جدید تحقیق کے مطابق دنیا میں انسان کی آمد شمالی مشرقی
افریقہ میں ہوئی تھی،کوئی بارہ لاکھ سال پہلے انسان یہاں سے نکل کر ایشیا
اور یورپ میں پھیل گئے تھے۔انسان کی اس قسم کو سائنسدان ہو مو اریکٹس (Homo
Erectus )کہتے ہیں انسان کی نسل سیدھی ہو کر چلتی تھی اور اب تک اس کے بتیس
لاکھ سال پہلے تک کے آثار دریافت ہو چکے ہیں۔ہومو اریکٹس کے گلے کی ساخت
ایسی تھی کہ وہ بول نہیں سکتا تھا۔کوئی دو لاکھ سال پہلے اس نسل کے اندر
ایک نئی جینز پیدا ہوئی جس کا نام فاکس پی۔۲ رکھا گیا ۔اس جینز کے پیدا
ہونے سے وہ بولنے کے لائق ہو گیا۔انسان کی اس نئی نسل کی کئی صورتیں سامنے
آئیں ۔ان میں سب سے مشہور ہو مو سپین ( Homo sapain ) ہوئی۔ آج کے باشعور
انسان کا تعلق اسی نسل سے ہے مگر دو لاکھ سال پہلے کے ان انسانوں کی زبان
کیا تھی؟ اس کی تاریخ کیا ہے ؟ اس کے احساسات اور جذبات کیا تھے؟ اس نے
اپنے زمانے میں کیا کیا کہانیاں تخلیق کیں ؟ فضاؤں میں جذبات کے کتنے رنگ
اور بکھرے اس کا اس لیے علم نہیں ہو سکا کہ اس وقت لکھنا نہیں آتا تھا یعنی
کوئی رسم الخط ایجاد نہیں ہوا تھا۔چناں چہ اس کی زندگی کا بڑا حصہ ہوا میں
تحلیل ہو گیا ہے اور ہم ٹٹول ٹٹول کر اس تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس دور کے انسان کے پاس آج جیسے وسائل ہی نہیں تھے ایسے میں اسے معلوم نہیں
تھا کہ جینے کا سلیقہ کیا ہوتا ہپے ۔ چناں چہ اس کے اور جانوروں کے درمیان
ہر وقت زندگی اور موت کی دوڑ لگی رہتی تھی۔آج یہ سوچ کے حیرت ہوتی ہے کہ
لاکھوں برس کایہ سفر انسان نے کیسے طے کر لیا۔اس کے پاس تو پہننے کے کپڑے
نہیں تھے ۔اسے رہنے کی کوئی محفوظ جگہ میسر نہیں تھی۔ وہ جانوروں کے ساتھ
کھلے ماحول میں رہتا تھا ۔اس کے پاس ان سے بچنے کا ایک ہی راستہ تھا کہ وہ
زمین سے پتھر اٹھا کر انھیں مارے اور بھاگتا ہوا پناہ کی جگہ تلاش کرتا
رہے۔یہ آسان کام نہ تھااگرچہ اس کی پیدائش سے پہلے ان بڑے بڑے تاریخی
جانوروں کا زمانہ ختم ہو چکا تھاجنھیں ڈینو سار کہتے ہیں مگر ان کی جگہ جن
جانوروں نے لی وہ بھی بڑے قد آور اور خونخوار تھے ۔ انھیں قابو کرنا یوں
آسان نہ تھا کہ اس کے پاس ہتھیار ہی نہیں تھے۔وہ زمین سے پتھر اٹھا کر
انھیں مارتا ،طرح طرح کی آوازیں نکال کر انھیں ڈرانے کی کوشش کرتا اور ان
کا آسان شکار بن جاتا تھا۔پھر اسے اناج اگانا نہیں آتا تھا وہ جنگل سے پھل
،گندم اور دالوں کے بیج چُن کے یا کسی چھوٹے جانور کا شکار کر کے اس کا کچا
گوشت کھا لیتا تھا،وہ نہیں جانتا تھا کہ آگ کیا ہوتی ہے ؟ اس نے آگ جلانا
کب اور کیسے سیکھا؟ یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا۔البتہ ہم یہ جانتے ہیں کہ چین
میں پانچ لاکھ سال پہلے رہنے والا انسان آگ کے استعمال سے واقف ہو چکا
تھا۔موت سے بھاگتے بھاگتے اس نے اپنے لیے ہتھیار بنا لیے ،پتھر کی کلہاڑی
،پتھر کا چاقو،لکڑی کا گول بھاری ڈنڈا ،بڑے جانوروں کی پنڈلی کی مضبوط ہڈی
اور نیزے کو اس نے اپنے بچاؤ کا ذریعہ بنا لیا۔
کوئی ایک لاکھ سات ہزار سال پہلے اسے اپنا تن ڈھانپنے کا خیال آیا اور اس
نے پہلے پتوں سے اور پھر جانوروں کی کھالوں سے اپنا جسم ڈھانپنا شروع
کیا۔ایک لاکھ سال پہلے اس نے اپنے مردوں کو احترام کے ساتھ دفن کرنے کا
اہتمام کیا ۔پچاس ہزار سال پہلے اس نے جانوروں کی ہڈیوں سے سوئی بٹن اور
مچھلی پکڑنے کا کانٹا بنایا۔ستائیس ہزار سال پہلے اس نے کپڑے کی صنعت کی
ابتدا کی ۔ان تمام باتوں کا علم ہمیں پرانے کھنڈرات ،مٹی کے اندر دبے ہوئے
جسموں کی باقیات سے ہوتا ہےْ ہمیں اس کی زندگی کی کہانی تحریری شکل میں
نہیں ملتی ،البتہ ہم یہ جانتے ہیں کہ زندہ رہنے کی خواہش اور حالات سے
مقابلہ کرنے کا جذبہ ہی انسان کو آگے بڑھارہا ہے۔
اس نے قدیم زمانے کے انسان کو پتھروں اور جانوروں کی ہڈیوں سے ہتھیار بنانا
سکھایا ،غاروں کو جانوروں سے چھیننے کی ہمت دی۔ اسی نے اس میں قوت بڑھانے
کی سوچ پیدا کی اور ایک سے بھلے دو کے راستے پر چلتے ہوئے وہ خاندان میں
ڈھل گیا ۔خاندان سے قبیلے بنے تو پھر پتھر کے زمانے کا انسان شکاری کے روپ
میں سامنے آیا اور زندگی کے کچھ آداب اختیار کر لیے گئے۔ جب انسان خاندان
میں ڈھلا تو باپ کنبے کا سربراہ ہو گیا اس کا حکم چلنے لگا اور جب خاندان
مل کر قبیلہ بن گئے تو اسی تصور نے پہلے سردار پھر راجہ اور مہاراجہ کا روپ
دھارا۔سردارراجہ اور مہاراجہ وہی بنا جو سب سے زیادہ طاقتور تھا یا اتنا
ذہین تھا کہ اس نے طاقتور لڑاکوں کو اپنا طرف دار بنا لیا۔ ان حکمرانوں نے
ہی خاندانی حکومت اور وراثت کا تصور دیا۔
باپ کے بعد بیٹا حکمران ہوا تو حکمران کہیں (نعوذ باﷲ) مصریوں کی طرح خود
خدا بن بیٹھا اور اپنی پوجا کروانے لگا۔کہیں اسے ہندوستانیوں کی طرح بھگوان
کا دوسرا روپ قرار دیا گیا ،کہیں اس نے خود کو خدا کا نائب کہہ کر استحکام
حاصل کیا اور مختلف صورتوں میں جب سردار نے قبیلے کو منظم کیا تو اس نے
ضرورتاًشکاریوں کو باقی قبیلے پر فضیلت دی ان سے کوئی مشقت نہیں لی جاتی
تھی ،انھیں بہترین سہولتیں فراہم کی جاتی تھیں ۔یہ شکاری قبیلے کا دفاع
کرتے تھے انھیں جنگجوئی کے کمالات دکھاتے اور جانوروں کا شکار کرتے تھے۔
انھیں ہم قدیم زمانے کی فوج بھی کہہ سکتے ہیں۔
ضرورت کے تحت شکاریوں کا یہ چناؤ آگے چل کر طبقاتی تقسیم بنا،باقاعدہ لڑاکا
قبیلے وجود میں آ گئے،یہ تقسیم دنیا کے ہر حصے میں دیکھنے کو ملتی ہے اور
دورِ جدید میں ایک مدت تک جاپان کے سمورائی اور بھارت کے کھتری ان لڑاکوں
کی پہچان بنے رہے ہیں۔ شکاریوں کو الگ کرنے کے بعد اس دور میں عورتوں ،بچوں
،بوڑھوں اور معذروں کو جنگلوں سے پھل اور بیج چُن کر لانے کاکام سوبپا گیا۔
کھانا پکانے کی ذمہ داری عورتوں کی ہی رہی اور بعض علاقوں میں ناچنا اور
گانا بھی صرف عورتوں کے لیے مخصوص ہوا اور اس سے اگلا قدم شکاری تھا۔
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ انسان نے جب قبیلوں کی شکل اختیار کی تو اس
کی فطرت میں اپنی برتری ثابت کرنے کا جنون نمایاں ہوا۔دوسروں کے وسائل پر
قبضہ کرنے کی خواہش بھی اس میں ابھری۔چناں چہ لڑائیوں کی بنیاد پڑ گئی۔وہی
ہتھیار جو اسے کبھی جانوروں سے بچاؤ کے لیے درکار تھے انھیں اس نے اپنے
جیسے انسانوں سے بچاؤ کے لیے درکار تھے۔انھیں اس نے اپنے جیسے انسانوں کو
قتل کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔جب جنگجوئی کے لیے بہتر سے بہتر
ہتھیار تیار اور ایجاد ہونے لگے تب سے شروع ہونے والی ہتھیار سازی آج تک
اسی سوچ کے تابع ہے۔ انسان اپنی برتری جتانے کے لیے دوسرے انسانوں کو قتل
کر رہا ہے اور اسی شوق میں وہ ایٹم ،ہائیڈروجن ،نائٹروجن اور جرا ثیموں کے
بموں سے ہوتا ہوا نیو ٹیکنالوجی تک آ پہنچا ہے۔
مگر یہ ’’ترقیاتی ادوار ‘‘بعد میں آئے۔ہم جس دور کی بات کر رہے ہیں وہ پرے
پرواز کا نہیں ،غلیل اور تیر کمان کا ہے،ابھی انسان شہر بسانے اور بنانے کا
تصور نہیں ابھر اتھا۔وہ خانہ بدوشی کی زندگی بسر کر رہا تھا اس زمانے میں
وہ چند دن کسی دریا کے کنارے قیام کرتا ،گندم اور دالیں اُگاتا ،فصل اتار
کے اسے گھوڑوں اور گدھوں پر لادتا اور کسی نئے علاقے کی طرف چل نکلتا تھا۔
اس تیز نقل مکانی کا مقصد ہمیشہ لٹیروں سے بچاؤ ہوتا مگر یہ کوئی کامیاب
تکنیک نہیں تھی۔لٹیرے موقع ملتے ہی حملہ کر دیتے ،شکاری ان کا ڈٹ کر مقابلہ
کرتے تھے۔اگر وہ کامیاب نہ ہوتے تو فاتحین عورتوں ،بچوں اور باقی بچ جانے
والے جوانوں میں اپنے مطلب کے چھانٹ کر باقیوں کو تہہ تیغ کر دیتے،اگر جیت
قافلے والوں کی ہوتی تو لٹیروں کے ساتھ وہ بھی کوئی رعایت نہیں کرتے تھے۔اس
ہم غلامی کے دور کی ابتدا بھی کہہ سکتے ہیں۔
یہ قافلے ایسے سرسبز اور زرخیز علاقے ڈھونڈتے رہتے تھے جو ان کے بڑھتے ہوئے
قبیلے کی ضرورت کو پورا کر سکیں،جہاں جنگلی گندم ،دالوں کے بیج اور پھل عام
ہوں۔ان کے جانوروں کو چرنے کے لیے خوب گھاس ملے اور وہاں شکار کی کوئی کمی
نہ ہو۔اس تلاش میں یہ بھی عارضی بستیوں اور قافلوں پر حملے کرتے رہتے
تھے۔کچھ ایسے بھی قبائل ہوتے جو اپنے سے طاقتور سے نہیں لڑتے تھے۔ہتھیار
ڈال کر ان کے قبیلے میں شامل ہو جاتے تھے۔ان رونما ہونے والی تبدیلیوں نے
یہ جاننا مشکل بنا دیا ہے کہ کون کہاں سے آ کر کہاں آباد ہو گیا۔چوں کہ یہ
نقل مکانی بچاؤ کے لیے ہوتی تھی اس لیے جب لٹیروں سے بچاؤ ممکن نہ ہوا تو
مکان بنا کر ایک جگہ مستقل رہائش کو اختیار کیا گیا۔یوں شہری ریاستیں وجود
میں آئیں ،ہمیں پاکستان اور اس کے ارد گرد کے ملکوں میں سے پرانی شہری
ریاست چین کے صوبے ہی نان (Henan)میں دریائے ژی لو (Yi-Luo) کے کنارے آباد
جائے ہو (Jaihu)کے آثارِ قدیمہ سے ملتی تھیں۔سائنسی تجربات سے یہ ثابت ہوا
کہ یہاں سات ہزار ق م میں کاشتکاری ہوتی تھی۔چین کے یہ آثار قدیمہ پی لِنگ
گینگ(Peilingang)ثقافت کا حصہ دریافت ہو چکے ہیں جن میں’’ جائے ہو ‘‘کے
آثار سب سے پرانے ہیں۔
اس چینی تہذیب سے بھی پرانی مہر گڑھ کی شہری ریاست قرار پائی۔مہر گڑھ سندھ
کی تہذیب سے ہے اور اس کی دریافت سے پہلے سندھ کی تہذیب کا رشتہ ۳۵۰۰ ق م
جوڑا جاتاہے۔مہر گڑھ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں ہے ۔ماہرین اسے آٹھ ہزار
ق م پرانی بتاتے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ سات ہزار ق م میں تو مہر گڑھ کے
باشندے دھاتوں کا استعمال کرنے لگے تھے۔انھوں نے ترکمانستان ،از بکستان،
ایران اور عرب دنیا کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔وہ افغانستان
اور قسطی ایشیاسے قیمتی پتھر لے جا کر دوسرے ملکوں میں فروخت کرتے
تھے۔پنجاب میں ہڑپہ ،سندھ میں موئن جو دڑو اور گجرات کاٹھیاواڑ میں لوتھل
اسی کا تسلسل قرار دئے جاتے ہیں۔ان کے آثار کشمیر کے دامن اور افغانستان تک
پھیلے ہوئے ہیں ۔اب تک سندھ کی اس تہذیب کی چودہ سو سے زائد بستیاں دریافت
ہو چکی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا مہر گڑھ اور جائے ہو دنیا کی قدیم ترین شہری ریاستیں
ہیں؟ نہیں ۔۔۔۔ میں نے نہیں کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ
جیریکو(Jericho)کو بھی دنیا کا قدیم ترین شہر تصور کیا جاتا ہے۔عرب اسے
آریجا کہتے ہیں ۔جیریکو دریائے اردن کی وادی میں یروشلم سے تیرہ میل شمال
مشرق میں ہے۔کہتے ہیں کہ نافرمانی کی پاداش میں ایک مدت کے بھٹکنے کے بعد
اسرائیلیوں کو جب راستہ ملا تو وہ سب سے پہلے یہاں پہنچے تھے۔اس کی کھدائی
سے بیس پرتیں برآمد ہوئی ہیں۔ہر پرت ایک الگ دور کی کہانی بیان کرتی ہے
۔یہاں کی سب سے پرانی پرت آٹھ ہزار ق م کی ہے۔اسے کن لوگوں نے تعمیر کیا
تھا ،اس کے متعلق کچھ کہنا ابھی تک ممکن نہیں ہوا۔البتہ یہ طے ہے کہ یہ لوگ
بڑے ذہین اور منظم تھے۔نہر کھود کر عین السلطان سے پانی اس شہر تک لائے
تھے۔ یہ بستی کچج اینٹوں سے بنی ہوئی تھی اور اس کے گرد دو میٹر چوڑی فصیل
بنائی گئی تھی،اگر یہ درست ہے تو مہر گڑھ اور چیریکو ایک ہی زمانے میں
تعمیر ہونے والی بستیاں بن جاتی ہیں اور مہر گڑھ کے لوگوں میں نمایاں فرق
یہ ہے کہ چیریکو کے لوگ ظروف سازی نہیں کرتے تھے جب کہ مہر گڑھ کے لوگ
ظرافت سازی سے بھی آگے بڑھ چکے تھے۔
جس وقت انسان خود کو محفوظ کرنے مصنوعات ایجاد اور تعمیر کرنے،دوسروں کے
ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کے وسائل چھیننے
میں لگا ہوا تھا اس وقت وہ رسم الخط بھی تلاش کر رہا تھا۔ہم جب اس رسم الخظ
کا کھوج لگانے نکلتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے پہلا انسانی اظہار ان تصویروں
کی شکل میں ملتا ہے جو انسانوں نے غاروں میں بنائی ہیں۔یہ تصویریں زیادہ تر
جانوروں کی ہیں ،کچھ تصویریں ایسی ہیں جن میں انسان کو نقش کیا گیا ہے مگر
اس کا چہرہ انسانی نہیں بل کہ جانور کا بنا دیا گیا ہے ۔غاروں میں بنائی
جانے والی ان تصویروں کے متعلق ایک خیال تو یہ ہے کہ انھیں غاروں میں رہنے
والوں نے دیواروں کو سجانے کے لیے بنایا تھا۔ایک سوچ یہ کہتی ہے کہ ان کے
نزدیک اس طرح کی تصویریں جادو کا اثر رکھتی تھیں اور اس لیے بنائی جاتی
تھیں کہ شکاریوں کو ڈھیر سارے جانور مارنے میں کامیابی ہو،ان کے متعلق
تیسرا نظریہ یہ ہے کہ ان کے ذریعے شکار کے واقعات کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔
یہ سب تاویلات اپنی جگہ درست ہو سکتی ہیں اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس
دور کے انسان نے ان چیزوں کی تصویر بنائی ہو جو اسے زندہ رکھنے میں اہم
کردار ادا کررہی تھیں۔غاروں میں بنی ہوئی یہ تصویریں بڑی نازک ہوتی ہیں جب
تک یہ غار بند رہتے ہیں اور ان کے اندر کی ہوا قائم رہتی ہے اس وقت تک ان
چٹانی تصویروں کا کچھ نہیں بگڑتا مگر جب یہ غار کھولے جاتے ہیں تو ان میں
ہوا جانے لگتی ہے تو یہ تصویریں خراب ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔پری نیز
(Pyrenees)کا پہاڑی سلسلہ جو فرانس اور سپین کے کے درمیان ایک حد فاصل ہے
پہلی جنگ عظیم کے دوران اس کے ایک غار میں بڑی پرانی تصویریں ملی تھیں۔مگر
چھ مہینے کیمختصر مدت میں یہ بالکل مٹ گئیں۔ چناں چہ یورپی ملکوں میں ان
غاروں کے درجہ حرارت کوکنٹرول کرنے کے اقدامات کیے گئے۔اس طرح یورپ کے باقی
انسانی ورثے کو محفوظ کر لیا گیا۔
اس وقت جس قدر چٹانی تصاویر دستیاب ہیں ان کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ
جنوبی فرانس کے غاروں سے ملنے والی تصاویر دنیاکی سب سے پرانی ہیں اور یہ
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے کوئی تیس ہزار سال پہلے بنائی گئی
تھیں۔ہم اس دعویٰکو درست تسلیم نہیں کرسکتے۔اس دور کی چٹانی تصاویر میں
ہندوستان کے علاقے مدھیہ پردیش میں بھی ملتی ہیں۔ ان غاروں کو بھیم بیٹھک
کانام دیا گیا ہے ۔غاروں میں بننے والی ان تصویروں سے پینٹنگ کا فن ابھرا
اور بعد کے ادوار میں جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں کی تصویریں بھی ملنے
لگیں۔پھر غاروں میں بننے والی ان تصویروں سے ہی سنگی مجسموں کا آغاز ہوا
اور رسم الخط کی بنیاد بھی تصویر کشی نے ہی فراہم کی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ
۳۲۰۰ ق م میں مصریوں نے رسم الخط ایجاد کیا اور مختلف زبانوں کچھ لوگ انھیں
مختلف اشکال دیتے چلے گئے مگر رسم الخط کی یہ کہانی بھی اب پرانی ہو گئی ہے
۔چین کا رسم الخط تو پہلے ہی ان سے الگ تھا اسے کچھوے کی پیٹھ پر بنے نقوش
سے ایجاد کیا گیا ۔یہ رسم الخط اوپر سے نیچے لکھا جاتا ہے اور مشرق بعید کے
ملک جاپان ،ویت نام،کوریا،کمبوڈیاوغیرہ نے اسے اختیار کر رکھا ہے ۔ام سے ہٹ
کر مہر گڑھ کے لوگ جن کی تجارت بہت دور تک پھیلی ہوئی تھی ان کے تجارتی
خاندان کی الگ حیثیت تھی۔ وہ مصنوعات بناتے ارد گرد کے ملکوں سے مال اٹھاتے
اور بحری جہازوں پر لاد کر دور دورتک لے جاتے تھے۔ان کی بھی ایک زبان تھی
اور رسم الخط آٹھ ہزار ق م کا ہے مگر اس زبان کو سمجھنے کی تمام تر کوششیں
ناکام ہو چکیں ہیں۔اس زبان کی جدید شکل براہوی،تامل،تلگو اور ملیالم کو تو
سب سمجھتے ہیں مگر وہ زبان جو ان سب کا نکتہ آغاز ہے سمجھ نہیں آ رہی۔
ٓؓ ٓ اب اگرجیریکو کی تخطیوں پر نظر ڈالیں تو وہ بھی ایک تصویری خط کی
کہانی سناتی ہیں ،اس کے سامنے آنے سے ہمارے پاس تین پرانے تصویری خط آ جاتے
ہین ان میں سے چینی خط تو اپنی ایک الگ تاریخ بنا لیتا ہے۔مہر گڑھ اور
جیریکو کی تاریخ الگ ہو جاتی ہے۔ ۔جس طرح مہر گڑھ کی زبان نے آگے مختلف
زبانوں کو جنم دیا اسی طرح جیریکو کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ قدیم
عبرانی ،عربی اور مصری اس سے نکلی ہیں مگر یہ بات طے نہیں ہوئی کہ کون سا
رسم الخط پہلے آیا۔اس پیچیدہ صورت حال میں یقین سے صرف ایک ہی بات کہی جا
سکتی ہے کہ تصویری خط کی ایجاد سے انسان کو اپنی ذات سے آگے پہچانے کا ایک
ذریعہ ضرور میسر آ گیا ہے۔
جسے اس نے بہتر بنانا شروع کیا تو تصویریں سکڑتی چلی گئیں اور ان میں سے
مختلف زبانوں کے حروف تہجی ابھرنے لگے لیکن برتری جتانے اور قائم کرنے کا
جذبہ جہاں بھی اپنا کمال دکھاتا رہا فاتحین صرف مفتوحین کا بے دریغ قتل عام
ہی نہیں کرتے تھے وہ شہروں ،ان عبادت گاہوں ،مفتوحین کی عروج کی علامتوں کو
ہی نذر آتش نہیں کر دیتے تھے بل کہ ان کے علمی خزانے کو بھی جلا کر راکھ کر
دیتے تھے۔
آج دنیا میں اگرچہ بیشمار زبانیں بولی جاتی ہیں مگر ان میں معروف چھ ہزار
نو سو زبانیں ہیں ۔چناں چہ اس وقت زبانوں کی جان کاری ایک باقاعدہ علم بن
چکا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کون سی زبان کس کس رستے سے گزر کر آج کے
موجودہ مقام تک پہنچی ہے۔ یہاں اس بات کو دھیان میں رکھنا ضروری ہے کہ دو
لاکھ سال پہلے جب انسان کو قوت گویائی حاصل ہوئی تو اس کے ساتھ زبانیں وجود
میں آنے لگی تھیں۔پھر فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو فاتحین نے مفتوحین کی
بولی کو دبا لیا مگر کچھ الفاظ مفتوحوں کے بھی ان کی بولی میں شامل ہو گئے
،یوں زبانوں میں سے زبانیں نکلتی چلی گئیں۔ |