوئی کہ عابد علی تو ہمارے دوست و ہم پیشہ پروفیسر صادق علی خان کے صاحبزادے ہیں ۔ ڈاکٹر عابد پاکستان کے علاوہ بیرون ملک کئی مماک میں پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دیں ۔ گردش ایام میں ڈاکٹر عابدنے ’کچھ اپنے بارے میں ‘کے عنوان سے جو معلومات بیان کیں ان سے یہ بھی علم ہوا کہ صادق علی خان صاحب راجپوت ہیں ، ہم بھی بنیادی طور پر راجپوت ہی ہیں ، راجستھان کی سرزمین بیکانیر ہمارے آبا کی سرزمین رہی، وہاں یوپی کے ضلع مظفر نگر میں آباد ہوئے،پھرپاکستان کا قیام عمل میں آیا اور ہمارے والدین نے ایک اور ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا ۔ اس تعلق سے روحانی طور پر صادق علی خان میرے اور قریب ہوگئے ہیں ۔ صادق خان صاحب کے صاحبزادے عابد علی خان نے کورونا پر غزل کہیں ، گمان ہے کہ یہ کے یہ ابھی کہیں اور نہیں چھپی ۔ اس کا عنوان ہے ’’کورونائی عید‘‘ ۔ ناگہانی آفتوں سے کیسی عریاں عید ہے دیکھنے والو یہ دیکھو آج رقصاں عید ہے بے سروسامان ہو کر رہ گئی ہے زندگی دم بخود ہے عالمِ ہستی پریشان عید ہے آزمائش کی گھڑی میں عزم و ہمت دیکھ کر فاقہ مستیوں کی گلی میں آج رقصاں عید ہے شکر کر لو ہے ’کورونا‘ زلزلہ کوئی نہیں اہلِ ایماں کے لیے یہ ماہ ِ قرباں عید ہے یا خدا آخر ز میں کو لگ گئی کس کی نظر ماتمی صف بچھ رہی ہے شام ہجراں عید ہے آج قبرون سے لپٹ عابد پکارے بار بار آوَ زاہد آوَ ماجد آوَ افشاں عید ہے سرور غزالی ۔ برلن، جرمنی نام سید سرور ظہیر، قلمی نام سرور غزالی ، شاعر ہیں ،افسانہ نگارہیں ، سفر نامے بھی لکھے، برلن کی ہمبولڈ umboldt niversity)
شعبہ انسٹی ٹیوٹ برائے افریقن و ایشین اسٹیڈیز میں استاد ہیں ۔ سرور غزالی معروف شاعر افسانہ نگارانورظہیر رہبرکے چھوٹے بھائی اور معروف شاعرہ عشرت معین سیما کے دیور ہیں ۔ یہ خاندان جرمنی میں اردو زبان و ادب کے حوالے اعلیٰ خدمات سرانجام دے رہا ہے ۔ سرور غزالی کئی کتابوں کے خالق ہیں ان میں بکھرے پتے(افسانے)، بھییگے پل (افسانے)، سورج کا اغوا(افسانے)، دوسری ہجرت (ناول)، میرے مضامین ، خون کی بھیک (جرمن ناولٹ) ۔ تصانیف کے علاوہ مختلف کانفرنسی، سیمینار میں علمی ادبی موضوعات پر مقالات پیش کئے ۔ سرورغزالی صاحب نے میری استدعا پر اپنی یہ غزل عنایت فرمائی ۔ وباء کے درمیاں کوئی نہ اپنا منہ کھولے سلے نقاب میں لب ، اب نہ کوئی کچھ بولے امیرِ شہر کی سازش ہے یا طبیب کا کھیل کوئی خلاف طبیبوں کے کیوں نہ کچھ بولے ہے بے رُخی کا عجب شاخسانہ محفل میں معانقہ کو نہ بانہیں رفیق اب کھولے قفس میں اپنے ہی صیاد خود مقید ہے کھڑا ہے سر پہ رشتہ اجل کا پر کھولے |