راحت اندوری : ہمارے منھ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
(Ghulam Ibnesultan, Jhang)
ڈاکٹر غلام شبیر رانا
اَب نہ میں ہوں نہ باقی ہیں زمانے میرے
پھر بھی مشہور ہیں شہروں میں فسانے میرے
اُردو اَدب میں ترقی پسند تصور کی ترجمان ایک بے خوف آواز ہمیشہ کے لیے
خاموش ہو گئی ۔ بھارت کا ممتاز شاعر راحت اندوری گیارہ اگست 2020ء کو زینۂ
ہستی سے اُتر گیا ۔ فلمی شاعری کا قومی ایوارڈ حاصل کرنے والا شاعر اَپنی
باری بھر کر اِس دنیا سے رُخصت ہو گیا۔اَدبی محافل اور مشاعروں کی اِس روح
رواں کو دیکھنے کے لیے کے لیے اَب آ نکھیں ترسیں گی ۔حریتِ فکر کے جذبات ،
سادگی ،سلاست ،روانی اور سہل ممتنع کے ذریعے اپنی شاعری کو ساحری بنانے
والا با کمال شاعر اَب ماضی کا حصہ بن چکاہے ۔ دُنیا کے مختلف ممالک میں
ہونے والے ایسے مشاعرے جن میں جہاں لاکھوں افراد اُس کا کلام سننے کے لیے
اکٹھے ہوتے اَب اس شاعر کی یادوں کی کہانی سنائیں گے۔ اپنی طلسمی شخصیت اور
مسحور کن شاعری سے سماں باندھنے والا فطین شاعر بزم ادب سے اُٹھ کر شہر
خموشاں کی جانب چل دیا۔ اِنسانیت کے وقار و سر بلندی، اخوت کی جہاں گیری
اور محبت کی فراوانی کا ایساپر جوش حامی اَب کہاں مِلے گا؟ علم وادب ،
مصوری ،تدریس ،موسیقی اور فلمی نغمہ نگاری کا وہ نیّرِ تاباں جو یکم جنوری
1950ء کو اندور ،مدھیہ پردیش (بھارت)سے طلوع ہوا وہ گیارہ اگست 2020ء کو
اندور ہی میں غروب ہو گیا۔اندور کی زمین نے اردو شاعری کے اِس آسمان کو
ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چُھپا لیا۔ خطرناک عالمی وبا کوڈاُنیس(COVID-
19 )کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد راحت اندوری کو سری اروبندو انسٹی ٹیوٹ آف
میڈیکل سائنسز (Sri Aurobindo Institute of Medical Sciences.) اندور میں
علاج کے لیے داخل کرایا گیا۔ اِسی اثنا میں دل کا دورہ پڑنے سے راحت اندوری
چل بسے ۔اُن کے پس ماندگان میں تین بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں ۔ اپنی جنم
بھومی اندور سے والہانہ محبت اورقلبی وابستگی راحت اندوری کی مستحکم شخصیت
کا امتیازی وصف تھا۔ سولہویں صدی سے ریاست مدھیہ پردیش میں تعلیم اور فن کا
محور سمارٹ سٹی اِندور شہر نہ صرف ضلع اِندورکا ضلعی صدر مقام ہے بل کہ یہ
اِندور ڈویژن کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے ۔ نو آبادیاتی دور میں اس شہر سے تعلق
رکھنے والے کئی یگانۂ روزگار فاضل پرورشِ لوح و قلم میں مصروف رہے ۔ دکن
اور دہلی کے معتبر تجارتی ربط کے حوالے سے اس شہر کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے
۔ غزل اور آزادنظم میں نئے تجربے کرکے راحت اندوری نے کلیشے کے خلاف آواز
بھر پور بلند کی اور تخلیقی فعالیت میں جدت و تنوع پر زور دیا۔چربہ ساز،
سارق اور کفن دُزد سفہا کے خلاف راحت اندوری نے کُھل کرلکھا ۔ جسارت
سارقانہ کی مکروہ سازش سے جعلی بلندیوں تک رسائی حاصل کرکے ہنہنانے والے
مسخروں کو خبردار کرتے ہوئے راحت اندوری نے لکھاہے :
جُھوٹی بلندیوں کادھواں پار کر کے آ
قد ناپنا ہے میرا تو چھت سے اُتر کے آ
ہوا کا رُخ پہچان کر اپنے جذبات و احساسات کو اَشعار کے قالب میں ڈھالنے
والے جدید لہجے کے اس شاعر نے اپنے لیے ایک واضح لائحہ عمل کا انتخاب کیا
اور مشاعروں میں اپنی مقبولیت کی دھاک بٹھا دی ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اِس
قدر ہمہ گیر مقبولیت کے باوجود نقادوں نے اُس کے اسلوب کے بارے میں کم کم
لکھا ہے ۔ اپنی شاعری میں راحت اندوری نے بہرام ٹھگ کی اولاد ، پیمان شکن
،عاد ی دروغ گو اور محسن کش سفہا کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ نگاہیں
چُرانے کے بجائے اِس ظلم کا حساب دیں کہ اِس لُوٹ مار میں کون کون سے درندے
اُن کے شریکِ جُرم رہے ہیں ۔زندگی کے ہر موڑ پر رُک رُک کر سنبھلنے اور مُڑ
کر دیکھنے والوں کو راحت اندوری نے خبردار کیا ہے کہ اگر وہ دشت نوردی سے
اِس قدرخائف تھے تواپنے چور محل اور عشرت کدے سے باہر قدم کیو ں رکھا ؟
خارزارِ زیست کے آ بلہ پا مسافروں کو راحت اندوری نے ہدایت کی ہے کہ وہ
اپنے حقوق کے حصول کے لیے غاصب استحصالی عناصرکو شیر کی آ نکھ سے دیکھیں
اور دبنگ لہجے میں بات کریں۔ راحت اندوری نے زندگی بھر بروٹس قماش آستین کے
سانپوں کی دوعملی ،منافقت ، محسن کشی ،پیمان شکنی اور مکر و فریب کے خلاف
مثبت شعور و آگہی پیدا کرنے کی سعی کی۔ اپنی شاعرانہ بصیرت کو رو بہ عمل لا
کر راحت اندوری نے اپنے منفرد اسلوب میں آفاقی اور مقامی تصورات کا احاطہ
کیا ہے ۔اُ ن کے اسلوب پر جن ممتاز شعرا کے کلام کا پرتودکھائی دیتاہے اُن
میں فانی بدایونی( 1879-1961)،مرزا یاس یگانہ چنگیزی(1833-1956)، علی سکندر
جگرمرادآبادی (1890-1960) ، شبیر حسن خان جوش ملیح آبادی(1898-1982) ، رگھو
پتی سہائے فراق گورکھ پوری ( 1896-1982) ، احمدفراز( 1931-2008) ،سیف الدین
سیف( 1922-1993) ، اُستاد دامن ( چراغ دین: 1911-1984) آغاشورش
کاشمیری(عبدالکریم :1917-1975) اور حبیب جالب ( 1928-1993) شامل ہیں ۔ جدید
اُردو شاعری کے وہ تخلیق کار جن کی بات دِل سے نکلتی اور دِل میں اُتر جاتی
اُن میں محسن بھوپالی ،راحت اندوری ،ناصر کاظمی، رام ریاض ،منیر نیازی اور
بشیر بدر شامل ہیں ۔ہر مشاعرے کو کامیابی سے ہم کنار کرنے والا ہر دِل عزیز
شاعر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ گزشتہ صدی کی ستر کی دہائی میں مشاعرے میں
الفاظ کی موثر اور بر محل ادائیگی اور اشاروں سے سماں باندھ کر ادبی محفلوں
پر چھا جانے والا شاعراب مُلکوں مُلکوں ڈھونڈنے سے بھی نہ مِل سکے گا۔
برف کی چٹان کے تلووں میں چھالے کر دئیے
گورے سُورج نے ہزاروں جِسم کالے کر دئیے
حسن فطرت سے والہانہ محبت راحت اندوری کی شخصیت کا اہم وصف تھا۔ اُس نے
اپنے بیٹے کانام ’’ ستلج ‘‘ رکھا اور عملی زندگی میں اُس کی روانی کے لیے
سدا دعا کی ۔طوفان ِ حوادث کو اپنی حدود میں رہنے کا مشورہ دینے والا جری
شاعر کورونا کی زد میں آ گیاتو دنیا بھر میں اُس کے لاکھوں مداحوں میں
تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ مشاعروں میں راحت اندوری محض صداکار ہی نہیں تھابل
کہ سٹیج پر وہ اپنا کلام پیش کرتے وقت جب بر جستہ اور بے ساختہ انداز میں
اداکار کا رُوپ دھارتا تو ناظرین اَش اَش کر اُٹھتے۔ بھارت کی سیاسی زندگی
کے نشیب و فراز پر ثقافتی مزاحمت کی صورت میں راحت اندوری نے وہی لہجہ اور
ڈسکورس اپنا یا جو پاکستان میں نئے سماجی اور معاشی حقائق کی روشنی میں
محسن بھوپالی ،مجید لاہوری ،فیض احمد فیض اور احمد فراز کی شاعری میں جلوہ
گر ہے ۔ پس نو آبادیاتی دور میں داخلی نوعیت کے نو آبادیاتی نظام اور
ریاستی جبر کے خلاف راحت اندوری نے نہایت سخت موقف اختیارکیا۔ سال 1977ء کے
انتخابات میں بھارتی جنتا پارٹی کی کامیابی پر راحت اندوری نے کہا تھا:
دیکھیں سپردِ گُل ہو کہ پہنچے خزاں کے پاس
اَب کے چمن گیا ہے نئے پاسباں کے پاس
اِس یادگارِ زمانہ شاعر نے اپنی تخلیقی فعالیت سے فکر و نظر کو مہمیز کرکے
جمود کا خاتمہ کیا اور سفاک ظلمتوں میں افکارِ تازہ کی شمع فروزاں کر کے
جہانِ تازہ کی جستجو کو شعاربنایا۔اِندور کی خاک سے اُٹھنے والے اس با کمال
شاعر نے شاعری میں افلاک کی وسعت کو چُھو لیا۔ اُردو زبان و ادب کے اِس
تابندہ ستارے کا غروب ہوجانا اردو ادب کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان ہے ۔
زندگی کی رعنائیوں اور رنگینیوں کی مسحور کُن دل کشی اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر
وجود سے عدم کی جانب منتقلی بلاشبہ ایک الم ناک سانحہ ہے ۔سکوت ِمرگ کے
سکون کو راحت اندوری نے جداگانہ انداز میں دیکھا ہے ۔
دو گز سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہے
اے موت تُو نے مجھ کوزمیندار کر دیا
راحت اندوری کا تعلق اَندور کے ایک ممتاز علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ اُن
کے والد رفعت اﷲ اور والدہ مقبول بی بی نے اپنے اِس ہو نہار فرزند کی تعلیم
و تربیت پر بھرپور توجہ دی ۔اُنھوں نے ابتدائی تعلیم گھر ہی سے حاصل کی ۔اس
کے بعد وسطانی ،ثانوی اوراعلا ثانوی جماعتوں کی تعلیم کے لیے وہ نوتن سکول
اندور میں زیر تعلیم رہے ۔ ڈگری کلاسز کی تعلیم کے لیے شہر کے اہم تعلیمی
ادارے کریمیہ کالج، اندور میں داخلہ لیا۔ سال 1970ء میں روشنی کا سفر شروع
کرنے والی یو نیورسٹی آف بھوپال کو سال 1988ء میں اِس علاقے کے نامورسپوت
اور بر طانوی استعمارکے خلاف جد و جہد کرنے والے حریت فکر کے مجاہدپروفیسر
برکت اﷲ یونیورسٹی کے نام سے شہرت ملی ۔راحت اندوری نے برکت اﷲ یونیورسٹی
سے سال 1975ء میں ایم۔اے اُردو کی ڈگری حاصل کی ۔ اپنے تحقیقی مقالہ ’’
اُردو میں مشاعرہ ‘‘ کے موضوع پر مدھیہ پردیش بھوج اوپن یونیورسٹی،بھوپال
سے سال 1985ء میں پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔عملی زندگی میں راحت اندوری
نے شعبہ ٔ تدریس کا انتخاب کیا اور اِسلامیہ کریمیہ کالج اندور میں تدریسی
خدمات پر مامور رہے ۔
تصانیف : ایک کثیر التصانیف ادیب کی حیثیت سے راحت اندوری نے درج ذیل
تصانیف سے اُردو اور ہندی ادب کی ثروت میں اضافہ کیا ۔ :
۱۔ دُھوپ بہت ہے (1979 ء) ،۲۔ رُت ( 1983ء) ،۳۔ میرے بعد ( 1990 ء)،۴۔
پانچواں درویش ( 1992 ء ) ،۵۔ کن فیکون( 2002 ء)، ۶ ۔ لمحے لمحے،۷۔چاند
پاگل ہے ( ہندی) ،۸۔دو قدم اور سہی ۹۔ناراض، ۱۰۔موجود، ۱۱۔میرے بعد
اُردو شاعری میں عوامی مزاج کے مطابق جو دبنگ لہجہ شیر افضل جعفری ، محسن
بھوپالی ،اُستاد دامن ، سید ضمیر جعفری ،ساقی فاروقی ،ساغر صدیقی ،سید جعفر
طاہر (واپسی) ، صہبا اختر( محبت کرو) ،رام ریاض ( چاندنی ) ،حبیب جالب (
دستور ) ، دلاور فگار ،جو ن ایلیا ،ارشاد گرامی ،دانیا ل طریر اور محمد
فیروز شاہ نے اپنا یا، راحت اندوری کی شاعری میں اُس کی باز گشت سنائی دیتی
ہے ۔اپنی جنم بھومی سے محبت کا جو انداز شیر افضل جعفری کی شاعری میں جلوہ
گر ہے وہی کیفیت راحت اندوری کے کلام میں موجود ہے۔شیر افضل جعفری نے کہا
تھا:
جھنگ دیس میں اِک سودائی جھومے ڈھولے گائے
بھگوا الفا چال ملنگی شیر افضل کہلائے
اپنی تحریروں میں راحت اندوری نے اس حقیقت کی جانب متوجہ کیا ہے کہ سادیت
پسندی کے روگ میں مبتلا استحصالی عناصر پرانے شکاریوں کے مانند ہمیشہ نئے
جال لے کر شکار گاہ میں پہنچتے ہیں اور کُھلی فضاؤں میں دانہ دُنکا چُگنے
کے عادی طائران خو ش نواکو اسیرِ قفس رکھ کر لذتِ ایذا حاصل کرتے ہیں۔
عالمی سامراج کی سازش سے پس ماندہ اقوام کی آزادی بے وقار او رموہوم ہو کر
ر ہ گئی ہے ۔ مغرب کی استعماری طاقتوں نے مشرق کے پس ماندہ ممالک میں اپنی
نو آبادیاں قائم کر کے ان ممالک کی تہذیب و ثقافت ،فنون لطیفہ ،سماج اور
معاشرت کے بارے میں گمراہ کُن تجزیے پیش کیے۔حقائق کی تمسیخ اور مسلمہ
صداقتوں کی تکذیب مغرب کے عادی دروغ گو محققین کا وتیرہ رہا ہے ۔ تاجر کے
رُوپ میں آنے والے تاج ور بن بیٹھے یہا ں تک کہ وہ اپنی دُکان بڑھا کر چل
دئیے ۔ شقاوت آمیزناانصافیوں اورپیمان شکنی کایہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے
جب فرانس کے مہم جُو نپولین بونا پارٹ ( : 1769-1821 Napoleon Bonaparte)نے
سال 1798 ء میں مصر اور شام پر دھاوا بو ل دیا تھا یہ حالات کی ستم ظریفی
نہیں تو اور کیا ہے کہ ان سابقہ نو آبادیات میں سلطانیٔ جمہور کا خواب کبھی
شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا ۔ پس نو آبادیاتی دور میں ان ممالک کے حکمرانوں
کے سر پر تو خود مختارحکومت کا جعلی تاج سجا دیا گیا ہے مگر ان کے پاؤں
بیڑیوں سے فگار ہو گئے۔جبر کا ہر انداز لائق استرداد ٹھہراتے ہوئے ہوئے
مزاحمت کا جو انداز حبیب جالب کی شاعری میں فکر کو خیال کو مہمیز کرتاہے
وہی جذبہ راحت اندوری کے ہاں نمایاں ہے ۔حبیب جالب نے کہا تھا:
تم سے پہلے بھی جو اِک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اُس کو بھی اپنے خداہونے کا اِتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہا ں ہیں کہ جنھیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں تہِ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
اَب وہ پِھرتے ہیں اِسی شہر میں تنہا لیے دِل کو
اِک زمانے میں مزاج اُن کا سرِ عرشِ بریں تھا
چھوڑنا گھر کا ہمیں یاد ہے جالب نہیں بھولے
تھا وطن ذہن میں اپنے کوئی زِنداں تو نہیں تھا
راحت اندوری نے اپنی مزاحمتی شاعری میں اُن طالع آزما اور مہم جُو عناصرکی
جانب اشارہ کیا ہے کہ جو کسی مرحلے پر شریک ِ سفرتو نہ تھے مگر اپنے مکر کی
چالوں سے منزلوں پر غاصبانہ طور پر قابض ہونے میں کامیاب ہو گئے ۔ اُردو
زبان کے اکثر شعرانے پس نو آبادیاتی دور میں رونما ہونے والی اسی نیرنگی ٔ
سیاستِ دوراں کی جانب متوجہ کیاہے ۔ پس نو آبادیاتی دور میں دُکھی انسانیت
پر جو کوہِ ستم ٹُوٹاوہ تاریخ کا ایک لرزہ خیز باب ہے ۔چور محل میں جنم
لینے والے مشکوک نسب کے سفہا اور اجلاف و ارزال نے چور درواز ے سے گُھس کر
تمام وسائل پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ۔ چڑھتے سورج کے پجاری اس قماش کے جہلا
نے اپنی جہالت کا انعام بٹورنے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کاکوئی موقع
ہاتھ سے جانے نہ دیا ۔وقت کے فراعنہ کے کبر و نخوت اور گھمنڈ سے راحت
اندوری کو شدید نفرت تھی ۔انھوں نے طالع آزما اور مہم جُو فراعنہ سے مخاطب
ہو کر کہا تھا:
آندھی مغرور درختوں کو پٹخ جائے گی
بس وہی شاخ بچے گی جو لچک جائے گی
یہ اہلِ درد کی بے بسی کی انتہا تھی کہ پس نو آبادیاتی دور کے بے حس معاشرے
میں جاہل اور تہی موقع پرست اپنی جہالت کا انعام بٹور نے میں کامیاب ہو گئے
۔ راحت اندوری کو اس بات پر تشویش تھی کہ وقت کے ایسے لرزہ خیز اور اعصاب
شکن سانحات کو کسی نام سے تعبیر کرنا بھی ممکن نہیں۔ راحت اندوری کادبنگ
لہجہ اور الفاظ کی ترنگ حریتِ ضمیر سے جینے کی اُمنگ کی ترجمان ہے ۔عالمی
مشاعروں، ادبی محفلوں خاص طور پر جشنِ ریختہ میں راحت اندوری کی شرکت سے
محفل کی رونق کو چار چاند لگ جاتے تھے ۔ایسے مشاعرے جن میں لاکھوں افراد
شرکت کرتے تھے وہاں بھی سامعین راحت اندوری کا کلام ہمہ تن گو ش ہوکر سنتے
تھے ۔ مشاعروں میں دلچسپی رکھنے والے ذوقِ سلیم سے متمتع سامعین کا خیال ہے
کہ ادبی نشستوں میں دھنک رنگ مناظر ،جدت، تنوع ،جرأ ت ِ اظہار ،حق گوئی ،بے
باکی اور حسن و خوبی کے سبھی اِستعارے راحت اندوری کے دَم سے تھے۔ الفاظ کو
فرغلو ں میں لپیٹ کر پیش کرنا راحت اندوری کے ادبی مسلک کے خلاف تھا۔ جس
وقت اکثر لوگ کسی مصلحت کے تحت حرفِ صداقت لکھنا بھول گئے،اُس وقت راحت
اندوری نے نتائج سے بے پروا ہو کر جبرکے کریہہ چہرے سے پردہ اُٹھایا۔اپنے
خالق کی عظمت پر یقین رکھنے والے اس قناعت پسند شاعر نے درِ کسریٰ پر اِس
لیے کبھی صدانہ کی کہ اُسے معلوم تھاکہ اِن بو سیدہ کھنڈرات میں بُوم و
شِپر ،ملخ ومُور ،کرگس و زاغ و زغن کے ضماد کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ اُونچے
اُونچے درباروں اورآتی جاتی سرکاروں کے کرتادھرتاافراد کے سامنے اپنی
احتیاج بیان کرنے کے بجائے راحت اندوری نے ہمیشہ اپنے خالق اور اپنے مالک
حقیقی کے حضور عجز وانکسار کے ساتھ سرجھکا کر التجا کرنے پر زور دیا۔ متاعِ
لوح و قلم چھین کر مظلوم انسانوں کے لبِ اظہار پر تالے لگانے والی جابر
قوتوں کے خلاف راحت اندوری نے زندگی بھر قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا
۔اُس نے اعصاب پہ پہرے بٹھانے والی جابر قوتوں پر واضح کر دیا کہ اگر زبان
کٹتی ہے تو کٹ جائے مگر وہ جذبہ ٔ ایمان کے اعجازسے اپنے ضمیر کی آواز پر
لبیک کہتے ہوئے حق و صداقت پر مبنی اپنا موقف علی الاعلان پیش کرنے کا
حوصلہ رکھتے ہیں ۔ایک معلم اور شاعر کے لیے مقتدر حلقوں پر کڑی تنقید بڑے
دِل گردے کی بات ہے ۔ معاشرتی زندگی ،سیاست ِ دوراں کے نشیب و فراز اور
سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے بارے میں راحت اندوری نے اپنی شاعری کے ذریعے عصری
آ گہی پروان چڑھانے کی مقدور بھر کوشش کی ۔ عرفانِ ذات کی مظہر خود اعتمادی
افراد کو اقوام کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت سے متمتع کرتی ہے ۔ موقع پرست
ملاحوں کے عارضی سہارے سے بے نیاز رہتے ہوئے بڑھتے ہوئے سیل حوادث سے ٹکر ا
کرتیر کر دریا پار کرنے کا مشورہ دینے والے اس شاعر نے سدا اپنی دنیا آ پ
پیدا کرنے کی تلقین کی ۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ہوس نے انسان کو
اخوت ،خلوص اور مروّت سے محروم کر دیا ہے ۔دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے رجحان
نے زندگی کی تما م رُتیں بے ثمر کر دی ہیں ۔ گلیوں میں پھیلی بارُود کی بُو
میں جہاں سانس لینا دشوار ہے راحت اندوری نے وہاں عطر بیز گل ہائے رنگ رنگ
کی دکانیں کھولنے کامشورہ دیا اورزہریلے دھوئیں سے بھرے کوچہ و بازار میں
خوشبو کے کاروبار کا آغاز کرنے کی تلقین کی ۔وطن ،اہلِ وطن اور انسانیت کے
ساتھ والہانہ محبت کرنے والے اس جری تخلیق کارنے جبر کی اطاعت سے ہمیشہ
انکار کیا ۔ انھوں نے کبھی کسی کی ڈکٹیشن قبول نہ کی اور زندگی کے ہر مرحلے
پر ا پنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہا۔ ہوائے جورو ستم کے مہیب بگولوں میں بھی
شمع ِ وفا کو فروزاں رکھنے والے اس شاعرنے مصلحتِ وقت کی کبھی پروا نہ کی
اورلال قلعہ دہلی میں وزیر اعظم ہند کی صدارت میں ہونے والے مشاعرے میں کئی
بار یہ کلام پڑھا:
اگر خلاف ہے ہونے دو جان تھوڑی ہے
یہ سب دُھواں ہے کوئی آ سمان تھوڑی ہے
لگے گی آ گ تو آئیں گے گھر کئی زدمیں
یہاں پہ صر ف ہمارا مکان تھوڑی ہے
ہمارے منھ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منھ میں تمھاری زبان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں
لیکن ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں کَل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامِل یہاں کی مٹی میں
کِسی کے باپ کاہندوستان تھوڑی ہے
پروفیسر حاجی محمد ریاض ،پروفیسراحمد بخش ناصر،پروفیسر گدا حسین افضل
،پروفیسر شفیع ہمدم اور پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب نے کرائے دار کی
ترکیب کو بہت پسند کیا ۔ ممتاز ماہر ِ نفسیات پروفیسرحاجی حافظ محمد حیات
نے طالع آزما اور مہم جُو عناصر کو کرائے دار کے بجائے گُھس بیٹھیے قراردیا
جو مظلوموں کا خون پی کر اپنے عشرت کدے تعمیر کرتے ہیں ۔ قزاق ِ اَجل نے
زندگی بھر مشاعر ے لُوٹنے والے اِس تخلیق کارکی زندگی کی متاعِ بے بہا لُوٹ
کر اُردو ادب کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔
اُردو مشاعروں میں راحت اندوری کی بے پناہ مقبولیت کا اندازہ اس اَمر سے
لگایا جاسکتاہے کہ ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے ان کو دس لاکھ روپے ملتے تھے
۔ فلمی شاعری کو نیا آ ہنگ عطا کر کے راحت اندوری نے اپنے پچاس کے قریب
مقبول فلمی نغموں سے فلم بینوں کو حیرت زدہ کر دیا۔ راحت اندوری کی خواہش
تھی کہ وہ اردو زبان میں بننے والی فلموں کے لیے معیاری گیت لکھیں۔ وہ
یقیناً اس صلاحیت سے متتمع تھے کہ وہ جا نثار اختر،ساحر لدھیانوی ، شکیل
بدایونی ،سیف الدین سیف ،قتیل شفائی ،منیر نیازی کی طرح فلمی نغمے لکھ کر
شائقین ِ فلم کے ذوق کی تسکین کر سکیں مگر فلمی صنعت سے وابستہ بعض افراد
نے انھیں موقع ہی نہ دیاکہ وہ الفاظ کی حرمت کا خیال رکھتے ہوئے موقع کی
مناسبت سے گنجینۂ معانی کے طلسم کی گرہ کشائی کر سکیں ۔ راحت اندوری نے
پچاس سال تک پیہم فلمی گیت لکھے ۔اُس کے لکھے ہوئے فلمی گیتوں کی تعداد
پچاس سے زائد ہے ۔اس کے مقبول فلمی نغموں میں سے چند درج ذیل ہیں:
دیکھو دیکھو ، بمبرو بمبرو ( 2000)،جنم ہم عشق( 1997)،چوری چوری جب نظریں
مِلیں (قریبِ :1998)، نیند چرائی میری (عشق 1997)، کوئی جائے تولے آئے (
گھاٹک 1996)،
صحافت کے شعبہ میں بھی راحت اندوری نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔
کمیونزم کے ساتھ اس کا معتبر ربط رہا مگروہ کسی قسم کی عصبیت اور گروہ بندی
کا قائل نہ تھا۔ دس برس تک ان کی ادارت میں باقاعدگی سے شائع ہونے والا
ادبی مجلہ ’’ شاخیں ‘‘ قارئینِ اَدب کی توجہ کا مرکز رہا۔راحت اندوری کو
مشاعروں کو فتح کرنے اور دلوں کو مسخر کرنے کا فن خوب آتاتھا۔وہ جس مشاعرہ
میں شرکت کرتا وہاں سامعین کا تانتابندھ جاتا۔ شاعری میں اُس کا دبنگ لہجہ
دِلوں کو نئی اُمنگ سے آ شنا کرتاہے ۔ظلمت ِ شب کا شکوہ کرنے کے بجائے اپنے
حصے کی مشعل فروزاں رکھنے کی تلقین کرنے والے اس شاعر نے بے عملی اور
جمودکے خاتمے کی مقدور بھر کوشش کی ۔اس کا خیال تھا کہ استحصالی عناصر نے
تشنہ لب محروم طبقے کی پیاس بجھانے کے لیے اُنھیں محض شبنم کے محض چند قطرے
گِن کر دئیے ہیں ۔ ان مایوس کن حالات میں مصائب و آلام کے پاٹوں میں پسنے
والے مظلوم انسانوں کو دریاؤں کی دعوے داری کرنے پر مائل کرنے والے اس شاعر
نے سداحوصلے اور اُمید کا پیغام دیا۔
دوستی جب کسی سے کی جائے
دشمنوں کی بھی رائے لی جائے
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
تُو جو چاہے تو ترا جھوٹ بھی بِک سکتاہے
شر ط اِتنی ہے کہ سونے کا ترازو رکھ لے
آنکھ میں پانی رکھو ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
بہت غرور ہے دریا کو اپنے ہونے پر
جو میری پیاس سے اُلجھے تو دھجیاں اُڑ جائیں
نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پُرانا چل رہا ہے
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں سائیں سائیں کرتے جنگل میں جنگل کا قانوں
پوری شدت سے نافذ ہے ۔جلادوں اور درندوں نے بے بس و لاچار مخلوق کا جینا
دوبھر کر دیا ہے ۔ہر وہ بروٹس جسے سیزر نے چلنے کا سلیقہ سکھایا وہ کڑی
دھوپ کے سفر میں اپنے محسن کے درپئے آزار ہو گیااورسایہ طلب محسن کو
پریشانی کے عالم میں دیکھ کر آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔اجلاف و ارذال کے
پروردہ مشکو ک نسب کے ایسے سفہا کے دِلوں میں کینہ پروری اور حسد کی آ گے
کے شعلے بھڑکتے رہتے ہیں مگر لبوں پر جعلی مسکراہٹوں کے گلاب کِھلاتے رہتے
ہیں ۔ان کا دوغلا پن ،منافقت اور طوطا شمی دیکھ کر کلیجہ منھ کو آ تاہے
۔راحت اندوری کو اِس بات پر گہری تشویش رہی کہ سبز باغ دکھانے والوں نے
جاگتی آ نکھوں سے خواب دیکھنے کے رسیا سادہ لوح لوگوں کو اس قدر فریب دئیے
ہیں کہ اَب زندگی کے سرابوں میں اُنھیں یاس و ہراس کے سوا کچھ دکھائی نہیں
دیتا۔ زبان و بیان اور اظہار و ابلاغ پر خلاقانہ دسترس راحت اندوری کی
شاعری کا نمایاں وصف ہے ۔راحت اندوری کے کلام میں متعدد علامات فکر و خیال
کو مہمیز کرتی ہیں ۔اِن علامات کو ایک نفسیاتی کُل کے رُوپ میں دیکھنا
چاہیے جن کے معجز نما اثر سے لا شعور کی توانائی متشکل ہوتی ہے ۔ان خیال
افروز اور فکر پرورعلامات میں آ گ ، آ نکھ ،بستیاں، پیڑ ،پتیاں، تلوار،
تیزاب ،بدن، سواری،پیاس ،چنگاری ،چراغ ، جنگل ،نیند ،خواب ،شبنم ،دریا ،
عجائب گھر ،قطرہ ،چاند ،جگنو،رات، کانٹے ،کشتی،گلاب،نقاب،آفتاب،چاند،رُت،
زہریلی ہوا،پاگل،گھر، مقبرے ،ہجرت شامل ہیں۔اپنی شاعری کے قصر عالی شان کو
راحت اندوری نے جذبوں کی صداقت اور جرأت اظہار سے مزین کرنے کی جو سعی کی
ہے قاری اُس سے گہرا اثر قبول کرتا ہے ۔اپنے خیالات کو نہایت مہارت ،ذہانت
اور دیانت سے زیبِ قرطاس کر کے راحت اندوری نے اپنی شاعری کو روح اور قلب
کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آ فرینی سے مالا مال کر دیاہے ۔ راحت
اندوری کی شاعری میں استعما ل ہونے والے الفاظ ایسے محدب عدسوں کی صورت
اختیار کر لیتے ہیں جو تخلیق کار کی شخصیت کو واضح انداز میں پیش کرتے ہیں
۔یہ الفاظ قاری کو اوہام و تشکیک کے صحرا سے نکال کر زندگی کے حقائق کی گرہ
کشائی پر مائل کرتے ہیں ۔ اپنی شاعری میں صنائع بدائع کے بر محل استعمال سے
راحت اندوری نے اپنے مصرعوں کو زرنگار بنا دیا ہے ۔مصرعوں میں قافیہ اور
ردیف کے حسن کا جادو سر چڑھ کر بولتاہے۔
سب کو رسو ا باری باری کیا کرو ( صنعت تکرار )
ہر موسم میں فتوے جاری کیا کرو
قطرہ قطرہ شبنم گِن کر کیا کرنا ( صنعت تکرار )
دریاؤں کی دعوے دار ی کیا کرو
لوگ ہر موڑ پہ رُک رُک کے سنبھلتے کیوں ہیں ( صنعت تکرار )
اِتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں
میرے خلوص کی گہرائی سے نہیں مِلتے
یہ جھوٹے لوگ ہیں سچائی سے نہیں مِلتے ( تضاد )
پس نو آبادیاتی دور میں مفاد پرستی ،لُوٹ کھسوٹ ،ہوسِ زر ،دہشت گردی اور
انسان دشمنی نے ایک آفت نا گہانی کی صورت اختیار کر لی ہے ۔ رابن ہُڈ اور
بہرام ٹھگ کی نسل سے تعلق رکھنے والے درندے سادہ لوح لوگوں کی پیٹھ میں
خنجرگھونپ کر بھیس بدل کر مرہم بہ دست پہنچتے ہیں اورجعلی ہمدردی کی
اداکاری کر کے پوچھتے ہیں کہ یہ خون کیسے نکلا؟ قلزمِ ِحیات کی ہر موج میں
سیکڑوں نہنگ،وہیل مچھلیاں ،دریائی گھوڑے اور شارک مچھلیاں ہمہ وقت سطح ِ آب
پر تیرکر کم زورآبی مخلوق پر اپنی قوت و ہیبت کی دھاک بٹھا رہی ہیں۔آسمان
سے برسنے والی بارش کے نفیس اور صاف قطروں کو صدف کے کُھلے دہن میں جانے کی
راہ میں حائل ہو کر یہ خطرناک آبی مخلوق قطرے کے گہر ہونے کی راہ میں درپیش
مشکلات اور مرگِ نا گہانی کی پوری کہانی سامنے لاتی ہے ۔ راحت اندوری کی
شاعری کا مطالعہ کرنے سے قاری اِس نتیجے پر پہنچتاہے کہ زندگی جوئے شِیر و
تیشہ و سنگِ گراں ہی ہے ۔اس شاعری میں یہ راز پنہاں ہے کہ خارزارِ حیات میں
منزلوں کی جستجو کرنے والے آبلہ پا مسافروں کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی
چاہیے کہ یہاں گاڈزیلا،ڈائنو سار ،گینڈوں،ریچھوں ،خطرناک جنگلی سانڈوں
،بھیڑیوں ،راکشس اور تیندووں کا راج ہے ۔چلتے پھرتے ہوئے مُردو ں سے
ملاقاتیں اَب روزکا معمول بن چکاہے ۔ راحت اندوری نے کالا دھن کمانے والوں
کے گھروں کی جو لفظی مرقع نگاری کی ہے وہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔
گھروں کے دھنستے ہوئے منظروں میں رکھے ہیں
بہت سے لوگ یہاں مقبروں میں رکھے ہیں
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
جو منصبوں کے پجاری پہن کے آ تے ہیں
کُلاہ طوق سے بھاری پہن کے آتے ہیں
امیرِ شہر تیر ی طرح قیمتی پوشاک
میری گلی میں بھکاری پہن کے آ تے ہیں
یہی عقیق تھے شاہوں کے تاج کی زینت
جو اُنگلیوں میں مداری پہن کے آ تے ہیں
زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کا تحفظ زندگی بھرراحت اندوری کا
نصب العین رہا۔ تیسری دنیاکے ممالک میں اقدار و روایات کی زبوں حالی نے
گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔حرص و ہوس کے بڑھتے ہوئے رجحان کے باعث خون
سفید ہو چکا ہے ۔راحت اندوری کو اس بات کا رنج ہے کہ جب ضمیر کی موت واقع
ہو جائے تو ایسی ہی ان ہونی سامنے آتی ہے کہ لٹیرے اپنی لوٹ مارکی کوئی
نشانی چھوڑے بغیرموقع واردات سے نو دو گیارہ ہو جاتے ہیں اور بعد میں
مظلوموں کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے دبے پاؤں آ نکلتے ہیں ۔ ہر چربہ ساز
،سارق اور کفن دُزد کو اپنے خالق کے حضور گِڑ گِڑا کر اپنے گناہوں کی معافی
طلب کرنی چاہیے ۔ احتیاج کی تکمیل کے ساتھ ہی مفاد پرست درندوں کالہجہ بھی
مکمل طور پر تبدیل ہوجاتا ہے۔پس نو آبادیاتی دور میں داخلی نوعیت کے نو
آبادیاتی نظام میں جِن پُر اسرار حالات میں محروم طبقے کو نان ِ جویں سے
محروم کر دیا گیا اُس سانحہ نے حساس تخلیق کاروں کی روح کو زخم زخم اور دِل
کو کرچی کرچی کر دیا۔ہمہ وقت خنجر بہ دست رہنے والے کینہ پرور بھیڑیے اس
قدر درندگی کا مظاہرہ کرتے کہ مظلوم انسانوں کی زبان کاٹنے کے بعداپنے وار
اور کاری ضرب کی تحسین کی تمنا لیے ہنہناتے دکھائی دیتے ۔نبضِ دوراں کے
رمزآشنا جانتے ہیں کہ گردِشِ ایام اور سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس
کے بعد جاہ و جلال اورکبر ونخوت کے سب سلسلے نیست و نابود ہو جائیں گے۔
موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ پیہم تیر ستم سہنے کے بعد جب مظلوم انسان کا
بدن جان سے خالی ہو جاتاہے تو یہ سب کچھ اپنے مقدر اور قسمت کی تحریرسمجھ
کر چُپ سادھ لیتاہے ۔ رجائیت پسندی راحت اندوری کی شاعری کا اہم وصف
ہے۔تاریخ اور اُس کے مسلسل عمل پر اُس کی گہری نظر تھی ،اِس لیے اپنی شاعری
میں راحت اندوری نے آ ندھیوں ،بگولوں اور سرابوں کے عذابوں کے بارے میں
حقیقت پسندانہ موقف اختیارکیا ہے ۔
چاند زیادہ روشن ہے تو رہنے دو
جگنو بھیا ! جی مت بھاری کیا کرو
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گے
کم سے کم راہ کے پتھر تو اُٹھاتے جاتے
روز تاروں کی نمائش میں خلل پڑتاہے
چاند پاگل ہے اندھیروں میں نکل پڑتاہے
گھر کے باہر ڈھونڈتا رہتا ہوں دنیا
گھر کے اندر دنیا دار ی رہتی ہے
یہ ضروری ہے کہ آ نکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو
اپنی دنیا آپ پیداکرنے کی آرزو،خوب سے خوب تر کی جستجو اور احتساب ِ ذات کی
لگن انسان کو ستیز پر مائل کرتی ہے ۔راحت اندوری کا خلوص ،درمندی اور وقار
ان کے اسلوب کو قابل فہم بنا دیتاہے ۔ وہ ہٹ دھرمی کے سخت خلاف تھے اور
تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرتی حالات کے تناظر میں اپنے روّیے پر پیہم نظر
ثانی راحت اندوری کا شیوہ تھا۔ایسا محسوس ہوتاہے کہ ایک محتسب تھا جو راحت
اندوری کے اندرتلوار لیے موجود رہتا تھا جو اسے قصر شاہی کے دروازے پر صدا
کرنے سے روکتا اور حق گوئی و بے باکی پر آمادہ کرتاتھا ۔ ادب کا حساس قاری
چشمِ تصور سے اس جری تخلیق کار کے دِل پر اُترنے والے سب موسم دیکھ لیتاہے
۔ زبان و بیان پر کامل دسترس کے معجز نماکرشمے میر تقی میرؔ کے اسلوب میں
بھی نمایاں ہیں ۔جہاں میرتقی میر ؔ نے اپنے عہد کے انحطاط پذیر معاشرے کے
سیاسی اور معاشرتی حالات کی اس دیانت سے لفظی مرقع نگاری کی ہے کہ وہ تاریخ
اور اس کے پیہم رواں عمل سے آگہی اور حریت فکر کا اہم حوالہ ثابت ہوتاہے ۔
جتنے ہیں یا ں امیر بے دستور
پھر بہ حسن سلوک سب مشہور
پہونچنا اُن تلک بہت ہے دُور
بات کرنے کا واں کسے مقدور
حاصل اِن سے نہ دِل کوغیر خراش
چار لُچے ہیں مستعدِ کار
دس تلنگے جو ہوں توہے دربار
ہیں وضیع و شریف سارے خوار
لُوٹ سے کچھ ہے گرمیٔ بازار
سو بھی قندِ سیاہ ہے یا ماش
حریت ِ ضمیر سے جینے کی تمنا رکھنے و الے راحت اندوری جیسے ادیبوں کے دل پر
جو گزرتی ہے وہ اسے بلا تامل زیبِ قرطاس کر دیتے ہیں۔ ان کے دل میں جو کچھ
کہنے کی خواہش ہوتی ہے وہ جبر کاہر انداز مسترد کرتے ہوئے بیان کر دیتے ہیں
۔ہرقسم کی تر غیب و تحریص اور مصلحت اندیشی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہ
حرفِ صداقت لکھنا اہنا شعاربناتے ہیں اور حشو وزوائد سے اپنی تخلیقات کو
آلودہ نہیں ہونے دیتے ۔ہوائے جور و ستم میں بھی وہ رخ ِ وفاکو بجھنے نہیں
دیتے اور متاعِ لوح و قلم چھین کر لب ِ اظہار پر تالے لگانے والوں سے براہِ
راست مخاطب ہو کر ان پر واضح کر دیتے ہیں کہ انھوں نے تیشۂ حرف سے فصیلِ
جبر کو مکمل طور پر منہدم کرنے کی ٹھان لی ہے ۔ غم ِ جہاں کا حساب کرتے وقت
تخلیق کار کو آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے فریادکناں ،جگر
فگاراورالم نصیب انسانوں کے گروہ کے دکھ بے حساب یادآتے ہیں ،جو اپنے زخموں
کے ایاغ تھامے داد طلب ان کی طرف دیکھتے ہیں ۔ میر تقی میرؔ کی طرح راحت
اندوری نے بھیموقع پرست سرکاری اور درباری سفہا پر گرفت کی ہے :
بَن کے اِک حادثہ بازارمیں آ جائے گا
جو نہیں ہو گا وہ اخبار میں آ جائے گا
چور اُچکوں کی کرو قدر کہ معلوم نہیں
کون کب کون سی سرکار میں آ جائے گا
کسی مصلحت اندیشی کے بجائے راحت اندوری اپنے ضمیر کی آوازپر لبیک کہتے ہوئے
براہِ راست مشاعرے کے سامعین سے مخاطب ہو کر اُنھیں جرأت اظہار پر مائل
کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اُن کے منفرد اسلوب کے ذریعے تخلیق فن کے لمحوں میں
اُن کی ذاتی ترجیحات سے آگاہی ہوتی ہے ۔ایک موثر اور جان دار اسلوب کا حامل
تخلیق کار معاشرتی زندگی میں اپنے وجود کا خود اثبات کرتا ہے۔ممتازبرطانوی
نقاد والٹر پیٹر ( 1839-1894 :Walter Pater) نے کہا تھا:
" The style ,the manner ,would be the man ,not in his unreasoned and
really uncharacteristic caprices,invoulantry or affected, but in
absoulately sincere apprehension of what is most real to him .(1)
ایک صاحبِ طرز ادیب کی حیثیت سے راحت اندوری جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق
ہوتا تو اس کی دِلی تمنا ہوتی کہ اپنی بصیرت اور دُوراندیشی کور و بہ عمل
لاتے ہوئے وہ لہو کی صورت اختیار کر کے رگِ سنگ میں اُتر جائے ۔ وہ جس قدر
پُر اَسرار ،پُر لطف اور باوقار اَندازمیں اپنے خیالات کی لفظی مرقع نگاری
کرتا رہا کہ معاشرتی زندگی میں رنگ ،خوشبو ،حسن و جمال ،اَوجِ کمال اور شام
ِ زوال کے تمام حقیقی مناظرقاری کو عصر ی آ گہی سے متمتع کرنے کا موثر
وسیلہ ثابت ہوئے ۔ تیزی سے گزرتے ہوئے وقت میں مسرت و شادمانی ،راحت و سکون
،حزن و ملال اور یاس و ہراس کے لمحات میں بہ یک وقت صبر و تحمل ،حوصلے اور
اُمید کا مظاہرہ اس کی مضبوط او ر مستحکم شخصیت کاامتیازی وصف ہے ۔ ایک
جری،ذہین اور قادرالکلام تخلیق کار کی حیثیت سے راحت اندوری نے زبان وبیان
پر خلاقانہ دسترس کاثبوت دیتے ہوئے، احتسابِ ذات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے
،حق وصداقت کا علم بلندکر کے جب تخلیقِ ادب کا فریضہ انجام دیتاہے تو وہ
حرف ِ صداقت کی ناگزیر اور ابد آشنا سحر نگاری سے قارئینِ ادب کو چونکادیا
۔قارئینِ ادب کے لیے سہل الحصول مسرت کے یہ لمحات جمالیاتی تسکین کا
موثروسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔قاری ان ادب پاروں کے عمیق مطالعہ سے جو حقیقی
مسرت و شادمانی حاصل کرتاہے وہ اُس کے دل کش اسلوب ہی کا ثمرہے ۔ بھوکے
فقیر کا بھیس بنا کر تماشائے اہلِ کرم دیکھنے والے جعل ساز حقیقت میں بہت
امیر ہوتے ہیں ۔راحت اندوری نے اس معاشرتی المیے کے بارے میں لکھاہے :
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
اِسی گلی میں وہ بُھوکا فقیر رہتا تھا
تلاش کیجئے خزانہ یہیں سے نکلے گا
شاعری میں لفظ کی حرمت کلیدی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے ۔منافقت ،قول و
فعل کا تضاداور ہوس پرستی نے نوع ِ انساں کو اخلاقی اعتبار سے تحت الثریٰ
میں پہنچادیاہے ۔ ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے راحت اندوری نے مصائب
آلام کواپنے اعصاب پر سوار نہیں ہونے دیا۔ فسطائی جبر کے خلاف بزدلانہ
انداز میں دہائی دینے والوں کو اُنھوں نے ظلم پہ لعنت کرنے کا مشورہ دیااور
اپنے حقوق کے لیے اُٹھ کھڑے ہونے پر آمادہ کیا ۔ اُس کا خیال ہے کہ ہر قسم
کے استحصال سے نفرت کرتے ہوئے اپنی وقتی مجبوریوں اور محرومیوں کو نظر
انداز کرکے پوری قوت سے نئے زمانے اور نئے صبح وشام پیداکرنے کے لیے انہماک
کا مظاہرہ کرنا وقت کا اہم ترین تقاضاہے ۔ اپنی شاعری میں راحت اندوری نے
نو آبادیاتی دور کے مظالم کے خلاف کُھل کر لکھا ہے ۔پس نو آبادیاتی دورمیں
اس خطے کے مسائل کے بارے میں اُنھوں نے نہایت جرأت مندانہ انداز میں مقتدر
حلقوں کو متوجہ کیا ہے اس کے ساتھ ساتھ مظلوم عوام کو جہد و عمل پر مائل
کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔انسان دوستی کوشعار بنانے والے اِس پُر عزم ادیب نے
جہاں جبر کے ساتھ سمجھوتہ کرنے اور اِسے قسمت کی لکیروں کے کھاتے میں ڈالنے
والوں کی بزدلی اور دُوں ہمتی پر گرفت کی ہے وہاں سرِ مقتل اپنی سوچ کی
لہکتی ڈال لہرا کر اپنی ذات کو پیش کر کے ظالم و سفاک درندوں کو للکارتے
ہوئے کہاہے کہ جو کچھ اُن کے بس میں ہے وہ کر لیں مگر حرفِ صداقت لکھنے سے
اُسے کوئی نہیں روک سکتا۔ ضمیر کی یہ للکار جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر
دیتی ہے۔
ساتھ چلنا ہے تو تلوار اُٹھا میری طرح
مجھ سے بُزدل کی حمایت نہیں ہونے والی
اَب کے جو فیصلہ ہوگا وہ یہیں پر ہو گا
ہم سے اَب دُوسری ہجرت نہیں ہونے و الی
اُٹھاشمشیر دِکھا اپنا ہُنر کیا لے گا
یہ رہی جان یہ گردن ہے یہ سر کیا لے گا
صرف اِک شعر اُڑا دے گا پرخچے تیرے
تُو سمجھتا ہے کہ شاعر ہے کر کیا لے گا
تخلیقِ فن کے لمحوں میں ترک و انتخاب بلا شبہ ایک کٹھن مرحلہ ہے ۔ اپنے دلی
جذبات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کرنے سے پہلے خیالات سے تصنع اور تکلف کی گرد
صاف کرنا از بس ضروری ہے ۔ ایک مرصع ساز کی حیثیت سے راحت اندوری نے جس طرح
اپنے اسلوب میں غیر ضروری باتوں اور غیر متعلقہ تفصیلات کو حذف کرکے صداقت
کی طرف گامزن ہوکر لعل و جواہر پر کندہ کاری کی سعی کی ہے وہ اس کی
انفرادیت کی دلیل ہے ۔ راحت اندوری کو اس بات کاشدت سے احساس ہے کہ موجودہ
دورکے ذوقِ مطالعہ سے محروم قاری کا المیہ یہ ہے کہ اس کی کور مغزی اور بے
بصری اسے مزاج خانقاہی میں پختہ تر کر دیتی ہے اور وہ بے حسی ،بے عملی اور
کاہلی کا شکار ہو کرشب و رو زایک گونہ بے خود ی کے لیے سرگرداں دکھائی
دیتاہے ۔ نظیرؔ اکبر آبادی(ولی محمد :1740-1830) نے احسان فراموش، محسن کش
،پیمان شکن اور آ ستین کے سانپوں کی سادیت پسندی پر اپنے منفر د اسلوب میں
جوگرفت کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔
کیا کیا فریب کہیے دُنیا کی فطرتوں کا
مکر و دغا و دُزدی ہے کام اکثروں کا
حرص و ہوس کے کچلے ہوئے موقع پرستوں کے لیے تو دنیا کی تمام نعمتیں بھی
ناکافی ہیں ۔ اپنی شاعری میں راحت اندوری نے ایسے مُوذی و مکار گرگ ِ باراں
دیدہ سرکش عناصر کو ہدفِ تنقید بنایاہے جو ترکش کو گُل دان کہنے پر مُصر
رہتے ہیں ۔ اُنھیں اِس بات پر غصہ تھا کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں
اوراپنا اُلّوسیدھا کرنے والوں نے لُوٹ مار کی انتہاکر دی ہے ۔ اپنی زندگی
میں راحت اندوری نے انسانیت پر کوہِ ستم توڑنے والے ابلیس نژاد بھیڑیوں کی
عیاری اور مکاری کا پردہ فاش کرنے میں کبھی تامل نہیں کیا۔ مظلوموں کی
آنکھوں سے دکھائی دینے والے طوفان سے خبردارکرتے ہوئے راحت اندوری نے
استحصالی عناصرکو اپنی اوقات میں رہنے کا مشورہ دیاہے ۔ انسانی ہمدردی کو
شعار بنانے والے اس یگانۂ روزگار تخلیق کار نے اپنے اسلوب کو ذاتی مفادات
اور حرص و ہوس سے کبھی آلودہ نہیں ہونے دیا۔دستیاب معلومات میں سے ترک و
انتخاب کا مرحلہ تخلیق کار کے لیے بہت کٹھن ثابت ہوتاہے اس کے باوجود راحت
اندوری نے اسلوب کی چھلنی سے حشو وزوائد اور کھرے اور کھوٹے کو الگ کر کے
ایک مرصع ساز کی حیثیت سے اپنے فن کی دھاک بٹھا دی۔ اپنے اسلوب میں وہ
بہرام ٹھگ کی اولا د ،پیشہ ور لُٹیروں اور وضیع پیمان شکنوں کو آئینہ دکھا
کرہتھیلی پر سرسوں جما دیتاہے:
میں آخر کون سا موسم تمھارے نام کر دیتا
یہاں ہر ایک موسم کو گزر جانے کی جلدی تھی
مری خواہش ہے کہ آ نگن میں نہ دیوار اُٹھے
مرے بھائی مرے حصے کی زمیں تُو رکھ لے
جو دنیا کو سنائی دے اُسے کہتے ہیں خاموشی
جو آ نکھوں میں دِکھائی دے اُسے طوفان کہتے ہیں
اُردو زبان کے مشہور پاکستانی ا فسانہ نگارسعادت حسن منٹو ( 1912-1955) کی
طرح راحت اندوری کو بھی مے کی دل کشی نے مسحور کر رکھا تھا ۔بادہ نوشی کے
بغیر ان تخلیق کاروں کا تخلیقی عمل جاری نہیں رہ سکتا تھا ۔اِک گونہ بے
خودی کی جستجو میں وہ مے کی طرف راغب ہوئے مگر واپسی کا رستہ بھول گئے ۔یہ
سمے کے سم کا ثمر تھاکہ کثرت مے نوشی کے باعث رفتہ رفتہ راحت اندوری کی صحت
رو بہ زوال رہنے لگی ۔عارضۂ قلب ،جگر کی تکلیف اور بصارت پر اس کے مسموم
اثرات مرتب ہوئے ۔معالج کی سخت ہدایت کے باوجود راحت اندوری نے پر ہیز اور
احتیاط پر عمل نہ کیا اور ہونی چپکے چپکے اپنے کام میں مصروف رہی ۔ ایسا
محسوس ہوتا تھا کہ راحت اندوری نے کچھ عرصہ قبل اپنی مصروف زندگی کے
اِختتام کا انداز ہ لگا لیا تھا۔شاید اِسی وجہ سے اُس نے زندگی کے آخری
دنوں میں عدم کے کُوچ کے لیے رخت ِ سفر باندھنے کی تیاری شروع کر دی تھی ۔
راحت اندوری نے بھر پور زندگی بسرکی مگر اپنی زندگی کے آخری ایام میں وہ
تقدیر اور اجل کے ہاتھوں اپنے نہ ہونے کی ہونی کے بارے زیادہ سوچنے لگا۔اس
کے اسلوب پر موت کا موضوع حاوی نظرآ تاہے ۔
تما م ریشمی عظمت امین میری ہے
تمھارے بازو پہ یہ آ ستین میری ہے
پتا نہیں میری جاگیریں کیا ہوئیں لیکن
یہاں میں دفن ہوں اِتنی زمین میری ہے
گھر سے یہ سوچ کے نکلا ہوں کہ مر جانا ہے
اَب کوئی راہ دِکھا دے کہ کِدھر جانا ہے
اِس نا تمام عالمِ آب وگِل سے دمادم صدائے کن فیکون آ رہی ہے اور یہ صدا
کبھی ختم نہیں ہو سکتی ۔ ماہرین علم بشریات کا خیال ہے کہ موت یاس و ہراس
کے سو اکچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا
دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے ۔ زندگی کا بے آواز سازپیہم بج رہا
ہے اِس کے سریلے بول کسی صورت میں تھم نہیں سکتے ۔ہر جان دارکی پیدائش کے
بعد موت ایک فطری ،اٹل اور نا گزیر حقیقت ہے ۔ زندگی کی حقیقی معنویت سے
کامل آ گہی رکھنے والے لوگ موت سے کبھی خوف زدہ نہیں ہوتے ۔ وہ جانتے ہیں
کہ عزیزہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور یہ
عنبرفشاں پھول شہر ِخموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں ۔ ان کی روح عالم
بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضاؤ ں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی
ہیں اور قلوب میں اُن کی محبت مستقل طور پر قیام پذیر ہو جاتی ہے۔ ذہن و
ذکاوت میں ان کی سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت
کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے ۔ ایسا
محسوس ہوتاہے کہ فرشتہ ٔ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے
اور ہم اس کے بغیر ہم جان کنی کے عالم میں سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن
پُورے کرنے پر مجبور ہیں ۔ اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری
چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی ، اذیت
ناک محرومی اور عبر ت ناک احساس ِزیاں کے باعث ہوتی ہے ۔فرد کے احساسات میں
غم بھی ایک متلاطم بحرِ زخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں الم نصیب
انسانوں کی کشتی ٔجاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے ۔ غم و آلا م کے اس مہیب
طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت ومسرت کو خس و خاشاک کے
مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح ،ذہن اورقلب کی اتھاہ گہرائیوں میں سما جانے
والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے
۔کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی
یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو
غرقاب کر دیتی ہیں۔ یاس و ہراس ،ابتلا وآزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت
کے اِن تباہ کن شب و روزمیں دِ ل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی
چارہ ٔ کار نہیں کہ وہ باقی عمرمصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اس متلاطم
سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارہ ٔ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ
پاؤ ں مارتے رہیں ۔ ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری ، بے چینی اور اضطراب
کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات
یقیناًہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہوگا۔سینۂ وقت سے پُھوٹنے والی موجِ
حوادث نرم و نازک ،کومل اورعطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر
دیتی ہے جس طرح پھول پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو گرد آلود
آندھی کے تند و تیز بگولے زمین پر پٹخ دیتے ہیں ۔پیہم حادثات کے بعد فضا
میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل
انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں ۔کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ
کردائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے ۔تقدیر کے ہاتھوں آرزووں
کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو،رُوپ ، چھب اور
حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے
ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش اور
گہرے ہونے لگتے ہیں ۔ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا مشیت ِ
ایزدی اورصبر و رضا کا قفل بھی کُھل جاتاہے ۔سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں،من
کے روگ،جذبات ِ حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے
اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِ ل دہل جاتا ہے ۔ سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑے
اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتے ہیں۔ جنھیں ہم دیکھ
کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں
اوجھل ہو جاتی ہیں ۔ دائمی مفارقت دینے و الوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے
طوماروں میں دب جاتے ہیں ۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا
نام لیتے ہیں تو ہماری چشم بھر آ تی ہے ۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل
تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں۔ حیران
کن بات یہ ہے کہ گل چین ِ اجل جب گلشن ہستی کے شگفتہ پھول توڑ لیتاہے تو
باغبان کے دِل پر قیامت گزر جاتی ہے ۔اس کائنات میں مخلوق کی زندگی اور موت
کے فلسفے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے راحت اندوری نے اپنی آخر ی غزل میں لکھا
ہے :
آخری غزل
نئے سفر کا جو اعلان بھی نہیں ہوتا
تو زندہ رہنے کا اَرمان بھی نہیں ہوتا
تمام پُھول وہی لوگ توڑ لیتے ہیں
وہ جِن کے کمروں میں گُل دان بھی نہیں ہوتا
خموشی اوڑھ کے سوئی ہیں مسجدیں ساری
کِسی کی موت کا اِعلان بھی نہیں ہوتا
وبا نے کاش ہمیں بھی بُلا لیا ہوتا
تو ہم پر موت کا اِحسان بھی نہیں ہوتا
|
|