جائز لوٹ مار

 حکومتی لوٹ مار میں ہر وہ شخص شامل ہے جس کا داؤ چلتا ہے۔ موقع ملے تو کوئی معاف نہیں کرتا۔خصوصاً بیوروکریسی ، مگر بیوروکریسی ہر کام قانون اور ضابطے کے مطابق کرتی ہے،انہیں قانون کو موڑنا بھی آتا ہے اس لئے وہ قانون توڑتے نہیں فقط موڑتے ہیں۔ہر چیز اپنے لئے آسان بنا لیتے ہیں۔چند سال پہلے کی بات ہے۔ ایک سرکاری محکمے میں گریڈ بیس کے چار افسر تھے۔ کسی وجہ سے حکومت نے چاروں کو تبدیل کرکے ان کی جگہ چار نئے لوگوں کو تعینات کر دیا۔نئے آنے والوں کے لئے پہلے شاندار دفتروں کو توڑ پھوڑ کر نئے سرے سے ان کے مزاج اور ذوق کے مطابق تعمیر کیا گیا، لاکھوں خرچ ہوئے مگر شاید یہ بہت ضروری تھا۔ڈیڑھ سال پہلے خریدی گئی گاڑیوں کو پرانی اور کھٹارہ قرار دے کر تیرہ سو سی سی کی نئی چار گاڑیاں خریدی گئیں۔ دفاتر کی تزئین و آرائش اور نئی گاڑیوں کی خریداری میں تقریباً دو ڈھائی ماہ سے زیادہ عرصہ لگا۔اس دوران دفتر میں بہت کم کام ہوا کیونکہ بیس گریڈ کے اتنے بڑے افسروں کے بیٹھنے اور آنے جانے کا معقول بندوبست نہیں تھا۔ وہ سائل جنہیں اس دفتر میں کچھ کام تھا ، حسب سابق خوار ہوتے رہے کیونکہ اس ملک کے تین چار فیصد اشرافیہ کے حاکم افراد کو چھوڑ کر اس ملک کے چھیانوے فیصد محکوموں کا یہی مقدر ہے۔


دفتر میں باقاعدہ کام شروع ہوئے ابھی پندرہ دن نہیں ہوئے تھے کہ ایک افسر کو ملتان کے علاقے میں کسی سرکاری کام کے سلسلے میں جانا پڑا۔ انہوں نے فوری اپنے محکمے کے انتظامی افسر کو بلایا اور اسے کہا کہ ان کے دورے کے انتظامات کئے جائیں۔انتظامی افسر نے ان کی رہائش کا بہترین جگہ بندوبست کر دیا، جہاں انہیں جانا تھا، وہاں کے اہلکاروں کو ان کے دورے کی اطلاع دے دی۔اپنی طرف سے ہر کام مکمل کرنے کے بعد انتظامی افسر نے اطلاع دی تو متعلقہ افسر نے پوچھاکہ گاڑی کا کیا بندوبست کیا ہے۔گاڑی، کونسی گاڑی، آپ کے پاس نئی تیرہ سو سی سی گاڑی ہے آپ وہی استعمال کریں ،پٹرول کی مد میں جو فالتو خرچ ہو گا وہ آپ کو مل جائے گا۔بیس گریڈ کے افسر کو چھوٹے اٹھارہ گریڈ کے انتظامی افسر کا جواب پسند نہ آیا۔ کچھ ناراضی کا اظہار کیا اور کہا کہ لگتا ہے کسی اچھے محکمے میں تم نے کبھی کام نہیں کیا۔ وہ گاڑی میری ہے، میرے بچوں کی ہے ، میں لے جاؤں گا تو وہ کیا کریں گے۔اب میں نے دورے پر جانا ہے۔ گاڑی شہر میں نہیں چلانی۔ موٹر وے اور ہائی وے پر بڑی گاڑی کی ضرورت ہوتی ہے۔ فوراً کسی لینڈ کروزر کا بندوبست کرو۔چاہے تمہاری اپنی ہو یا کسی دوست سے لے کر آؤ۔


انتظامی افسر مسکرایا اور کہنے لگا ، جناب ہمارے پاس کل آٹھ گاڑیاں ہیں۔ چار نئی اور چار پرانی۔ چار نئی ملنے کے باوجود آپ میں سے تین لوگوں نے پرانی گاڑیاں واپس نہیں کیں۔ ایک گاڑی واپس آئی ہے جو دفتر کے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے استعمال ہوتی ہے۔رہی میری گاڑی تو وہ بیچاری تو پرانی، کھٹارا اور بیمار سی گاڑی ہے۔ ہفتے میں ایک آدھ دفعہ اس کی طبیعت ضرور خراب ہوتی ہے، اس دن میں اور میرے بچے تھوڑا دھکا وکا لگا کر اس کی طبیعت بحال کرتے ہیں۔ اگر ہمارے نسخے سے افاقہ نہ ہو تو قریب ہی مستری بھولا موجود ہے جو گاڑیوں کے شافی علاج کا ماہر ہے۔ بس اس طرح ہماری گاڑی چلتی رہتی ہے۔باقی لینڈ کروزر والا دوست ، تو جناب دنیا کا اصول ہے کہ کند ہم جنس با ہم جنس پرواز، کبوتر با کبوتر باز با باز۔ میرے جیسے کبوتر کا لینڈ کروزر والا کوئی باز واقف نہیں۔ ایسے لوگ آپ کے واقف ہیں کسی سے منگوا لیں۔افسر نے ماتھے پر بل ڈالا اور کہا کہ باتیں کم بناؤ اور چیف منسٹر کے نام ایک خط لکھو کہ افسروں کو دورے کے لئے چار عدد لینڈ کروزر دی جائیں۔ میں چیف منسٹر سے بات کرتا ہوں ، گاڑیاں مل جائیں گی۔


ایک نئی سمری تیار ہوئی۔ محکمے کے افسروں کے دوروں کے لئے چار عدد لینڈ کروزر مانگی گئیں۔ فنانس والوں نے لکھا کہ اس محکمے کے افسروں کو لینڈ کروزر کی کیا ضرورت ہے۔ پنجاب کے میدانی علاقوں میں کبھی کبھار انہیں جانا ہوتا ہے انہیں دوروں کے لئے تیرہ سو سی سی گاڑیاں دے دی جائیں۔ دو تین ماہ بعد ایک ایک نئی تیرہ سو سی سی گاڑی چاروں افسروں کو مل گئی۔ انتظامی افسر کو پھر بلایا گیا کہ تم نے غلط کیا کہ کیس سیدھا فنانس کو بھیجا اور لینڈ کروزر کی بجائے چھوٹی گاڑی ملی۔ ایک زور دار قسم کا کیس پھر بناؤ اور وہ فائل مجھے دو ، میں چیف منسٹر سے براہ راست منظوری لوں گا۔ وہی ہوا۔ اس وقت کے چیف منسٹرنے افسر کے کہنے پر چار عدد لینڈ کروزر کی منظوری دے دی ۔ بعد میں وہ کیس فنانس کے پاس گیا۔ کسی کی کیا جرات تھی کہ چیف منسٹر کی حکم کی عدولی کرتا۔ چند ماہ بعد ہر افسر کو ایک لینڈ کروزر مل گئی۔ اب سرکاری طور پر ہر افسر کے پاس ایک تیرہ سو سی سی گاڑی تھی۔ باقی گاڑیاں محکمے کے پول کے پاس تھیں لیکن عملی طور پر ہر افسر تین یا چار گاڑیوں پر قابض تھا ۔ ان میں سے ایک صاحب جن کے پاس چار گاڑیاں تھیں، تیرہ سو سی سی خود استعمال کرتے ، لینڈ کروزر ان کی بیگم کے پاس تھی جو ایک کالج میں پڑھاتی تھیں۔ وہ جب کالج جاتیں تو ایک ڈرائیور اور ایک باوردی گارڈ ان کے ہمراہ ہوتا۔ وہ پڑھائیں نہ پڑھائیں ، ان کا لینڈ کروزر احترام اتنا زیادہ تھا کہ کوئی پوچھ نہیں سکتا تھا۔ تیسری گاڑی بچوں کے پاس تھی اور چوتھی گھر کا سودا سلف لانے کے لئے ملازم استعمال کرتے تھے۔ ان گاڑیوں کا پٹرول اور مرمت سب محکمے کی ذمہ داری تھی۔ اس سب کو لوٹ مار کے علاوہ کیا نام دیا جائے۔لیکن اس جائز لوٹ مار کا پاکستان میں کبھی حساب نہیں ہوتا۔


جائزہ لیں تو بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ گاڑیوں، ان کے پٹرول، ان کی مرمت اور ان کے ڈرائیوروں کی تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے۔ اسے کوئی نہیں روکتا۔ ہمارے سیاستدان جنہیں اس جائز لوٹ مار کو روکنے کا سوچنا ہے ، خود ان گاڑیوں کے بھوکے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اختیار ملے نہ ملے مگر اس لوٹ مار میں کچھ حصہ ضرور ملے۔ سرکاری گاڑیاں اور سٹاف ان کی کمزوری ہیں ۔ وہ کیوں سوچیں۔ بس یہ جان لیں کہ یہ نظام اور یہ جائز لوٹ مار جاری اور ساری رہے گی، جائز اس لئے کہ اشرافیہ اسے فروغ دے رہی ہے اور اشرافیہ کا چلن ہی اس ملک کا قانون ہے۔ہمارے جیسے محکوم تو بس نعرے بازی پر ہی قناعت کرتے ہیں۔

 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 21 Articles with 24051 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.