آپ کا چہرہ مبارک اور جسم اطہر مشابہ رسول ﷺ ہے۔حسنین کریمین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ حضور اکرم ؐ نے آپ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ جس نے حسن و حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت رکھی۔ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں بھی آپ ؐ نے فرمایا کہ لوگو پہچان لو 'حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے" ہوں۔ آپ نے حضور کریم کے زیر سایہ سات سال پرورش پاتے رہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شفقت پدری، خاتون جنت کی آغوش محبت میں صبر و استقامت، جراٗت و شجاعت، حق و صداقت، ایثار و قربانی اور نانا کے دین پر مرمٹنے کا درس لیتے رہے۔ اسی تربیت کا اثر تھا کہ 61ھ 10محرم الحرام کو ارض وسما نے کربلا کے صحرا میں حق و باطل کا واقعہ دیکھا کہ جب حاکمیت الٰہی اور شریعت محمدی کے تحفظ و بقاء کیلئے نواسہ رسول نے سر جھکانے کی بجائے اپنی اور نانا کی شہادت مکمل کی جس سے ر رہتی دنیا تک خاتون جنت اور علیؓ کیلئے فخر بن گئے اور اپنے نانا کے سچے دین پر قربان ہو گئے۔ یہاں تک کہ دنیا کے مظلوموں کو پیغام دے گئے کہ کبھی بھی وقت کے یزیدوں کے آگے کبھی نہ جھکنے کا لازوال سبق دے گئے۔
واقعہ کربلا حقیقت میں وہ سانحہ ہے جس نے حق و صداقت کے انتہائی روشن باب میں اضافہ کیا جس نے مظلوموں کو ظالمانہ نظام کے خلاف ڈٹ جانے کا سبق دیا نواسہ رسولؐ شہید کربلا نے طاقت وتکبر کے نشے میں چور یزید کو جرات و شجاعت سے للکارا اور شہادت کی عظیم مثال قائم کی۔ اسی پر مولانا محمد علی جوہر نے کیا خوب کہا کہ قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے ……اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔60 ھ میں حضرت امیر معاویہ کے انتقال کے بعد یزید ملعون مسند خلافت پر براجمان ہوااور یہیں سے ظلم و بربریت، جبرونا انصافی و عہد شکنی کے دور کا آغاز ہوا۔ اس وقت یزید کا چچازادبھائی ولید بن عقبہ مدینہ کا گورنر تھا جسے یزید نے مختصر حکم نامہ بھیج کر حسین ابن علی، عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن زبیر کو ااعت پرمجبور کیا جائے۔اس اطلاع پر آپؓمدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ ادھر کوفہ سے آپ کو تواتر سے بیعت کیلئے خطوط مل رہے تھے۔ تاکہ کوفی آپ کے ہاتھ پر بیعت کر سکیں۔
کوفہ والوں کے بے پناہ اصرار پر آپ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ کوفہ کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے روانہ کیا۔ جس نے عوسجہ نامی شخص کے گھر پناہ لی اور لوگوں سے بیعت لینا شروع کردی ادھر کوفہ کے نئے گورنر عبید اللہ بن زیاد کو خبر ہو گئی جس نے ہانی بن عروہ کے گھر سے مسلم بن عقیل کو گرفتار کرالیا اور شہید کر دیا جبکہ کوف بزدلی اور خوف کا مجسمہ بنے شہادت کا منظر دیکھتے رہے۔ادھر 3 ذوالحجہ 60ھ حضرت امام حسین اپنے اہل و عیال کے ہمراہ عظیم شہادت کے راستے کوفے پر نکل پڑے۔ اہل مدینہ و صحابہ کرام ؓ نے آپ کو روکنا چاہا مگر آپ نے کہا کہ خواب میں نانا مجھے حکم دیا ہے اب چاہے مجھے نقصان ہو یا فائدہ میں ضرور جاؤں گا حتیٰ کہ اپنے نانا سے جا ملوں گا۔ جب آپ کوفہ میں قادسیہ سے 3میل کے فاصلے پر تھے تو حُر بن یزید تمیمی نے ایک ہزار فوج کے لشکر کے ساتھ آپ کی ہی تلاش میں تھا ملا جس نے آپ کومسلم بن عقیل کی شہادت متعلق آگاہ کرتے ہوئے واپس جانے کا مشورہ دیا جسے آپ نے مسترد کر دیا کہ کوفیوں کی تلواریں تو یزید کے ساتھ ہیں مگر دل آپ کے ساتھ ہیں۔
2محرم الحرام کو آپ نے کربلا میں خیمے ڈال دئیے اورفرمایا کہ " یہی ہماری مقتل گاہ ہے " لیکن ابن زیاد کے حکم سے خیمے اس جگہ سے ہٹوا کر دریا فرات سے تین میل کے فاصلے پر صحرا میں نصب کرائے گئے۔ عمرو بن سعد جو کہ اس وقت آپ کے محاصرے پر تھا کے سامنے تین شرائط رکھیں کہ مجھے مکہ یا مدینے جانے دیا جائے، کسی سرحد کی جانب جانے دیا جائے یا یزید کے پاس دمشق جانے دیا جائے تاکہ اپنے معاملات نمٹا سکوں لیکن ابن زیاد نے تینون شرائط قبول نہ کیں اور حکم جاری کیا کہ حسین ابن علی کو جنگ کر کے قتل کر دو اور ساتھ شمر کو سپاہ سالار بنا کر بھیج دیا۔
7محرم الحرام کی صبح انتہائی غمگین صبح تھی عبیداللہ بن زیاد کے حکم پر ساقی کوثر کے چہیتے نواسہ رسول اور اسکے تمام خاندان کا پانی بند کر دیا گیا۔ عمرو بن الحجاج کی قیادت میں 500 یزیدی فوجیوں نے دریا فرات کا محاصرہ کر لیا۔ اس آگے برساتے آسمان کے سائے تلے اور آگ کی طرح تپتے صحرا میں معصوم بچوں کی بھوک پیاس اور بلبلاہٹ دھرتی کا سینہ چیر رہی تھی تو حضرت عباس سے رہا نہ گیا تو وہ مشکیزہ اور تلوار لے کر دریا فرات کی جانب نکل پڑے۔ وہاں پر موجود یزیدی لشکر اکیلے آدمی کو دیکھ کر ہی ڈر کر بھاگ گئے ٹھنڈا پانی مشکیزے میں بھرا اپنی پیاس بجھائے بنا ہی واپسی کی راہ لی تاکہ پہلے معصوموں کی پیاس بجھائیں مگر جیسے ہی خیموں کے پاس پہنچے تیروں کی ایک بوچھاڑ آئی اور مشکیزے سمیت آپ کو چھلنی چھلنی کر دیا اور یہ پانی معصوموں کا حلق تر کیے بنا ہی بہہ گیا اور علم بردار عباس بھی شہادت کا مرتبہ پا گئے۔
اس وقت نواسہ رسول کو علم چکا تھا کہ شہادت کا وقت قریب ہے تو آپ نے اپنے رفقا سے کہا کہ وقت قریب ہے اگر کوئی جانا چاہتا ہے تو میری طرف سے اجازت ہے۔ مگر آفرین تمام رفقا آپ کے ساتھ جام شہادت نوش کرنے کا عظم کیے ہوئے تھے۔ یوم عاشور کے روز امام حسین نے یزیدی فوج سے کہا کہ اے لوگو تم جانتے ہو میں نواسہ رسول، حیدر کرار اور خاتون جنت کا لخت جگر ہوں اللہ کے رسول نے ہم دونوں بھائیوں کو جنت کے نوجوانوں کا سردار بتایا ہے۔ تم نے مجھے خط لکھ کر بلایا اب بھی کہتا ہوں مجھے مکہ یا مدینے جانے دو اور مجھ سے جنگ نہ کرواس خطاب کے بعد حر بن یزید امام حسین کے ساتھ شامل ہو گئے۔ شمر نے یہ دیکھ کر عمر بن سعد سے کہا کہ اب دیر نہ کرو اس پر عمرو نے پہلا تیر پھینک کر کرب و بلا کا آغاز کیا۔ آپ کے ساتھیوں بریر ہمدانی،عباس شاکری، نافع بن ہلال، حبیب بن مظاہر، عون، محمد، جعفر وقاسم، علی و عبداللہ غرض تمام ایک ایک کرکے شہادت کو شان بخشتے رہے۔علی اکبر ؓ کی شہادت پر خیموں سے رونے کی آواز آئی تو امام عالی مقام نے منع کر دیا اور علی اصغر کے خیمے سے باہر لائے اور معصوم کیلئے پانی مانگااس سے پہلے ہی شہزادے کو تیر لگا اور دم توڑ گئے اب امام عالی مقام اکیلے تھے اور دشمنوں نے چاروں جانب سے گھیر رکھا تھا آپ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور ان پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے شمشیر حسینی چارون جانب دشمنوں کو کاٹ رہی تھی کہ آپ کے کانوں میں اذان کی آواز آئی آپ نے تلوار روک کر نماز پڑھنے کی مہلت مانگی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ملعون شمر کے حکم پر مالک کندی نے آپ پر کاری ضرب لگائی پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا آپ کا جسم اطہر زخموں سے بھر گیا۔ زخمی ہونے کے باوجود کسی ملعون میں اتنی ہمت نہ تھی کہ شجاعت و بہادری کے اس کوہ گراں کو شہید کر سکتا۔ آخر میں شمر ملعون نے دھاڑ کر کہا کہ اسے شہید کر دو اس حکم کے ساتھ تیروں کی ایک بوچھاڑ آئی ایک تیر آپ کی گردن مبارک میں پیوست ہوگیا۔ جسے آپ نے کھینچ کر نکال لیا زرعہ بن شریک تمیمی نے زخموں سے چور فاطمہ کے لال جگر گوشہ رسول ﷺ کے بازو پر وار کر کے کاٹ دیاعین اسی حالت مین سنان بن انس نے نیزا مارامام عالی مقام زمین پر گر گئے۔خولی بن یزید سر قلم کرنے کیلئے آگا بڑھا مگر اسکے ہاتھ کانپ گئے اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔سنگ دل سنان بن انس نے سر مبارک جسم اطہر سے جدا کر دیا۔ ابن زیاد کے حکم پر اس ملعون فوج نے آپ کے جسم اطہر کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کیا۔ایک روایت کے مطابق آپ کے جسم اطہر پر 33زخم نیزوں کے اور 43تلواروں کے تھے۔ جبکہ 121سوراخ آپ کے پیرہن پر تیروں کے تھے۔
آپ کی شہادت نے شہادت کو جو شان بخشی ہے ایسی شان کسی نے اس رتبہ کو بخشی ہے نہ ہی بخشے گاآپ کی شہادت نے رہتی دنیا تک ظلم و زیادتی کو ہمیشہ کیلئے شکست دے دی ہے اور یہ ثابت کر دیا کہ تعداد کوئی معنی نہیں رکھتی صرف ایمان اور جذبہ کی حیثیت باقی رہتی ہے۔ میری رب کریم سے دعا ہے کہ رب کریم ہم سب کو جگرگوشہ بتول، نواسہ رسول امام عالی مقام حضرت امام حسین کا ساتھی بنائے اور ان کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمینا" />

انتہائے شہادت امام حسین علیہ السلام

شاہ است حسین، بادشاہ است حسین……دین است حسین، دین پناہ است حسین……سردادنداددست دردست یزید……حقاکہ بنائے لا الہ است حسین
یہ مدینہ منورہ کی ؓ 5شعبان 4ھ کی پر نور، روشن اور حسین صبح کی بات ہے کہ خاتون جنت، جگر گوشہ رسول ؐ سید النساء فاطمۃ الزہرہ،شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے گھرسے آنے والے محسور کن خوشبو ہر سو معطر تھی۔ رحمۃ العالمین کو خبر ملی کہ نواسہ رسول کی پیدائش ہوئی ہے آپ ؐ عظیم فرزند اجمند کی ولادت باسعادت کی اطلاع پاکر خاتون جنت کے گھر تشریف لائے پھر چہیتی و لاڈلی کو پیار کرنے کے بعد جگر گوشہ علی و بتول کے کان میں اذان دی اور دعاٗوں کے انمول تحفوں کے ساتھ اپنا لعاب مبارک نومولود کے دہن میں داخل فرمایا۔ ساتویں دن عقیقہ کے موقع پر حضرت علی نے "حرب" نام رکھا لیکن پھر سرور دو عالم کی ہدایت پر " حسین " نام رکھا۔
آپ کا چہرہ مبارک اور جسم اطہر مشابہ رسول ﷺ ہے۔حسنین کریمین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ حضور اکرم ؐ نے آپ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ جس نے حسن و حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت رکھی۔ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں بھی آپ ؐ نے فرمایا کہ لوگو پہچان لو 'حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے" ہوں۔ آپ نے حضور کریم کے زیر سایہ سات سال پرورش پاتے رہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شفقت پدری، خاتون جنت کی آغوش محبت میں صبر و استقامت، جراٗت و شجاعت، حق و صداقت، ایثار و قربانی اور نانا کے دین پر مرمٹنے کا درس لیتے رہے۔ اسی تربیت کا اثر تھا کہ 61ھ 10محرم الحرام کو ارض وسما نے کربلا کے صحرا میں حق و باطل کا واقعہ دیکھا کہ جب حاکمیت الٰہی اور شریعت محمدی کے تحفظ و بقاء کیلئے نواسہ رسول نے سر جھکانے کی بجائے اپنی اور نانا کی شہادت مکمل کی جس سے ر رہتی دنیا تک خاتون جنت اور علیؓ کیلئے فخر بن گئے اور اپنے نانا کے سچے دین پر قربان ہو گئے۔ یہاں تک کہ دنیا کے مظلوموں کو پیغام دے گئے کہ کبھی بھی وقت کے یزیدوں کے آگے کبھی نہ جھکنے کا لازوال سبق دے گئے۔
واقعہ کربلا حقیقت میں وہ سانحہ ہے جس نے حق و صداقت کے انتہائی روشن باب میں اضافہ کیا جس نے مظلوموں کو ظالمانہ نظام کے خلاف ڈٹ جانے کا سبق دیا نواسہ رسولؐ شہید کربلا نے طاقت وتکبر کے نشے میں چور یزید کو جرات و شجاعت سے للکارا اور شہادت کی عظیم مثال قائم کی۔ اسی پر مولانا محمد علی جوہر نے کیا خوب کہا کہ قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے ……اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔60 ھ میں حضرت امیر معاویہ کے انتقال کے بعد یزید ملعون مسند خلافت پر براجمان ہوااور یہیں سے ظلم و بربریت، جبرونا انصافی و عہد شکنی کے دور کا آغاز ہوا۔ اس وقت یزید کا چچازادبھائی ولید بن عقبہ مدینہ کا گورنر تھا جسے یزید نے مختصر حکم نامہ بھیج کر حسین ابن علی، عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن زبیر کو ااعت پرمجبور کیا جائے۔اس اطلاع پر آپؓمدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ ادھر کوفہ سے آپ کو تواتر سے بیعت کیلئے خطوط مل رہے تھے۔ تاکہ کوفی آپ کے ہاتھ پر بیعت کر سکیں۔
کوفہ والوں کے بے پناہ اصرار پر آپ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ کوفہ کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے روانہ کیا۔ جس نے عوسجہ نامی شخص کے گھر پناہ لی اور لوگوں سے بیعت لینا شروع کردی ادھر کوفہ کے نئے گورنر عبید اللہ بن زیاد کو خبر ہو گئی جس نے ہانی بن عروہ کے گھر سے مسلم بن عقیل کو گرفتار کرالیا اور شہید کر دیا جبکہ کوف بزدلی اور خوف کا مجسمہ بنے شہادت کا منظر دیکھتے رہے۔ادھر 3 ذوالحجہ 60ھ حضرت امام حسین اپنے اہل و عیال کے ہمراہ عظیم شہادت کے راستے کوفے پر نکل پڑے۔ اہل مدینہ و صحابہ کرام ؓ نے آپ کو روکنا چاہا مگر آپ نے کہا کہ خواب میں نانا مجھے حکم دیا ہے اب چاہے مجھے نقصان ہو یا فائدہ میں ضرور جاؤں گا حتیٰ کہ اپنے نانا سے جا ملوں گا۔ جب آپ کوفہ میں قادسیہ سے 3میل کے فاصلے پر تھے تو حُر بن یزید تمیمی نے ایک ہزار فوج کے لشکر کے ساتھ آپ کی ہی تلاش میں تھا ملا جس نے آپ کومسلم بن عقیل کی شہادت متعلق آگاہ کرتے ہوئے واپس جانے کا مشورہ دیا جسے آپ نے مسترد کر دیا کہ کوفیوں کی تلواریں تو یزید کے ساتھ ہیں مگر دل آپ کے ساتھ ہیں۔
2محرم الحرام کو آپ نے کربلا میں خیمے ڈال دئیے اورفرمایا کہ " یہی ہماری مقتل گاہ ہے " لیکن ابن زیاد کے حکم سے خیمے اس جگہ سے ہٹوا کر دریا فرات سے تین میل کے فاصلے پر صحرا میں نصب کرائے گئے۔ عمرو بن سعد جو کہ اس وقت آپ کے محاصرے پر تھا کے سامنے تین شرائط رکھیں کہ مجھے مکہ یا مدینے جانے دیا جائے، کسی سرحد کی جانب جانے دیا جائے یا یزید کے پاس دمشق جانے دیا جائے تاکہ اپنے معاملات نمٹا سکوں لیکن ابن زیاد نے تینون شرائط قبول نہ کیں اور حکم جاری کیا کہ حسین ابن علی کو جنگ کر کے قتل کر دو اور ساتھ شمر کو سپاہ سالار بنا کر بھیج دیا۔
7محرم الحرام کی صبح انتہائی غمگین صبح تھی عبیداللہ بن زیاد کے حکم پر ساقی کوثر کے چہیتے نواسہ رسول اور اسکے تمام خاندان کا پانی بند کر دیا گیا۔ عمرو بن الحجاج کی قیادت میں 500 یزیدی فوجیوں نے دریا فرات کا محاصرہ کر لیا۔ اس آگے برساتے آسمان کے سائے تلے اور آگ کی طرح تپتے صحرا میں معصوم بچوں کی بھوک پیاس اور بلبلاہٹ دھرتی کا سینہ چیر رہی تھی تو حضرت عباس سے رہا نہ گیا تو وہ مشکیزہ اور تلوار لے کر دریا فرات کی جانب نکل پڑے۔ وہاں پر موجود یزیدی لشکر اکیلے آدمی کو دیکھ کر ہی ڈر کر بھاگ گئے ٹھنڈا پانی مشکیزے میں بھرا اپنی پیاس بجھائے بنا ہی واپسی کی راہ لی تاکہ پہلے معصوموں کی پیاس بجھائیں مگر جیسے ہی خیموں کے پاس پہنچے تیروں کی ایک بوچھاڑ آئی اور مشکیزے سمیت آپ کو چھلنی چھلنی کر دیا اور یہ پانی معصوموں کا حلق تر کیے بنا ہی بہہ گیا اور علم بردار عباس بھی شہادت کا مرتبہ پا گئے۔
اس وقت نواسہ رسول کو علم چکا تھا کہ شہادت کا وقت قریب ہے تو آپ نے اپنے رفقا سے کہا کہ وقت قریب ہے اگر کوئی جانا چاہتا ہے تو میری طرف سے اجازت ہے۔ مگر آفرین تمام رفقا آپ کے ساتھ جام شہادت نوش کرنے کا عظم کیے ہوئے تھے۔ یوم عاشور کے روز امام حسین نے یزیدی فوج سے کہا کہ اے لوگو تم جانتے ہو میں نواسہ رسول، حیدر کرار اور خاتون جنت کا لخت جگر ہوں اللہ کے رسول نے ہم دونوں بھائیوں کو جنت کے نوجوانوں کا سردار بتایا ہے۔ تم نے مجھے خط لکھ کر بلایا اب بھی کہتا ہوں مجھے مکہ یا مدینے جانے دو اور مجھ سے جنگ نہ کرواس خطاب کے بعد حر بن یزید امام حسین کے ساتھ شامل ہو گئے۔ شمر نے یہ دیکھ کر عمر بن سعد سے کہا کہ اب دیر نہ کرو اس پر عمرو نے پہلا تیر پھینک کر کرب و بلا کا آغاز کیا۔ آپ کے ساتھیوں بریر ہمدانی،عباس شاکری، نافع بن ہلال، حبیب بن مظاہر، عون، محمد، جعفر وقاسم، علی و عبداللہ غرض تمام ایک ایک کرکے شہادت کو شان بخشتے رہے۔علی اکبر ؓ کی شہادت پر خیموں سے رونے کی آواز آئی تو امام عالی مقام نے منع کر دیا اور علی اصغر کے خیمے سے باہر لائے اور معصوم کیلئے پانی مانگااس سے پہلے ہی شہزادے کو تیر لگا اور دم توڑ گئے اب امام عالی مقام اکیلے تھے اور دشمنوں نے چاروں جانب سے گھیر رکھا تھا آپ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور ان پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے شمشیر حسینی چارون جانب دشمنوں کو کاٹ رہی تھی کہ آپ کے کانوں میں اذان کی آواز آئی آپ نے تلوار روک کر نماز پڑھنے کی مہلت مانگی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ملعون شمر کے حکم پر مالک کندی نے آپ پر کاری ضرب لگائی پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا آپ کا جسم اطہر زخموں سے بھر گیا۔ زخمی ہونے کے باوجود کسی ملعون میں اتنی ہمت نہ تھی کہ شجاعت و بہادری کے اس کوہ گراں کو شہید کر سکتا۔ آخر میں شمر ملعون نے دھاڑ کر کہا کہ اسے شہید کر دو اس حکم کے ساتھ تیروں کی ایک بوچھاڑ آئی ایک تیر آپ کی گردن مبارک میں پیوست ہوگیا۔ جسے آپ نے کھینچ کر نکال لیا زرعہ بن شریک تمیمی نے زخموں سے چور فاطمہ کے لال جگر گوشہ رسول ﷺ کے بازو پر وار کر کے کاٹ دیاعین اسی حالت مین سنان بن انس نے نیزا مارامام عالی مقام زمین پر گر گئے۔خولی بن یزید سر قلم کرنے کیلئے آگا بڑھا مگر اسکے ہاتھ کانپ گئے اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔سنگ دل سنان بن انس نے سر مبارک جسم اطہر سے جدا کر دیا۔ ابن زیاد کے حکم پر اس ملعون فوج نے آپ کے جسم اطہر کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کیا۔ایک روایت کے مطابق آپ کے جسم اطہر پر 33زخم نیزوں کے اور 43تلواروں کے تھے۔ جبکہ 121سوراخ آپ کے پیرہن پر تیروں کے تھے۔
آپ کی شہادت نے شہادت کو جو شان بخشی ہے ایسی شان کسی نے اس رتبہ کو بخشی ہے نہ ہی بخشے گاآپ کی شہادت نے رہتی دنیا تک ظلم و زیادتی کو ہمیشہ کیلئے شکست دے دی ہے اور یہ ثابت کر دیا کہ تعداد کوئی معنی نہیں رکھتی صرف ایمان اور جذبہ کی حیثیت باقی رہتی ہے۔ میری رب کریم سے دعا ہے کہ رب کریم ہم سب کو جگرگوشہ بتول، نواسہ رسول امام عالی مقام حضرت امام حسین کا ساتھی بنائے اور ان کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمینا

شاہ است حسین، بادشاہ است حسین……دین است حسین، دین پناہ است حسین……سردادنداددست دردست یزید……حقاکہ بنائے لا الہ است حسین


یہ مدینہ منورہ کی ؓ 5شعبان 4ھ کی پر نور، روشن اور حسین صبح کی بات ہے کہ خاتون جنت، جگر گوشہ رسول ؐ سید النساء فاطمۃ الزہرہ،شیر خدا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے گھرسے آنے والے محسور کن خوشبو ہر سو معطر تھی۔ رحمۃ العالمین کو خبر ملی کہ نواسہ رسول کی پیدائش ہوئی ہے آپ ؐ عظیم فرزند اجمند کی ولادت باسعادت کی اطلاع پاکر خاتون جنت کے گھر تشریف لائے پھر چہیتی و لاڈلی کو پیار کرنے کے بعد جگر گوشہ علی و بتول کے کان میں اذان دی اور دعاٗوں کے انمول تحفوں کے ساتھ اپنا لعاب مبارک نومولود کے دہن میں داخل فرمایا۔ ساتویں دن عقیقہ کے موقع پر حضرت علی نے "حرب" نام رکھا لیکن پھر سرور دو عالم کی ہدایت پر " حسین " نام رکھا۔

 
آپ کا چہرہ مبارک اور جسم اطہر مشابہ رسول ﷺ ہے۔حسنین کریمین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں۔ حضور اکرم ؐ نے آپ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ جس نے حسن و حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت رکھی۔ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں بھی آپ ؐ نے فرمایا کہ لوگو پہچان لو 'حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے" ہوں۔ آپ نے حضور کریم کے زیر سایہ سات سال پرورش پاتے رہے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شفقت پدری، خاتون جنت کی آغوش محبت میں صبر و استقامت، جراٗت و شجاعت، حق و صداقت، ایثار و قربانی اور نانا کے دین پر مرمٹنے کا درس لیتے رہے۔ اسی تربیت کا اثر تھا کہ 61ھ 10محرم الحرام کو ارض وسما نے کربلا کے صحرا میں حق و باطل کا واقعہ دیکھا کہ جب حاکمیت الٰہی اور شریعت محمدی کے تحفظ و بقاء کیلئے نواسہ رسول نے سر جھکانے کی بجائے اپنی اور نانا کی شہادت مکمل کی جس سے ر رہتی دنیا تک خاتون جنت اور علیؓ کیلئے فخر بن گئے اور اپنے نانا کے سچے دین پر قربان ہو گئے۔ یہاں تک کہ دنیا کے مظلوموں کو پیغام دے گئے کہ کبھی بھی وقت کے یزیدوں کے آگے کبھی نہ جھکنے کا لازوال سبق دے گئے۔


واقعہ کربلا حقیقت میں وہ سانحہ ہے جس نے حق و صداقت کے انتہائی روشن باب میں اضافہ کیا جس نے مظلوموں کو ظالمانہ نظام کے خلاف ڈٹ جانے کا سبق دیا نواسہ رسولؐ شہید کربلا نے طاقت وتکبر کے نشے میں چور یزید کو جرات و شجاعت سے للکارا اور شہادت کی عظیم مثال قائم کی۔ اسی پر مولانا محمد علی جوہر نے کیا خوب کہا کہ قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے ……اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد۔60 ھ میں حضرت امیر معاویہ کے انتقال کے بعد یزید ملعون مسند خلافت پر براجمان ہوااور یہیں سے ظلم و بربریت، جبرونا انصافی و عہد شکنی کے دور کا آغاز ہوا۔ اس وقت یزید کا چچازادبھائی ولید بن عقبہ مدینہ کا گورنر تھا جسے یزید نے مختصر حکم نامہ بھیج کر حسین ابن علی، عبداللہ ابن عمر اور عبداللہ ابن زبیر کو ااعت پرمجبور کیا جائے۔اس اطلاع پر آپؓمدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ ادھر کوفہ سے آپ کو تواتر سے بیعت کیلئے خطوط مل رہے تھے۔ تاکہ کوفی آپ کے ہاتھ پر بیعت کر سکیں۔
کوفہ والوں کے بے پناہ اصرار پر آپ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ کوفہ کے حالات کا جائزہ لینے کیلئے روانہ کیا۔ جس نے عوسجہ نامی شخص کے گھر پناہ لی اور لوگوں سے بیعت لینا شروع کردی ادھر کوفہ کے نئے گورنر عبید اللہ بن زیاد کو خبر ہو گئی جس نے ہانی بن عروہ کے گھر سے مسلم بن عقیل کو گرفتار کرالیا اور شہید کر دیا جبکہ کوف بزدلی اور خوف کا مجسمہ بنے شہادت کا منظر دیکھتے رہے۔ادھر 3 ذوالحجہ 60ھ حضرت امام حسین اپنے اہل و عیال کے ہمراہ عظیم شہادت کے راستے کوفے پر نکل پڑے۔ اہل مدینہ و صحابہ کرام ؓ نے آپ کو روکنا چاہا مگر آپ نے کہا کہ خواب میں نانا مجھے حکم دیا ہے اب چاہے مجھے نقصان ہو یا فائدہ میں ضرور جاؤں گا حتیٰ کہ اپنے نانا سے جا ملوں گا۔ جب آپ کوفہ میں قادسیہ سے 3میل کے فاصلے پر تھے تو حُر بن یزید تمیمی نے ایک ہزار فوج کے لشکر کے ساتھ آپ کی ہی تلاش میں تھا ملا جس نے آپ کومسلم بن عقیل کی شہادت متعلق آگاہ کرتے ہوئے واپس جانے کا مشورہ دیا جسے آپ نے مسترد کر دیا کہ کوفیوں کی تلواریں تو یزید کے ساتھ ہیں مگر دل آپ کے ساتھ ہیں۔


2محرم الحرام کو آپ نے کربلا میں خیمے ڈال دئیے اورفرمایا کہ " یہی ہماری مقتل گاہ ہے " لیکن ابن زیاد کے حکم سے خیمے اس جگہ سے ہٹوا کر دریا فرات سے تین میل کے فاصلے پر صحرا میں نصب کرائے گئے۔ عمرو بن سعد جو کہ اس وقت آپ کے محاصرے پر تھا کے سامنے تین شرائط رکھیں کہ مجھے مکہ یا مدینے جانے دیا جائے، کسی سرحد کی جانب جانے دیا جائے یا یزید کے پاس دمشق جانے دیا جائے تاکہ اپنے معاملات نمٹا سکوں لیکن ابن زیاد نے تینون شرائط قبول نہ کیں اور حکم جاری کیا کہ حسین ابن علی کو جنگ کر کے قتل کر دو اور ساتھ شمر کو سپاہ سالار بنا کر بھیج دیا۔
7محرم الحرام کی صبح انتہائی غمگین صبح تھی عبیداللہ بن زیاد کے حکم پر ساقی کوثر کے چہیتے نواسہ رسول اور اسکے تمام خاندان کا پانی بند کر دیا گیا۔ عمرو بن الحجاج کی قیادت میں 500 یزیدی فوجیوں نے دریا فرات کا محاصرہ کر لیا۔ اس آگے برساتے آسمان کے سائے تلے اور آگ کی طرح تپتے صحرا میں معصوم بچوں کی بھوک پیاس اور بلبلاہٹ دھرتی کا سینہ چیر رہی تھی تو حضرت عباس سے رہا نہ گیا تو وہ مشکیزہ اور تلوار لے کر دریا فرات کی جانب نکل پڑے۔ وہاں پر موجود یزیدی لشکر اکیلے آدمی کو دیکھ کر ہی ڈر کر بھاگ گئے ٹھنڈا پانی مشکیزے میں بھرا اپنی پیاس بجھائے بنا ہی واپسی کی راہ لی تاکہ پہلے معصوموں کی پیاس بجھائیں مگر جیسے ہی خیموں کے پاس پہنچے تیروں کی ایک بوچھاڑ آئی اور مشکیزے سمیت آپ کو چھلنی چھلنی کر دیا اور یہ پانی معصوموں کا حلق تر کیے بنا ہی بہہ گیا اور علم بردار عباس بھی شہادت کا مرتبہ پا گئے۔

 
اس وقت نواسہ رسول کو علم چکا تھا کہ شہادت کا وقت قریب ہے تو آپ نے اپنے رفقا سے کہا کہ وقت قریب ہے اگر کوئی جانا چاہتا ہے تو میری طرف سے اجازت ہے۔ مگر آفرین تمام رفقا آپ کے ساتھ جام شہادت نوش کرنے کا عظم کیے ہوئے تھے۔ یوم عاشور کے روز امام حسین نے یزیدی فوج سے کہا کہ اے لوگو تم جانتے ہو میں نواسہ رسول، حیدر کرار اور خاتون جنت کا لخت جگر ہوں اللہ کے رسول نے ہم دونوں بھائیوں کو جنت کے نوجوانوں کا سردار بتایا ہے۔ تم نے مجھے خط لکھ کر بلایا اب بھی کہتا ہوں مجھے مکہ یا مدینے جانے دو اور مجھ سے جنگ نہ کرواس خطاب کے بعد حر بن یزید امام حسین کے ساتھ شامل ہو گئے۔ شمر نے یہ دیکھ کر عمر بن سعد سے کہا کہ اب دیر نہ کرو اس پر عمرو نے پہلا تیر پھینک کر کرب و بلا کا آغاز کیا۔ آپ کے ساتھیوں بریر ہمدانی،عباس شاکری، نافع بن ہلال، حبیب بن مظاہر، عون، محمد، جعفر وقاسم، علی و عبداللہ غرض تمام ایک ایک کرکے شہادت کو شان بخشتے رہے۔علی اکبر ؓ کی شہادت پر خیموں سے رونے کی آواز آئی تو امام عالی مقام نے منع کر دیا اور علی اصغر کے خیمے سے باہر لائے اور معصوم کیلئے پانی مانگااس سے پہلے ہی شہزادے کو تیر لگا اور دم توڑ گئے اب امام عالی مقام اکیلے تھے اور دشمنوں نے چاروں جانب سے گھیر رکھا تھا آپ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور ان پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے شمشیر حسینی چارون جانب دشمنوں کو کاٹ رہی تھی کہ آپ کے کانوں میں اذان کی آواز آئی آپ نے تلوار روک کر نماز پڑھنے کی مہلت مانگی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ملعون شمر کے حکم پر مالک کندی نے آپ پر کاری ضرب لگائی پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا آپ کا جسم اطہر زخموں سے بھر گیا۔ زخمی ہونے کے باوجود کسی ملعون میں اتنی ہمت نہ تھی کہ شجاعت و بہادری کے اس کوہ گراں کو شہید کر سکتا۔ آخر میں شمر ملعون نے دھاڑ کر کہا کہ اسے شہید کر دو اس حکم کے ساتھ تیروں کی ایک بوچھاڑ آئی ایک تیر آپ کی گردن مبارک میں پیوست ہوگیا۔ جسے آپ نے کھینچ کر نکال لیا زرعہ بن شریک تمیمی نے زخموں سے چور فاطمہ کے لال جگر گوشہ رسول ﷺ کے بازو پر وار کر کے کاٹ دیاعین اسی حالت مین سنان بن انس نے نیزا مارامام عالی مقام زمین پر گر گئے۔خولی بن یزید سر قلم کرنے کیلئے آگا بڑھا مگر اسکے ہاتھ کانپ گئے اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔سنگ دل سنان بن انس نے سر مبارک جسم اطہر سے جدا کر دیا۔ ابن زیاد کے حکم پر اس ملعون فوج نے آپ کے جسم اطہر کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کیا۔ایک روایت کے مطابق آپ کے جسم اطہر پر 33زخم نیزوں کے اور 43تلواروں کے تھے۔ جبکہ 121سوراخ آپ کے پیرہن پر تیروں کے تھے۔


آپ کی شہادت نے شہادت کو جو شان بخشی ہے ایسی شان کسی نے اس رتبہ کو بخشی ہے نہ ہی بخشے گاآپ کی شہادت نے رہتی دنیا تک ظلم و زیادتی کو ہمیشہ کیلئے شکست دے دی ہے اور یہ ثابت کر دیا کہ تعداد کوئی معنی نہیں رکھتی صرف ایمان اور جذبہ کی حیثیت باقی رہتی ہے۔ میری رب کریم سے دعا ہے کہ رب کریم ہم سب کو جگرگوشہ بتول، نواسہ رسول امام عالی مقام حضرت امام حسین کا ساتھی بنائے اور ان کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمینا

 

Imran Zaffar Bhatti
About the Author: Imran Zaffar Bhatti Read More Articles by Imran Zaffar Bhatti: 24 Articles with 20940 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.