|
|
ویسے تو خواتین کو صنف نازک ہی گمان کیا جاتا ہے۔ تاہم وہ وقت آنے پر
بہادری کے ایسے کارنامے سرانجام دے دیتی ہیں کی دنیا حیران رہ جاتی ہے۔
مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی ایک بہادر فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا نے بھی
اپنی صلاحیتوں کا لوہا دنیا میں منوایا ہے ۔ ساتھ ہی انہوں نے بھارتی مظالم
کو اپنی تصاویر کے ذریعے دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کی اور اس میں وہ
کامیاب بھی رہیں ۔ |
|
حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کی اس بہادر خاتون صحافی مسرت زہرا کو صحافیوں کی
عالمی تنظیم گلوبل میڈیا فورم ٹریننگ گروپ (جی ایم ایف ٹی جی) نے اعلیٰ
ترین صحافتی ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایوارڈ "پیٹر میکلر" کے نام
سے جانا جاتا ہے اور ہر سال کسی صحافی کو بہترین خدمات سرانجام دینے پر دیا
جاتا ہے۔ |
|
|
|
واضح رہے کہ یہ مسرت کا پہلا ایوارڈ نہیں ہے۔ اس سے قبل جون 2020 میں مسرت
زہرا نے فوٹو جرنلزم کا ٹاپ ایوارڈ اپنے نام کیا تھا۔ کشمیر سے فری لانسر
کے طور پر کام کرنے والی یہ فوٹو جرنلسٹ مسرت نے بین الاقوامی خواتین کے
میڈیا فاؤنڈیشن (IWMF) کی طرف سے فوٹو جرنلزم میں 2020 کے انجا نڈرنگھاؤس
جرات کا ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا۔ یہ ایوارڈ افغانستان میں ہلاک ہونے
والی جرمن فوٹو جرنلسٹ انجا نڈرنگھاؤس کے نام سے دیا جاتا ہے اور اس کے
ذریعے انہیں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ یہ اعزازی ایوارڈ دنیا بھر میں
مشکل حالات میں کام کرنے والی خواتین فوٹو جرنلسٹس کی بہادری، ان کے کام کو
تسلیم کرتے ہوئے انہیں دیا جاتا ہے تاکہ ان کا حوصلہ بڑھے اور وہ مزید محنت
سے کام کریں اور مظلوموں کی آواز بنیں۔ |
|
مسرت اپنے حاصل کردہ ایوارڈز پہ خوش نظر آتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایوارڈز
حاصل کرنا ان کیلئے بہت خوشی کا باعث ہے۔ مسرت کو جب ان کی خدمات پر پہلا
ایوارڈ ملا تھا تو انہیں یقین ہی نہیں آیا۔ ان کا کہنا ہے کہ" جب میں نے یہ
خبر سنی تو میں خود پر یقین نہیں کر سکتی تھی۔ مجھے خوشی ہے کہ آخر کار
میرے کام کو تسلیم کرلیا گیا۔ یہ ایوارڈ کشمیر کے ان تمام صحافیوں کو خراج
تحسین پیش کرتا ہے ، جو اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں اور کام کرنے کے
دوران انہیں مسلسل خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔" |
|
یاد رہے کہ رواں سال مئی میں بھی دنیا کو بھارتی مظالم دکھانے والے تین
کشمیری فوٹوگرافرز نے صحافت کا اعلیٰ ترین ایوارڈ جیتا تھا۔ |
|
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) سے وابستہ تین فوٹوگرافرز چنی
آنند، مختار خان اور ڈار یاسین نے اعلیٰ ترین صحافتی ایوارڈ پلٹزر حاصل کیا
تھا۔ |
|
|
|
تینوں فوٹوگرافرز کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے ڈھائے جانے
والے انسانیت سوز مظالم کو تصاویر شکل میں دنیا کے سامنے لانے پر مذکورہ
ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ |
|
پلٹزر ایوارڈ امریکا کا اعلیٰ ترین و معتبر صحافتی ایوارڈ ہے، جو ہر سال
صحافت اور ٹی وی ڈرامے کی متعدد کیٹیگریز میں دیا جاتا ہے۔ |
|
ان کشمیری صحافیوں کو جب اعزازات ملے تھے تو ان
کی خدمات کو پاکستان میں بھی بہت سراہا گیا ۔ پارلیمانی کمیٹی برائے کشمیر
شہریار خان آفریدی نے بھارتی حکومت کی دھمکیوں اور پابندیوں کے باوجود
مقبوضہ کشمیر میں دلیرانہ اور بے باک صحافت پر کچھ عرصہ قبل ان صحافیوں کو
خراج تحسین پیش کیا اور صحافیوں کے ایک گروپ سے ملاقات کی۔ کشمیری میڈیا کے
وفد میں محمد اشرف وانی ، غلام نبی بیگ ، رئیس احمد ، ہلال احمد ، شبیر
حسین اور ظہور احمد صوفی شامل تھے ۔ اس موقع پر شہریار آفریدی نے کشمیری
فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کو پیٹر میکلر ایوارڈ جیتنے پر مبارکباد پیش کی اور
کہا کہ اگرچہ بھارتی حکومت نے مسرت زہرہ کے خلاف انسداد دہشت گردی کے
الزامات کے تحت ایک مقدمہ درج کیا ہے لیکن بہادر صحافی نے جھکنے سے انکار
کرکے صحافتی اقدار کا پاس رکھا ہے، جس پر وہ داد کی مستحق ہیں۔ |
|
|
|
شہریار آفریدی نے پلٹزر ایوارڈ جیتنے والے مختار خان ، ڈار یاسین اور چنی
آنند سمیت دیگر کشمیری صحافیوں کو بھی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ
کشمیری صحافی مقبوضہ وادی میں بھارت کی جانب سے کی جانے والی مظلوم
کشمیریوں کی نسل کشی کو دنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں . ان کا کہنا تھا کہ
بھارتی حکومت کشمیر میں جاری جنگی جرائم چھپانے کیلئے ڈھونگ رچانے کی پوری
کوشش کر رہی ہے اور کشمیری صحافی سچائی سامنے لانے کیلئے قربانیاں دے رہے
ہیں۔ اچھی بات یہ ہے دنیا کے بڑے صحافتی ادارے بھی اب کشمیری صحافیوں کی
خدمات کو مانتے ہوئے انہیں ایوارڈز دینے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جو کہ
خوش آئند ہے۔ |